ہوم << لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں کی قربانی- محمد اکرم چوہدری

لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں کی قربانی- محمد اکرم چوہدری

"وہ وقت دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو گا اور لوگوں کو ان کا حق ملے گا۔ یہ ہمارا، قوم کا قرض جس کو ہم نے واپس لینا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ آج بھی کل بھی، سو سال بھی ہزار سال بھی ہمیں محنت کرنی پڑی تو ہم کریں گے۔" یہ الفاظ ہیلی کاپٹر حادثہ میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے ہیں۔

ان کا ایک ایک لفظ کشمیریوں کے ساتھ محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی جب کشمیر کی آزادی کے حوالے سے بات کر رہے تھے تو وہ اس عظیم مقصد کے ساتھ لگاؤ کو واضح کر رہے تھے۔ اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک ہزار سال تک محنت کا لفظ کوئی عام انسان ادا نہیں کر سکتا۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کے اس خطاب نے افواجِ پاکستان کی مسئلہ کشمیر اور کشمیریوں کے ساتھ محبت کو بھی ثابت کیا ہے۔

وہ جانتے تھے کہ یہ بازی جان کی بازی ہے، وہ جانتے تھے کہ آزادی کے اس سفر میں کشمیریوں نے اب تک جان و مال کی پرواہ کیے بغیر ظالم بھارتی افواج کا مقابلہ کیا ہے، وہ جانتے تھے کہ اگر اس مقصد کے حصول میں جنگ ہوتی ہے تو جان کی قربانی بھی دینا پڑے گی لیکن اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی ہزار سال کی محنت کا وعدہ کرتے ہوئے بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ شہیدوں کے چہرے پر ایسی ہی مسکراہٹ سجتی ہے۔ وہ ایک عظیم فوجی تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھیوں نے ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے عظیم قربانی دی ہے۔ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے

ترجمہ۔اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔

گزشتہ روز اوتھل سے کراچی جاتے ہوئے پاکستان آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر لاپتہ ہو گیا تھا۔ ہیلی کاپٹر میں کورکمانڈر 12 کور سمیت 6 افراد سوار تھے اور ہیلی کاپٹر لسبیلہ میں فلڈ ریلیف آپریشن میں مصروف تھا۔ ہیلی کاپٹر میں لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی سمیت ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) پاکستان کوسٹ گارڈ میجر جنرل امجد اور 12 کور کے انجینیئر بریگیڈیئر خالد سوار تھے۔ہیلی کاپٹر میں سوار افراد میں پائلٹ میجر سعید، معاون پائلٹ میجر طلحہ اور کریو میں چیف نائیک مدثر بھی شامل تھے۔ ہیلی کاپٹر میں سوار کور کمانڈر کوئٹہ سمیت تمام افراد شہید ہوگئے، ہیلی کاپٹر کو حادثہ خراب موسم کے باعث پیش آیا۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے 1989 میں آزاد کشمیر رجمنٹ میں کمیشن لیا تھا۔ انہوں نے افواجِ پاکستان کے کلیدی عہدوں پر کام کیا، شہادت کے وقت وہ کور کمانڈر کوئٹہ کے عہدے پر تعینات اور بلوچستان میں سیلاب زدہ علاقوں میں ریلیف کے کاموں کا جائزہ لے رہے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی نے ٹرپل ون بریگیڈ کی کمانڈ کے فرائض بھی انجام دیے اور کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ کے کمانڈنٹ بھی رہے۔ وہ ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ مشکل وقت میں آئی جی ایف سی بلوچستان کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دئیے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہترین کارکردگی پر انہیں دو مرتبہ تمغہ بسالت سے بھی نوازا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہوئے۔ وہ ایک بہترین انسان، وطن سے بے پناہ محبت کرنے اور ہر وقت ملک و قوم کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔

ایک ایسے وقت میں جب ریلیف کے کاموں کی رپورٹ انہیں دفتر بیٹھے مل سکتی تھی وہ ایک حقیقی لیڈر کی طرح فرنٹ سے لیڈ کرتے ہوئے باہر نکلے۔ ریلیف کے کاموں کی نگرانی کرتے ہوئے، ملک و قوم کی خدمت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ کام سے ایسی لگن، قوم کی خدمت کا یہ جذبہ اور احساس ذمہ داری اگر کہیں نظر آتا ہے تو وہ افواجِ پاکستان میں ہے۔ فوج میں آنے والا ہر شخص اپنی خواہش اور مرضی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ لے کر شامل ہوتا ہے۔ فوج کا حصہ بننے والے ہر شخص کو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ فرائض کی انجام دہی میں جان کی قربانی بھی دینا پڑے گی لیکن پھر بھی دھرتی ماں کی حفاظت کے لیے خوشی خوشی افواجِ پاکستان کا حصہ بنتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی اور ان کے ساتھ شہید ہونے افسران اسی جذبے کے ساتھ پاکستان آرمی کا حصہ بنے اور ملک و قوم کی خدمت اور حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔

آج اگر آپ کشمیر کے حوالے سے لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کی چند سیکنڈ کی وہ گفتگو سنیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ ان کے خیالات کس حد تک واضح تھے اور انہوں نے چند سیکنڈز میں کس حد تک جامع گفتگو کے ذریعے کشمیر کی تحریک آزادی کے لیے کام کرنے والوں کو پیغام دیا، کشمیر کی آزادی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور کس مختصر مگر مفصل امداز انداز میں بھارتی حکومت اور بھارتی افواج کو پیغام دیا کہ ہم ہزار سال تک بھی محنت کریں گے اور کشمیریوں کو ان کا حق ملے گا۔ یعنی زندگی کا ایک مقصد ہے، پیشہ وارانہ زندگی بھی بامقصد ہے۔ ہر لمحہ ملک و قوم کی بہتری کا عزم ہے۔ آج ہمیں ضرورت اسی جوش و جذبے اور لگن کی ہے۔ گذشتہ روز ایک طرف ہیلی کاپٹر حادثہ کی خبریں نشر کی جا رہی تھیں اور دوسری طرف مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان پریس کانفرنسوں میں مصروف تھے۔

کیا ہم چند گھنٹوں کے لیے ایسی گفتگو روک نہیں سکتے تھے۔ جہاں حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہونا چاہیے تھا وہاں افواجِ پاکستان مصروف عمل ہے اور فوجی قیادت قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہی ہے۔ ہمارے سیاسی قائدین کے لیے یہ شہادت ہی ایک سبق ہے اگر کوئی کچھ سیکھنا چاہے۔ اللہ ہمیں اس ملک کی حفاظت کرنے اور اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

Comments

Click here to post a comment