شریعت نے زمین میں فساد اور خون خرابہ روکنے اور ختم کرنے کے لیے واضح اصول دیے ہیں۔ اسلامی قوانین قصاص و دیت اور تعزیرات پاکستان میں قتل کا جرم ثابت ہونے پر معافی اور صلح کی عدم موجودگی میں سزا اور ان کی موجودگی میں دیت کی مقدار یا بدل صلح کی ادائیگی کے لیے واضح ہدایات موجود ہیں۔ تاہم اس وقت قتل کے مقدمات میں مقتول کے ورثا یا تو فی سبیل اللہ معافی کے نام پر زمین لے لیتے ہیں یا پھر دولت مند لوگوں کو معافی طلب کیے بغیر معافی مل جاتی ہے یا پھر مقتول کے ورثا کو دباؤ میں لاکر ان سے راضی نامہ کر لیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق مجرم کا اعتراف جرم اور افسوس کا اظہار کافی نہیں، بلکہ دیت یا بدل صلح کی ادائیگی بھی لازم ہے۔ تاہم اصل مسئلہ اس وقت سامنے آتا ہے جب مقتول غریب طبقے سے تعلق رکھتا ہے مگر قاتلوں کے اثر و رسوخ کی بدولت اس کے ورثا قاتلوں کو معاف کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پاتے۔ بااثر لوگ دیت اور بدل صلح کے قوانین کو اپنے لیے ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں یا مقتول کے ورثا کو مجبور کرکے اللہ کے نام پر معافی حاصل کرلیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ورثا قصاص میں چھوٹ اپنی حدود میں رہ کر دیں، ریاست معافی کے باوجود تعزیری سزا کا نفاذ کرے، اور پارلیمنٹ قتل کو فساد فی الارض قرار دے کر بااثر قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
ہوم << قتل کے مقدمات میں قوانین کا غلط استعمال - مفتاح الدین خلجی
تبصرہ لکھیے