ہوم << فیصلہ آ گیا، لیکن سب خیر ہے- عبداللہ طارق سہیل

فیصلہ آ گیا، لیکن سب خیر ہے- عبداللہ طارق سہیل

اُس کیس کا فیصلہ آ گیا جسے سات آٹھ برس تک فارن فنڈنگ کیس کا نام دیا گیا، بعدازاں عدالتی حکم کے تحت اس کا نام ممنوعہ فنڈنگ کر دیا گیا۔ الیکشن کمشن نے بھی پہلا فیصلہ ’’ممنوعہ فنڈنگ کیس کے نام سے جاری کیا ہے نہ کہ فارن فنڈنگ کے نام سے۔

اگرچہ فیصلے کے متن میں جابجا فارن کنٹری، فارن سٹیزن، غیر ملکی شہری، غیر ملکی کمپنی کے الفاظ آئے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ٹائٹل میں ممنوعہ ہے تو پھر سب ممنوعہ ہی ہے۔ آپ چاہیں تو اپنی کاپی کی حد تک اس میں تصحیح بھی کر سکتے ہیں یعنی جہاں جہاں غیر ملکی لکھا ہے، وہاں وہاں ممنوعہ کے لفظ سے اسے بدل دیں جیسے کہ ممنوعہ ملک، ممنوعہ شہری، ممنوعہ کمپنی وغیرہ۔ فیصلے کا سب سے اہم نتیجہ، غیر عدالتی زبان میں یہ ہے کہ خاں صاحب سے صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ واپس لے لیا گیا ہے کیونکہ ان کا جمع کرایا گیا بیان حلفی جھوٹا قرار پایا ہے۔ مخالف حسب خواہش اور حسب توفیق بغلیں بجا سکتے ہیں لیکن یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ صوابدید عمران خان صاحب کے پاس ہیں۔

وہ یہ سرٹیفکیٹ واپس کرنے سے انکار کر دیں تو آپ کیا کر لیں گے۔ پھر یہ بھی کہ حتمی فیصلہ تو اوپر سے ہونا ہے، اوپر سے حسب سابق ریلیف مل گیا تو آپ کیا کریں گے۔ بجائی گئی بغلیں واپس کیسے لیں گے۔ فیصلہ کی روسے، جیساکہ قانون جاننے والے بتا رہے ہیں، وفاق حکومت پابند ہے (بعض کے خیال میں پابند نہیں، بااختیار ہے) کہ وہ ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر ایک ریفرنس بھجوائے جس میں خان صاحب کی نیک سیرت اور قبول صورت، باکردار پارٹی کو خلاف قانون قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہو یا تجویز دی گئی ہو۔ شہباز شریف جب تک حکومت میں سربراہ ہیں، ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ قبول صورت نیک سیرت پارٹی اگرچہ انہیں ’’بھیڑا بندا‘‘ کہتے تھکتی نہیں لیکن وہ اس کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہیں۔ ساڑھے تین سال وہ پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف رہے اور اس پورے عرصے میں ان کی طرف سے گرم ہوا کا کوئی جھونکا بھی قبول صورت پارٹی کی سمت نہیں گیا۔

رواداری اور یکطرفہ الفت کا یہ سفر ختم ہونے کا امکان کم ہی ہے، لیکن بہرحال سیاست توسیاست ہی ہوتی ہے، ہماری یہ خوش فہمی کسی وقت غلط فہمی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ شیخ رشید قبلہ اس فیصلے پر سخت برہم ہیں۔ ایک ٹی وی چینل نے ان سے ببپرلیا (ببپر کو اردو میں سرسری فوری سماعت والا انٹرویو کہا جا سکتا ہے) فیصلے پر تو انہوں نے چنداں اظہارِ خیال نہیں کیا، ایک آدھ فقرے پر ہی کفایت اور قناعت فرمائی لیکن زیادہ بلکہ سارا وقت اپوزیشن کو بے بھائو، بے نقط اور بے ربط فقروں کی لسٹ میں لیے رکھا۔ خلاصہ ان کی تقریر دلپذیر کا یوں تھا، اپوزیشن غرق ہونے والی ہے، اپوزیشن کی سیاست غرق ہونے والی ہے، لندن میں نواز شریف نے بھی کہہ دیا ان سے ش نکل آئی۔ عمران کا ساتھ دو ورنہ گھاٹے میں رہو گے، آئین موم کی ناک ہے وغیرہ وغیرہ۔

