ہوم << شکاگو ٹو کینیڈا براستہ پاکستان - رؤف کلاسرا

شکاگو ٹو کینیڈا براستہ پاکستان - رؤف کلاسرا

ایک صاحب سے شکاگو میں ملاقات ہوئی تو اندازہ ہوا کہ ہمارے ملک کو کس طرح لوٹا گیا اور لوٹا جارہا ہے۔ بتانے لگے کہ آج کل پاکستانی پولیس اور کسٹم افسروں کی فیورٹ منزل کینیڈا ہے۔ یہاں ہر دوسرا پاکستانی آپ کو کسی پولیس یا کسٹم افسر کے خاندان سے ملے گا۔

پولیس افسر سے یاد آیا‘ پنجاب کے ایک ڈی آئی جی کا تین سال قبل بہت چرچا ہوا تھا۔خبریں یہ تھیں کہ انہوں نے کینیڈا میں بیس لاکھ ڈالرز کا گھر لے کر بچے وہاں شفٹ کر دیے تھے۔ خود بھی وہ ایک سال کی چھٹی لے کر کینیڈا چلے گئے تھے۔ یہ بیوروکریٹس ایک دوسرے کو چھٹیاں دیتے رہتے ہیں تاکہ وہ بیرونِ ملک جا کر بچوں کو سیٹل کر کے لوٹ آئیں اور لوٹ مار کا سلسلہ وہیں سے شروع کریں جہاں چھوڑ کر گئے تھے۔ اُس پولیس افسر کی بڑی خبریں لگیں۔ نیب نے بھی انکوائری کی۔ آخر الزام ثابت ہونے پر انہیں نوکری سے برطرف کر دیا گیا مگر حال ہی میںپاکستان لوٹتے ہی انہیں بحال کر دیا گیا ہے۔

نوٹیفکیشن کے مطابق ڈی آئی جی صاحب‘ جنہیں اس سال جنوری میں ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا‘ اب دوبارہ بحال ہوچکے ہیں۔ انہیں وزیراعظم شہباز شریف نے ان کی اپیل پر بحال کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کو داد دیں‘ انہوں نے آتے ہی اپنے دور کے اُن تمام افسروں کو کلین چٹ دے کر دوبارہ عہدے عطا فرما دیے ہیں جن پر کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ اب تازہ ترین فیصلہ اُس ڈی آئی جی کی بحالی کا ہے جس کو سنگین الزامات پر برطرف کیا گیا تھا۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شریف خاندان کے حکمرانوں نے کیا سبق سیکھا ہے۔ چالیس سال بعد بھی وہ وہیں کھڑے ہیں جہاں سے شروع کیا تھا۔ انہیں فرق نہیں پڑتا کہ دنیا کتنی بدل گئی ہے۔ کرپشن کا کلنک ماتھے پر لگ چکا ہے لیکن وہ اب بھی وہی کام کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ جیلوں میں گئے‘ مجال ہے کوئی تبدیلی آئی ہو۔ انہیں پتا ہے کہ انہی کرپٹ افسروں سے انہوں نے اپنے ذاتی کام لینے ہیں۔ انہیں ایسے وفادار ملازم درکار ہوتے ہیں جو اُن کے ہر طرح کے احکام بجا لانے پر تیار ہوں‘ یا پھر سب کچھ لوٹنے میں ان کی مدد کریں اور انہیں رولز اور ریگولیشنز نہ سمجھائیں۔ انہیں گوگیٹر ٹائپ بیوروکریٹ چاہیے ہوتے ہیں۔

بیوروکریٹس کی ایک بڑی تعداد اب اس راہ پر چل نکلی ہے کہ اس ملک میں کچھ نہیں بچا۔ بہتر ہے سب کچھ باہر شفٹ کر دو۔ شکاگو میں جو کہانیاں سنیں‘ ان سے اندازہ ہوا کہ پاکستان برباد کیوں ہورہا ہے۔ جو کچھ ان کے ہاتھ لگ رہا ہے وہ سب لوٹ کر دوسرے ملکوں میں بھیج رہے ہیں۔ ایک اہم بندے نے بتایا کہ ایک سابق چیئرمین نیب‘ جن کے اسلام آباد میں پٹرول پمپ اور جائیدادیں تو ہیں ہی، یہاں شکاگو میں بھی انہوں نے خاصی سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ اس وقت ہر دوسرا بیوروکریٹ جیب میں دوسرے ملکوں کی شہریت لے کر گھوم رہا ہے۔ پاکستان میں اگر نیب ان پر ہاتھ ڈالے تو یہ فوراً رولا ڈال دیتے ہیں کہ جناب ہمارے ساتھ ظلم ہورہا ہے‘ ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے‘ ہم کسی فائل پر دستخط نہیں کریں گے۔ اب تو خیر سے نیب کے اپنے افسر بھی ارب پتی بن چکے ہیں۔ نیب کے کئی اعلیٰ افسر جو کسی دور میں بڑے بڑے کرپٹ بزنس پرسنز کی تحقیقات کرتے تھے‘ کچھ عرصہ بعد ان لوگوں کے ایڈوائزر لگ کر لاکھوں کی تنخواہیں ان سے لے رہے تھے اور لے رہے ہیں۔

