ہوم << میں ہی دیوتا ہوں - عبداللہ طارق سہیل

میں ہی دیوتا ہوں - عبداللہ طارق سہیل

بنگلہ دیش میں وہ کام ہوا ہے جو ہر ملک میں ہونا چاہیے لیکن آج تک کسی ملک میں نہیں ہوا۔ وہاں ایک پاپ گلوکار، جس نے اپنا نام ہی ہیرو عالم رکھا گیا ہے، اس الزام کے تحت گرفتار کر لیا کہ وہ بے سرا گاتا ہے، اس کی آواز پھٹے ڈھول جیسی ہے اور اس نے اساتذہ کا کلام اس بھونڈے انداز میں گایا ہے کہ اساتذہ کی روحیں دکھی اور ان کے پرستاروں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ ہیرو عالم بظاہر لگتا ہے ہیروئے عالم کی شکل ہے یعنی کل زمانے کا ہیرو۔

فارسی اصولِ اضافت کے تحت انگریزی لفظ ہیرو کو عربی فارسی لفظ عالم کے ساتھ زیر کی زنجیر سے نہیں باندھا جا سکتا چنانچہ اس نے پائے اضافت ارادی۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ موسیقی کا علم اسے چاہے نہ ہو گرامر یا صرف و نحو کے قواعد جاننا ہے ماشاءاللہ ورنہ وہ نام ’ہیروئے عالم‘ رکھ دیتا تو توہینِ قواعد زبان کے تحت بھی مقدمہ بن سکتا تھا۔ خبر کے مطابق، ہیروئے عالم نے بہت سے البم بنائے ہیں اور ان کے مداح 20 لاکھ سے زیادہ ہیں جو ان کی بے سری بے تال کی موسیقی پر سر ہی نہیں، پورا جسم دھنتے ہیں۔ پولیس نے چھے گھنٹے انھیں حراست میں رکھا اور اس تنبیہ کے بعد رہا کر دیا کہ وہ کم سے کم کلاسیکی موسیقی کو تختہ¿ مشق نہیں بنائے گا۔ رہائی کے بعد کل عالم کے ہیرو نے بتایا کہ چھے گھنٹے تک اس پر تشدد کیا جاتا رہا۔ جسمانی نہیں، ذہنی تشدد۔ ذہنی اس طرح کہ اس عرصے میں اس کی ’کلاکاری‘ کی مذمت کی جاتی رہی اور اس بے سرے بے تالے دھندے سے باز رہنے کی نصیحتیں کی جاتی رہیں یعنی بہت ہی تھرڈ ڈگری کا ذہنی ٹارچر۔ موصوف کی گرفتاری سرتال والی موسیقی کے شائقین کی بڑی تعداد میں شکایات وصولی کے بعد عمل میں آئی جس میں کہا گیا تھا کہ آواز پھٹے بانس کی ہے اور سر ہے نہ تال۔

بے سرے اور بے تالے دنیا کے اکثر ملکوں میں ہیں لیکن ان سب کی تعداد بشمول بنگلہ دیش اکٹھی کی جائے تو حاصل جمع اس تعداد سے پھر بھی بہت کم ہو گی جتنی اکیلے پاکستان میں ہے۔ یہ دعویٰ مبالغہ نہیں، بالکل سچ ہے اگرچہ بہت سے لوگ اسے سچ نہیں مانیں گے۔ مزے کی بات ہے کہ یہاں بے سروں کی داد دینے والوں کی تعداد کل عالم کے ہیرو کے مداحین سے کہیں زیادہ ہے۔ اور بنا مزے کی بات یہ ہے کہ یہاں ان کی شکایت کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ گرفتاری اور ذہنی تشدد والے ماجرے کا تو سوال ہی کہاں۔ سینکڑوں مثالیں ہیں۔ بس ایک مثال پر گزارا کیجیے کہ ایک ماورائے حد تک بے سرا، بے تالا گیت ’نچ پنجابن‘ گایا گیا تو شکایت کرنے والوں نے صرف اس کے الفاظ اور تھیم پر اعتراض کیا، موسیقی کے اصولوں کی بے حرمتی کی شکایت کسی نے نہیں کی اور نہ ہی کسی نے یہ سوال اٹھایا کہ پھٹے بانس کی یہ بانسری کہاں سے آئی۔ اعتراض پر گانے کے بول بدل دیے گئے لیکن پھٹے بانس کی بانسری بدستور بجتی رہی۔

