ہوم << ہیومن ازم اور اسلام کا انسان - اسرار احمد خان

ہیومن ازم اور اسلام کا انسان - اسرار احمد خان

اسرار احمد خان مغرب میں انسانی عقل کے ارتقاء سے جو انقلاب برپا ہوا، اس کے نتیجے میں مختلف نظریات بھی جنم لیتے گئے. عیسائیت کے غیر معقول عقائد کو اب عقل مزید ماننے کو تیار نہ تھی. ڈارون ازم نے ان نظریات کو ایک سائنسی بنیاد بھی دے دی اور سائنسی میدان سے زیادہ عمرانی میدان میں کامیاب ہوئی. یاد رہے آج ڈارون ازم سائنسی افسانہ نہیں بلکہ تقریباً سائنسی حقیقت بن چکی ہے، اب تو انہوں نے کریشنسٹ سے بحث کرنا بھی چھوڑ دیا ہے.
نئی دنیا کے نظریات میں سب سے اہم ہیومنزم کا نظریہ تھا جس کا بنیادی مقدمہ یہ تھا کہ کسی خدا نے نہیں بلکہ انسانوں نے خود کو خود بچانا ہے. نیچر یعنی فطری طور پر ہی انسان میں یہ بات موجود ہے کہ وہ اپنی عقل، سمجھ اور تجربے کی بنیاد پر اپنے اچھے برے کا خود فیصلہ کر سکتا ہے. ہیومنزم کا یہ عقیدہ آج تمام مذاہب کے مقابلے میں ایک مکمل دین کی شکل اختیار کر چکا ہے اور آج مغرب کا "ورلڈ ویو" یہی ہے، وہ دنیا کو اسی عینک سے دیکھتا ہے. جمہوریت بھی اسی کی ایک شاخ ہے جس میں تمام فیصلے آپ اپنی سمجھ، فہم، شعور اور عقل کی بنیاد پر اپنے اور باقی انسانوں کے بارے میں کرتے ہو، وحی یا الہامی تعلیمات کا اس میں کو عمل دخل نہیں ہوتا.
دجال کی سب سے اہم صفت ہے ایک آنکھ کا ہونا یعنی نہ پورا جھوٹ نہ پورا سچ. پورا جھوٹ تو پکڑا جاتا ہے لیکن آدھے سچ سے پورے سچ پر پردہ ڈال کر لوگوں کو دھوکا دیا جا سکتا ہے جیسے آج ہم سیکولر جمہوریت کے بارے میں دھوکے میں ہیں. ڈارون ازم اور انسانی شعور دونوں آدھے سچ ہیں. انسان کا مادی جسم مٹی میں سے ہی نکلا ہے اور اس میں مادی علوم کی سمجھ بھی موجود ہے جس کے بارے میں قرآن میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ میں نے آدم کو اشیاء کا علم سکھایا. یہ e=mc2 بھی وہی علم ہے لیکن بنیادی انسانی عقل کے ساتھ انسان کو ایک اور چیز بھی ملی ہے جسے فطرت کہتے ہیں. ہمارے نزدیک اس کی پروگرامنگ مادی جسم میں نہیں روح میں ہوئی جس میں بنیادی اچھائی، برائی کی تمیز بھی ڈال دی گئی. یہاں تک کا مقدمہ تقریباً ہیومن ازم والوں کا اور اسلام کا ایک ہی ہے اور یہاں تک ہمیں ان سے اتفاق کرنا چاہیے، یعنی آپ کے سامنے کوئی یہودی، عیسائی بھوکا مر رہا ہو تو اس کی مدد آپ نے خودبخود ہی کرنی ہے اس کے لیے آپ کو کسی وحی کی تعلیم کی ضرورت نہیں. "اور نفسِ انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا، پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اس پر الہام کر دی یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا" سورۃ الشمس
مطلب کہ اسلام بنیادی عقل اور شعور، اور نیچر میں موجود اچھائی برائی کی تمیز کو مانتا ہے، اسی لیے ہر چیز کے بارے میں ہدایت بھی نہیں دیتا یعنی ہر اچھی بات اسلام ہے .