اگر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور دیگر ایڈوانس ملک سخت شرائط پر پاکستان کو جو قرضے دیتے ہیں‘ ہمارے کرپٹ افسر وہی ڈالرز واپس منی لانڈرنگ کرکے ان ممالک میں لے جاتے ہیں۔ پاکستانی عوام وہ قرضے واپس کرتے رہتے ہیں اور ہماری ایلیٹ وہ سب کچھ امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ شفٹ کرتی رہتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ان افسروں اور سیاستدانوں نے کیسے ان ترقی یافتہ ملکوں کی شہریت لے لی؟سینیٹر صغریٰ امام نے سینیٹ میں ایک بل پیش کیا تھا کہ جن افسروں کے پاس دہری شہریت ہے ان پر پابندی عائد ہونی چاہیے کہ وہ ایک شہریت چھوڑ دیں۔ برسوں گزر گئے لیکن اس بل کا کچھ پتا نہ چلا۔ اس طرح سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی افسروں نے دوسرے ملکوں کی شہریت لے رکھی ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو ہدایت جاری کی تھی کہ وہ اس پر کوئی فیصلہ کرے اور قانون بنائے۔ اس وقت دو سابق ڈی ایم جی افسر وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے ان معاملات پر مشیر تھے۔ ڈاکٹر عشرت حسین اور ارباب شہزاد‘ دونوں نے مل کر سپریم کورٹ کے اس حکم نامے کو کہیں ڈمپ کر دیا۔ اس بات کو بھی تین سال گزر گئے۔

اب مجھے کوئی شکاگو میں بتا رہا تھا کہ یہ افسر کیسے سارا پیسہ ان ملکوں میں لائے اور یہاں کسی نے پٹرول پمپ لگا لیا تو کسی نے ہوٹل میں سرمایہ کاری کر لی۔ پھر لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان کیسے ڈیفالٹ کے قریب پہنچ گیا۔ جب باڑ ہی کھیت کو کھانے لگ جائے گی تو پھر کیسے یہ ملک بچ سکتا ہے۔ اس ملک پر اربوں ڈالر کا قرضہ ایسے تو نہیں چڑھ گیا۔ اتنے قرضوں کے باوجود ملک ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکا۔ روز بروز مقروض ہوتا چلا گیا۔ہمارے بیشتر سیاستدان اور افسران یہ طے کر چکے ہیں کہ وہ جتنا پیسہ پاکستان سے نکال سکتے ہیں‘ نکال لیں۔ بیوروکریسی‘ جس نے کسی ملک کو چلانا ہوتا ہے اگر وہی جواب دے جائے تو پھر اس ملک کی تباہی میں کتنی دیر لگتی ہے۔ پاکستان کو کھوکھلا کرنے کا یہ حملہ کسی بیرونی فوج نے نہیں کیا بلکہ یہ حملہ اندر سے ہوا ہے۔ اگر ہمارے اپنے لوگ اس ملک کی راہ میں بارودی سرنگیں نہ بچھاتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ ڈالر کو ڈھائی سو روپے تک لے جا کر کچھ پارٹیوں نے تگڑا مال بنایا کہ ہر بندے نے ڈالر خریدنا شروع کر دیے۔ جن کے پاس ڈالر تھے انہوں نے بیچ کر پیسے کھرے کر لیے۔ اب ڈالر کو نیچے لایا جارہا ہے اور جنہوں نے یہ سمجھ کر خرید لیے تھے کہ ڈالر تین سو روپے تک جائے گا وہ اب چیخیں مار رہے ہیں۔

یوں لگتا ہے سب کو بہت جلدی ہے کہ پاکستان کو خدانخواستہ کچھ ہو جائے۔ ہم نے ایسے طوفانی حالات پیدا کر دیے ہیں جن سے نکلنا آسان نہیں۔ اب ہمیں ایک عجیب سی لذت محسوس ہونے لگی ہے خود کو اس حالت میں پا کر۔ ہم روز ایسے بیانات‘ ایسے ٹویٹس اورپریس کانفرنسز کرتے ہیں کہ جو بم ہم پر کل گرنا ہے وہ آج ہی گر جائے۔ روز رات کو یہ سوچ کر سوتے ہیں کہ صبح تک آسمان ہمارے ملک پر گر چکا ہوگا۔ اگلی صبح آسمان کو اپنے گھر کی چھت پر نہ گرا پاکر ہم سخت مایوس ہو جاتے ہیں۔ پورا دن ڈپریشن میں گزرتا ہے کہ ابھی تک کچھ ہوا کیوں نہیں‘ پاکستان اب تک کیوں ڈیفالٹ نہیں ہوا؟ دوست ممالک کیوں ہماری مدد کو آرہے ہیں؟ روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تین سو روہے تک ابھی تک کیوں نہیں پہنچا ؟ روپیہ کیوں واپس طاقت پکڑ رہا ہے؟ ہر کوئی اس ملک کو چوس رہا ہے۔

اگر کوئی شک رہ گیا تھا تو وہ شکاگو میں یہ کہانیاں سن کر دور ہوگیا ہے۔ اس ملک کو وہی کھا گئے ہیں جنہوں نے اپنے ملک کو امریکہ‘ کینیڈا یا برطانیہ بنانے کے بجائے پاکستان سے پیسہ نکال کر انہی ملکوں کو واپس کر دیا۔ یہ ملک کیسے لُٹا‘ کس نے لوٹا اس کی ساری کہانی اس ایک نوٹیفکیشن سے پتا چلتی ہے کہ کیسے ایک ڈی آئی جی کینیڈا جا کر بیس لاکھ ڈالرز کا گھر خرید کر بچوں کو وہاں سیٹل کر کے پاکستان لوٹ کر ملازمت سے برطرفی کا لیٹر وزیراعظم شہباز شریف سے واپس کرا کے دوبارہ پوسٹنگ لے کر وہیں سے مال کمانا شروع کردیتا ہے جہاں سے سلسلہ ٹوٹا تھا۔

Comments

Click here to post a comment