سڑک پر چلنے کا پہلا حق پیدل چلنے والوں کا ہے، اس کے بعد دوسروں کا. جب راستے سیدھے، صاف اور رکاوٹوں سے پاک ہوں تو فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور لوگ خوش اسلوبی سے اپنے معمول کے امور بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں. اس کے بر خلاف اگر راستے تنگ ہوں، ٹیڑھے ہوں اور جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی ہوں تو ذہنی کوفت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے. والی سوات کے دور حکومت میں یہ قانون بنایا گیا تھا کہ آبادی سڑک سے 35 فٹ دور ہونی چاہیے اور ہر شخص اس پر عمل کرنے کا پابند تھا۔ لیکن جب ’’ریاست سوات‘‘ پاکستان میں ضم ہو کر چور دروازوں سے آئے ہوئے لوگوں کے حوالے کی گئی تو سڑک کے عین کنارے دکانیں تعمیر کرائی گئیں. اب ایک تو سڑکیں کشادہ نہیں، اوپر سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے سیلاب سے منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے. ہر کوئی گاڑی چلا سکتا ہے، اس کے لیے عمر کی حد مقرر ہے نہ لائسنس اور قاعدے قانون کی. اگر کسی کو مار دیا یا خود حادثے کا شکار ہوگئے تو کوئی پروا نہیں، زیادیہ سے زیادہ اخبار میں دو کالمی سرخی میں کسی ایک کے مرنے کا بیان آئے گا اور پھر معمولات زندگی رواں دواں ہو جائیں گے.
جس طرح مکڑی کے جالے میں چھوٹے حشرات پھنستے ہیں، اور طاقتور مکڑی سمیت جالے کو بھی ختم کر دیتے ہیں، اسی طرح ڈیوٹی پر مامور اہلکار ایسے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جو مزدوری کی خاطر گھر سے نکلتے ہیں، چمچماتی گاڑیوں پر ان کی نظر نہیں پڑتی۔ موٹر سائیکل سواروں نے الگ سے ناک میں دم کر رکھا ہے. ہر کسی کے پاس موٹر سائیکل ہے، اور چلانے کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہے. روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں نئے موٹر سائیکل آتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں. کمپینیاں لوگوں کو مختلف ترغیبات دے رہی ہیں. ٹین ایجرز بائیک کو ہوائی جہاز سمجھ کر چلاتے ہیں اور حادثات کا باعث بنتے ہیں جو اب یہاں معمول بن گیا ہے.
ارباب اقتدار سے گزارش ہے کہ بے شک نئی سڑکیں نہ بنائیں لیکن موجود سڑکوں سے تجاوزات کا خاتمہ کرکے بےچارے عوام کو سکھ کی چند گھڑیاں دے دیں. تجاوزات میں سرفہرست دکاندار حضرات ہیں جو اپنا ساز و سامان سجانے کے لیے فٹ پاتھ کا سہارا لیتے ہیں. پیدل چلنے والے جان بچا کر سڑک پر چلتے ہیں، دکانوں کی لٹکی ہوئی اشیاء ان کے سروں سے ٹکراتی ہیں. دوسرے نمبر پر ٹھیلے والے ہیں جو سڑک کے کنارے پھل، سبزیاں اور دوسری چیزیں فروخت کر رہے ہوتے ہیں. تیسرے نمبر پر وہ گاڑیاں ہیں جو سڑک کے دونوں کناروں کو پارکنگ کے طور پر استعمال کرتی ہیں. نتجتاََ ٹریفک سارادن جام رہتا ہے اور لوگ اس کے ہاتھوں ذلت اٹھاتے ہیں.
کیا کیا جا ئے کہ پریشان تو سارے ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں. منتخب عوامی نمائندوں کو اخبارات میں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے فرصت نہیں، میڈیا کو قندیل بلوچ اور مفتی عبدالقوی کے تعلقات ثابت کر نے سے دلچسپی ہے، اپوزیشن کو دھرنوں کے سوا کوئی حل نظر نہیں آتا، ڈار صاحب انگلیوں پر معیشت کا گراف اونچا کر رہے ہیں، پرویزرشید اور مولانا فضل الرحمن پانامہ لیکس کے دفاع میں لگے ہیں، امیرمقام کو اپنا مقام اونچا کر نے کی فکر ہے، حکومت اپنی صحت سے پریشان ہے اور کھانسی کے علاج کے لیے بھی لندن یاترا کرتی ہے، او رعوام بے چارے رل رہے ہیں، ان کا کوئی پرسان نہیں ہے.
مسئلہ وسائل کا نہیں نیت، وژن اور سب سے بڑھ کر اخلاص کا ہے. نیت میں کھوٹ نہ ہو اور دل اخلاص کی دولت سے معمور ہو تو راستے آسان اور سہل ہو جاتے ہیں. قانون اچھا ہو یا برا جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، قانون تبھی قانون بنتا ہے جب اس پر من وعن عمل کیا جائے. یہ کوئی بڑا مسئلہ ہے نہ اس کےلیے وسائل کی ضرورت ہے، قانون کو حرکت میں آنا چاہیے، صرف ایک ہفتے میں سب ٹھیک ہو جائے گا.
تبصرہ لکھیے