لیکن دوسری آنکھ جو ہیومن ازم کی بند ہے وہ روحانی ہے حالانکہ انسانی فطرت بھی اس کی تائید کرتی ہے اور نوع انسانی کی کل تاریخی بھی یہ بتاتی ہے کہ خدا کو ماننا انسانی نیچر میں موجود ہے اور انسانی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ الحاد رائج رہا ہو. ظاہر ہے کہ یہ کسی فہم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ فطرت میں خدا کے موجود ہونے کی وجہ سے ہی تھا ورنہ اتنے تواتر کے ساتھ انسانی تاریخ میں نہ پایا جاتا. اب ہم مسلمان جس انسان کی بات کر رہے ہیں یہ وہ ہے جس میں خدا نے روح پھونکی تو تب جا کر مکمل انسان بنا. ارتقاء سے جنگلوں میں گھومنے والے ہیومنسٹوں کا انسان بندر ہی تھا، وہ تو جب اس میں روح ڈلی تو وہ انسان اشرف المخلوقات بنا. ہیومنسٹوں کو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب تمہیں انسان کا مکمل شعور آجائے گا تو تمھارا انسانیت کا شعور بھی مکمل ہو جائے گا. ابھی اس کی ایک آنکھ بند ہے، فی الحال وہ منکی ازم یعنی بندریت ہے جسے انھوں نے لاعلمی میں ہیومنزم سمجھ لیا ہے. بعید نہیں کہ مغربی فکر ارتقاء کر کے مکمل انسان تک پہنچ جائے -
"کیا وہ شخص جو پہلے مُردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اُجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زندگی کی راہ طے کرتا ہے اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو" سورة الانعام
یہاں سے ہیومن ازم اور اسلام کے راستے جدا ہو جاتے ہیں اور دونوں اپنا الگ الگ منصوبہ رکھتے اور پیش کرتے ہیں. اسلام بنیادی اچھائی اور برائی کے تصور میں وحی کو شامل کرتا ہے اور جسم کے ساتھ روح کو بھی جمع کرتا ہے، مادی اور روحانی علوم کو ملا کر انسان کی تکمیل کرتا ہے تو دو آنکھیں مکمل ہو جاتی ہیں. اب انسان مکمل شعور کے ساتھ دونوں آنکھوں کے ساتھ راستہ طے کرنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے پھر جاکر یہ پوزیشن ملتی ہے کہ "اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانیت کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے. تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو". سورۃ ال عمران
بہترین گروہ دو آنکھوں والا ہے کیونکہ فطرت انسانی میں موجود اچھائی اور برائی کے تصور سے ایک درجے کے آگے کا بدی اور نیکی کا تصور اس گروہ کے پاس موجود ہے. یاد رہے کہ فطرت انسانی میں موجود اچھائی برائی کا تصور اگر ہمارے لیے میٹرک ہے تو یہ اس پر پی ایچ ڈی ہے. یہ اس کا رد نہیں بلکہ اگلی سٹیج ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے. ظاہر ہے کہ جس خدا نے فطرت کی ڈیفالٹ سیٹنگ کی، اسے ساتھ میں اس سے کمتر چیز دینے کی ضرورت نہیں تھی. افضل گائیڈلائن دینے کے بعد پھر جا کر اس کے حاملین کو بہترین گروہ قرار دیا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ بہترین گروہ کچھ خصوصیات، اخلاقیات اور اقدار کا نام ہے کوئی کانسٹنٹ پوزیشن نہیں. بہترین گروہ جب اَقدار میں باقیوں سے پیچھے رہ جائے تو دوسروں کو گالیوں کے بجائے خوداحتسابی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ گروہ کسی سے کمپٹیشن میں نہیں، اس کے ہائی گولز دوسروں کے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں، اس کا مقابلہ خود اپنے ساتھ ہے.
المیہ یہ ہوا کہ ہیومنسٹوں نے انسانیت کے نام پر مذہب سے جان چھڑوا لی اور مذہبیوں نے مذہب کے نام پر انسانیت سے. دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں تو مغرب ہمیں اقدار میں مسلمانوں سے کافی بہتر نظر آتا ہے. ہمارے ہاں گمراہ عوام، دنیا پرست علماء اور جاہل و ظالم حکمرانوں کا اتحاد ثالثہ جو گل کھلا رہا ہے، وہ کہیں سے بھی بہترین گروہ والا منظر پیش نہیں کرتا. آج جس قسم کا شرک، توہم پرستی، شخصیت پرستی اور بدکرداری مسلم دنیا میں پائی جاتی ہے، اس پر نظر ڈالیں تو بہترین گروہ کے زوال کی وجوہات سمجھ آجائیں گی.
"ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نِیچوں سے نیچ کر دیا" سورۃ التین