اپوزیشن سے مراد سیاسی جماعتوں کا وہ اتحاد ہے جو بظاہر یا مبینہ طور پر اسلام آباد کی اس عمارت میں تشریف فرما ہے جسے ’’ایوان اقتدار‘‘ کے علامتی نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ لفظ ’’علامتی‘‘ کا مفہوم کچھ اور ہے لیکن یہاں جو ہے، اس کے باب میں آپ اس کا ترجمہ ’’برعکس نہاد نامِ زنگی کافور‘‘ کے محاورے سے کر سکتے ہیں۔ بہرحال’’اپوزیشن‘‘ خوش ہے کہ خاں صاحب کو جھوٹا قرار دے دیا گیا لیکن یہ خوشی عارضی بھی ہو سکتی ہے۔ موت گاہک اورریلیف کا کچھ پتہ نہیں، کب اور کہاں سے آ جائے۔ ایک سے زیادہ تجزیہ نگاروں نے فرمایا، اگر اس فیصلے کی آڑ میں خان صاحب پر 63،62 والی دفعہ لگانے کی کوشش کی گئی تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ ان کے الفاظ تھے، 63،62 کے تحت نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا، وہی کافی ہے، مزید کسی کو نااہل نہ کیا جائے۔

16 آنے درست۔ دراصل کوتاہی یہ ہوئی کہ نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے ساتھ ہی دفعہ 63،62 کو بھی دفع کر دینا چاہیے تھا، تاحیات دفع دور۔ خیر، اب بھی بکھرے بیروں کا کچھ نہیں کیا گیا، یہ دفعہ اب بھی دفعان کی جا سکتی ہے کہ ضرورت نہیں رہی۔ بعدازاں ، کل کلاں کو، مستقبل قریب یا بعید میں ضرورت پڑی تو، نظریہ فوری ضرورت کے تحت، اسے بحال بھی تو کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے قیامت زدہ علاقوں کا دورہ کیا۔ ریلیف کے احکامات دئیے، متاثرین سے ملے، بچوں کو تسلّی دی۔ فوری نتیجہ ان کے اس تفصیلی دورے کا یہ نکلا کہ سوشل میڈیا پر قبول صورت، نیک سیرت پارٹی کے لوگوں نے ان کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کر دیا۔ انہیں رنگ باز، شوباز کہا گیا، ان کے کالے چشمے کی شدید مذمت کی گئی اور ان کی گرد اور خاک آلود پتلون کا اطمینان بخش حد تک مذاق اڑایا گیا۔

شہباز صاحب سے کوئی پوچھے، یہ دورہ کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا تھی۔ تباہ حال متاثرین سے اتنی ہی ہمدردی تھی تو انہیں وزیر اعظم ہائوس بلا کر ہمدردی کے دو بول ان سے کہہ دیتے، پانی کا گلاس پلاتے اور رخصت کر دیتے۔ پچھلے ساڑھے تین سال میں اسی خوبصورت نو ایجاد روایت پر عمل کیا گیا۔ آپ نے اس روایت کی شکنی کی اور صلہ پا لیا۔ فیصل آباد کے سمندری روڈ پر ایک 60 سالہ خاتون نے خودکشی کے لیے نہر میں چھلانگ لگا دی۔ اطلاع ملنے پر ریسکیو والے آئے اور اسے زندہ حالت میں نکال لیا۔ بڑھیا نے پوچھنے پر بتایا کہ وہ دو روز سے فاقے سے تھی اور یہ برداشت نہ ہوا تو خودکشی کا فیصلہ کیا۔ خودکشی حرام فعل ہے۔ لیکن بڑھیا کو اس حرام اقدام پر ایک وقت کا حلال کھانا مل گیا۔ ریسکیو والوں نے کھلایا اور چلے گئے۔ مزید دو روز کے بعد وہ پھر خودکشی کرے گی؟۔ اس بار بچ جائے گی؟

ہر روز بھوک کے ہاتھوں خودکشی کے واقعات ہو رہے ہیں اور بہت سی خودکشیاں تو اجتماعی ہیں۔ ماں سبھی بچوں کو ساتھ لے مرتی ہے۔ غربت اور بھی کئی ملکوں میں ہے لیکن ایسی دردناک نہیں۔ دراصل وہاں ریاست نام کی بھی شے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں کے ماجرے کچھ اور ہیں۔ مفتاح اسمٰعیل معیشت کا علم اچھی طرح جانتے ہیں لیکن خراب معیشت کو ٹھیک کرنے کا علم ان کے پاس نہیں ہے۔ وہ خراب معیشت کو مزید خراب کر رہے ہیں۔ ایک تحقیقاتی کمشن، کاش، اس بارے میں بھی بن جائے کہ مسلم لیگ نے مفتاح اسمٰعیل کو کہاں سے دریافت کیا!

Comments

Click here to post a comment