ایف ایم ریڈیوز اور بعض کاروباری اداروں کے ’سٹوڈیوز‘ نے بھی بے کمالی کو کمال بخشنے کا کمال کر دکھایا۔ گاﺅ، بھدا اور بھونڈا گاﺅ، پھٹے بانس کو بھی شرمندہ کرو ، سر کو بخشو نہ تال کو۔ بس نصیبا اگر لال ہے تو سب لال ہے۔ یہی سکہ رائج الوقت کر دیا گیا ہے۔ کیسے کیسے بے سروں کو داد ملتی ہے کہ خدا کی قدرت یاد آ جاتی ہے۔ اوپر سے میڈیا میں ایسے نقاد نما مداحوں کی کمی نہیں جو یہ بتائیں گے کہ دیکھو، یہ خارپشت (سیہہ) نہیں، مور ہے۔ دیکھو، دم کے پر کیسے سیدھے کھڑے ہیں۔

موسیقی کے فن پر قدرت کی ایسی مثالیں بھی ہیں کہ حیران کر دیں۔ بنا آرکسٹرا کے محض ہاتھ اور منہ کی مدد سے گت بجانے والے غیر معروف فنکار بھی آپ نے دیکھے ہوں گے۔ عباسی بادشاہت کا ایک واقعہ کتابوں میں بہت بار مذکور ہوا۔ دو افراد خود کو سازندہ بتاتے تھے لیکن کوئی ساز ان کے پاس نہ تھا۔ بادشاہ کے دربار پہنچے اور گت بجانے کی اجازت مانگی بادشاہ نے کہا، تمہارے ساز کہاں ہیں؟ دونوں نے اپنی اپنی جیب سے دو دو لکڑیاں نکالیں۔ بادشاہ حیران ہوا کہ ان سے کیا ہو گا۔ سازندوں نے کہا، اجازت دیں تو دکھائیں ہم کیا کیا گت بجا سکتے ہیں۔ اجازت ملی اور انھوں نے لکڑیوں کو ایک دوسرے سے بجانا شروع کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ردھم میں آ گئے سماں بند ہو گیا، سحر طاری ہونے لگا، پہلے اکھیاں بھر آئیں والا ماحول بنا، پھر سسکیاں بلند ہوئیں، معاً بعد گریہ شروع ہوا اور سب اہلِ دربار اس بری طرح رونے لگے کہ روتے روتے گھگھی بندھ گئی۔ بادشاہ نے ہچکیاں لیتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اب بس کرو۔ وقفہ کے بعد دوسری گت بجانے لگے، سب ہنسنے لگے اور اتنا ہنسے کہ روتے روتے گویا گگھی ہی بند ھ گئی، سینوں کا دم حلق میں آ گیا۔ بادشاہ نے بعدازاں انعام دیا۔ اہلِ دربار کو حیران چھوڑ کر دونوں دربار سے چلے گئے اور پھر کبھی کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔

اب ایک گت کا ذکر جو ایک سیاسی آرکسٹرا بجا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے 9 ارکان کے استعفے منظور کرتے ہوئے قومی اسمبلی کے ان 9 حلقوں پر ضمنی انتخابات 25 ستمبر کو کرانے کا اعلان کر دیا ہے اور پی ٹی آئی کے قائد عمران خان نے اعلان کیا کہ وہ ان نو کی نو سیٹوں پر خود امیدوار ہوں گے یعنی اکیلے ہی لڑیں گے، کسی اور کو ٹکٹ نہیں دیں گے۔ سیاسی مبصرین نے اسے خوف کی علامت قرار دیا ہے۔ دوسرے امیدوار کھڑے کیے تو ہار جانے کا خدشہ ہے۔ یہ رسک عمران خان نہیں لیں گے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خود کھڑے ہوں گے تو مایوس ہو کر گھر بیٹھ جانے والے ان کے ووٹر بھی باہر نکلیں گے۔

سیاسی مبصر یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ جیتنے کے بعد باقی نو سیٹیں پھر خالی ہو جائیں گی (ایک نشست ابھی خان صاحب کے پاس ہے، ان کا استعفیٰ بھی منظور نہیں ہوا، یعنی ضمنی الیکشن دس سیٹوں پر ہوں گے)۔ پھر ان نو سیٹوں پر ایک اور ضمنی الیکشن ہو گا، ان میں بھی ہر سیٹ پر خان صاحب ہوں گے اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہے گا لیکن میرے خیال میں یہ معاملہ صنا دیدِ موسیقی سے تعلق رکھتا ہے اور کسی حد تک نارسیس ازم سے بھی۔ لتا جی کا مشہور گانا ہے: جدھر دیکھتی ہوں ادھر تو ہی تو ہے ۔ اس گانے کو یوں گنگنائیے:

جدھر دیکھتا ہوں، ادھر میں ہی میں ہوں

میں ہی میرا مندر، میں ہی میری پوجا، میں ہی دیوتا ہوں

کوئی میری آنکھوں سے دیکھے تو سمجھے کہ میں میرا کیا ہوں

میں ہی دیوتا ہوں ، میں ہی دیوتا ہوں

Comments

Click here to post a comment