ہوم << ناگہانی آفات- ظہور دھریجہ

ناگہانی آفات- ظہور دھریجہ

اللہ خیر کرے ، ملک اس وقت ناگہانی آفات کی زد میں ہے ۔ بلوچستان ، سندھ اور وسیب کے ڈی جی خان ڈویژن میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہی کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس دوران وسیب میں دو روڈ حادثات نے ہر شخص کو دکھی کر دیا ہے ۔

ابھی سانحہ فیروزہ کاغم ختم نہیں ہو ا تھا کہ ملتان سکھر موٹر وے پر جلال پور پیر والا انٹرچینج کے قریب لاہور سے کراچی جانے والی بس آئل ٹینکر سے ٹکرا نے ک سے 20آدمی زندہ جل گئے اور پانچ زخمی ہو گئے ۔ بس حادثے پر وزیر اعظم شہباز شریف ، گورنر میاں بلیغ الرحمن ، سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے دکھ اور صدمے کا اظہار کرتے ہوئے لواحقین سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اسی دن ایک حادثہ روہڑی بائی پاس پر بس الٹنے سے ہوا جس سے 8 افراد جاں بحق اور دو درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ اللہ رحمت فرمائے۔ ان حادثات نے پوری قوم کو مغموم کر دیا ہے۔ ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔

تحصیل تونسہ کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں سے مرنے والوں کی تعداد 4ہو گئی ہے اور ہزاروں جانور بہہ گئے ہیں ۔ سینکڑوں بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں۔ حکومت فوری طور پر ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ ڈی جی خان میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرے کہ ڈی جی خان چاروں صوبوں کا سنگم ہے اور تاریخی و جغرافیائی لحاظ سے اس کی اہمیت سے کسی کوانکار نہیں ۔ ڈیرہ غازیخان کے معروف صحافی ملک سراج کی کتاب ’’میرا وسیب‘‘ میرے سامنے ہے، یہ کتاب مختلف مضامین پر مشتمل ہے، کتاب کا ہر مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے کہ اس میں پورے وسیب کا رنگ جھلکتا ہے۔کتاب کے حوالے سے عرض کروں گا کہ اس میں سرائیکی وسیب کی دستکاریوں کا ذکر نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں کیا گیا ہے اور خواتین جو زیورات استعمال کرتی ہیں، یقینی طور پر وہ خطے کی ثقافت کا مظہر اور آئینہ دار ہیں۔

اس کتاب میں اردو بولنے والے ہمارے دوست رئیس عدیم کی خدمات کا تذکرہ پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ ان کی سرائیکی وسیب اور سرائیکی کتب کی اشاعت کیلئے بہت خدمات ہیں۔ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر سئیں احمد خان طارق کے بارے میں تحریریں چشم قلب سے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن ان کے بارے میں عنوان مجھے اتنا اچھا نہیں لگا ’’ڈوہڑے کا پہلا اور آخری شاعر‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ لمحہ موجود تک ڈوہڑے کے بادشاہ ہیں، لیکن ہم ان کو آخری شاعر نہیں کہہ سکتے، کہ آنے والے اس وقت کے فیصلے کا اختیار آنے والے وقت کے افراد کے پاس رہنا چاہئے۔ ملک سراج نے سرائیکی لکھاری اکبر مخمور مغل، وسیب کے فنکار اللہ بچایا کمہار، حافظ محمد اقبال بھٹی، محسن نقوی، عمیر پہلوان، ڈاکٹر نجیب حیدر ملغانی، خورشید نازر، نور محمد ساحل اور دوسرے بہت سے افراد کے فن اور فکر کے بارے میں بہترین تحریریں شامل کی ہیں۔

اس کتاب میں مختلف عنوانات ‘جیسا کہ سندھ کی لہروں کا سرائیکی شاعری میں اظہار ، سرد موسم اور سرائیکی شاعروں کا رومانوی انداز، آیا جیٹھ تے چڑھی مستی، سرائیکی وسیب میں بچوں کی دلچسپ لوک نظمیں، سرائیکی وسیب کے بچوں کے منظوم سرائیکی قصے، سرائیکی وسیب میں شادی کی رسمیں، ونگار، بلوچی ڈش سجی، ڈی جی خان میں اعزاداری اور تعزیہ کی تاریخ اور سرائیکی اجرک سرائیکی وسیب کی شناخت کے حوالے سے بہترین تحریریں اور مضامین شامل ہیں۔ ڈیرہ غازی خان تاریخی ، جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے بہت مردم خیز خطہ ہے ۔ اس خطے نے مشاہیر پیدا کئے ۔ آج بھی اس خطے میں ہونے والی سرائیکی شاعری اپنی مثال آپ ہے ۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ حملہ آور ہمیشہ ان علاقوں پر چڑھائی کرتے رہے جہاں اناج اور دولت کی فراوانی ہو ۔ سرائیکی وسیب کو سات دریائوں کی سر زمین کہا جاتا ہے اسی بناء پر اس علاقے میں ہمیشہ خوشحالی رہی ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ وسیب کو حملہ آوروں نے ہمیشہ برباد کرنے کی کوشش کی مگر وسیب کے غیور لوگوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ۔ دارا اول سے لیکر انگریز سامراج تک ، ہر حملہ آور کو سرائیکی وسیب میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ سکندر اعظم نے ملتان پہنچنے سے پہلے ڈیرہ غازیخان کے جن شہروں اور قلعہ جات کو برباد کیا ان میں قلعہ ہڑند، کھانڈوپرساد شہر (دلورائے ٹھیڑ) کن ٹھیڑ، ٹھیڑی، ڈراویلہ، ٹھیڑ کنڈے والا، ٹھیڑ کوٹ ہیبت، ٹھیڑ کہیہ مکڑاہاد، ڈھیڑہ (وہوا) وغیرہ شامل ہیں۔ بدبخت سکندر اعظم ڈیرہ غازیخان کے علاقے میں دو لکھ کے لگ بھگ مرد، عورتیں، بوڑھوں، جوانوں اور بچوں کو تہہ تیغ کیا۔(تاریخ ڈیرہ غازیخان مولف احسان چنگوانی) مصنف نے اپنی کتاب میں سرائیکی وسیب کے مری فورٹ منرو کا بھی ذکر کیا ہے‘ اس کے ساتھ مختلف تعلیمی اداروں کی تاریخ بیان کرکے ایک بار پھر ان اداروں کی اہمیت کو زندہ کر دیا ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یہ کتاب ہر لحاظ سے ایک بہترین کتاب ہے اور یقینی طور پر ہم اسے حوالے کی کتاب کا نام دے سکتے ہیں، در حقیقت یہ وہ کام ہیں جو کہ یونیورسٹیوں کے ریسرچ سکالرز خصوصاً سرائیکی شعبہ جات سے منسلک افراد کو کرنے چاہئیں لیکن افسوس کہ انہوں نے صرف تنخواہ کو سب کچھ سمجھ لیا ہے اور وہ کام کی ضرورت اور اہمیت سے بالکل بے خبر ہیں۔ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو اپنی دھرتی، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے محبت کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا ذکر بھی ثواب کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ صحافی اور لکھاری بہت ہیں مگر اپنے وسیب کے بارے کوئی کوئی سوچتا ہے۔ ڈی جی خان آرٹس کونسل میں ہم نے دو روزہ سرائیکی فیسٹیول کرایا۔ ملک سراج نے فیسٹیول میں شامل ادیبوں، شاعروں، فنکاروں، دستکاروں اور ہنرمندوں کے انٹرویو کئے اور مختلف اقساط کی شکل میں شائع کیا ہے ۔

Comments

Click here to post a comment