ماہنامہ ترجمان القرآن کے مدیر جناب سلیم منصور خالد نے بھارت کے مسلمانوں کو درپیش حالات کے بارے میں چند سوالات ارسال کیے ہیںجو درج ذیل ہیں:’’بھارت میں مسلمانوں کے لیے عرصۂ حیات تنگ کیا جارہا ہے، راشٹریہ سیوک سنگھ، وشواہندو پریشد اور شیوسینا کے متعصب ہندوئوں نے مسلمانوں کو کہا ہے:’’آپ ہندوستان میں پرامن طور پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تین شرطیں ہیں:
(۱) دوسروں کو کافر نہیں کہیں گے،
(۲) امت کے تصور کو ترک کرنا ہوگا،
(۳) جہاد کو ترک کرنا ہوگا‘‘، ان سوالات کی بابت آپ کیا کہیں گے:
اُن کی خدمت میں یہ گزارشات پیش کی جارہی ہیں: جیساکہ آپ نے لکھا ہے:’’ بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ(RSS)ایک فسطائی (Fascist)، نسل پرست (Racist) اور ہندوئوں کی جنونی مذہبی انارکسٹ تنظیم ہے،Anarchistسے مراد وہ گرو ہ ہے جو کسی آئین وقانون کو نہیں مانتا، ان کا موٹو لاقانونیت ، نِراج اور فساد ہوتا ہے، وشوا ہندو پریشد(VHP)اس کی ذیلی تنظیم ہے ‘‘، نیز یہ کہ اُن کے فکری رہنما’’شری رام مادھو‘‘ نے بھارتی مسلمانوں کو ہندوستان میں پرامن طور پر رہنے کے لیے تین شرائط پیش کی ہیں، ان شرائط کی روح یہ ہے:’’ مسلمان بھارت میں ہندوئوں کی طرح اسلام کو ایک پوجا پاٹ کے مذہب کے طور پر اختیار کر کے رہیں‘‘،جنابِ افتخار گیلانی لکھتے ہیں: ’’بھارتی آرمی کے ایک حاضر سروس بریگیڈئر نے ایک تھنک ٹینک کے تحت منعقدہ سیمینار میں کہا: ’’مسلمان بھارت ہی میں مکہ یا کعبہ کا کوئی ماڈل تیار کر کے اس کا طواف کریں یا ہر سال سعودی عرب جانے کے بجائے اجمیر کی درگاہ میں جاکر اپنی عبادت کرلیں ،کیونکہ مسلمانوں کا تصورِ اُمّت ہی مسئلہ کشمیر کی جڑ ہے‘‘۔
الغرض وہ مسلمانوں کو ہرجہت سے بھارتی سَماج کے رنگ میں رنگا ہوادیکھنا چاہتے ہیں ، اسے ہم اسلام کو بھارتیانے( Indianization of Islam)سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ظاہر ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب مسلمان اپنے عقائد، تعلیمات، َخلاقی اقدار اور تہذیبی امتیازات کو ترک کرکے ہندو تہذیب کے رنگ میں رنگ جائیں، وہ اس پر بھی اکتفا نہیں کریں گے ، آگے چل کر اُن کا مطالبہ ہوگا :’’ہماری طرح ہی پوجا پاٹ کریں‘‘۔
اُن کے ایک جنونی نسل پرست فسطائی رہنما ڈاکٹر پروین بائی توگڑیا ، جو ایک وقت میں وشوا ہندو پریشد کے انٹرنیشنل جنرل سیکرٹری رہے ہیں، سے جناب افتخار گیلانی نے کہا: ’’آپ تو کینسر اسپیشلسٹ ہیں ، آپ کینسر کے مریض کے جسم کا آپریشن کر کے کینسر کے ٹیومر کونکالتے ہیں، لیکن تضاد یہ ہے کہ آپ معاشرے میں کینسر پھیلارہے ہیں ‘‘، اُن کا جواب تھا: ’’ہم مدرَسہ اور مارکس ازم کو بھارتی سَماج کے لیے کینسر ہی سمجھتے ہیں اور اسے سرجری کر کے جڑ سے اکھاڑپھینکنا چاہتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ ٹیومر کے معنی رَسَولی، گلٹی یا گانٹھ کے ہیں ، یعنی بدن میں ایک خاص قسم کے نئے ٹشوز (بافتے) پیدا ہوتے ہیں ،جو جمع ہوکر ایک رسولی یا گلٹی کی شکل اختیار کرتے ہیں اور یہ مرض رفتہ رفتہ پورے بدن میں سرایت کرتا ہے۔
ہندو یا ویدانتیوں کا ایک مطالبہ یہ ہے :’’مسلمان اپنے علاوہ دوسروں کو کافر نہ کہیں‘‘،جبکہ اسلام کے نزدیک جو اسلامی عقائد واحکام اور فرائض ومحرمات کو تسلیم نہیں کرتا یا جس کے عقائدضدِّاسلام ہیں، اُن کا حامل کافر کہلاتا ہے ، اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے، جیسے ’’اگرہندو اپنے آپ کوہندو یاویدانتی کہلوائیں یا نصاریٰ اپنے آپ کو مسیحی کہلوائیں یا یہوداپنے آپ کو یہودی کہلوائیں توہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے‘‘، معنوی اعتبار سے اس کا مآل (Consequence)یا نتیجہ ایک ہی ہے، لیکن کفر کو کفر ہی کہاجائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک بھی دینِ اسلام ، اسلامی اقدار وروایات اور اسلامی شعائر بھارتی مسلمانوں کو اُمّت سے جوڑتے ہیں ، اس طرح بھارتی مسلمان’’ عالمی اخوتِ اسلامی‘‘ کے رشتے میں منسلک ہوجاتے ہیں ، اگر مسلمانانِ عالَم اور مسلم حکومتیں باحمیت ہوں تو وہ بھارتی مسلمانوں کے لیے تقویت کا باعث بن سکتے ہیں، اُن کے نزدیک امت اور ملّت کایہی تصورہے، جسے وہ ختم کرنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اِن شعائر کو مسلمان کی ظاہری پہچان قرار دیا ہے، حدیث پاک میں ہے:
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ،(نماز میں) ہمارے قبلے کی جانب رُخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا، تو یہ وہ مُسلم ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کا ضمان (Gaurantee) یعنی تحفظ حاصل ہے، سو اللہ کے ضمان کو نہ توڑو، (صحیح البخاری:391)‘‘، حدیث پاک سے مراد یہ ہے: اگر مندرجہ بالا ظاہری علامات کسی میں پائی جائیں تو جب تک اس کا کفر ثابت نہ ہو، اُسے مسلمان تصور کیا جائے گا، اسی تصور کو علامہ اقبال نے ان اشعار میں بیان کیا ہے:
مَنفَعت ایک ہے اس قوم کی، نُقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرَمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی، ہوتے جو مسلمان بھی ایک
علامہ اقبال نے اسی حدیثِ پاک کو منظوم کیا ہے:
مبتلائے درد ہو کوئی عُضو ،روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی، ہوتی ہے آنکھ
بھارتی پارلیمنٹ کے سابق رکن اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ’’یوگیا آدتیہ ناتھ‘‘نے بھی کہا: ’’مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دیگر اقلیتوں ،سکھوں ، جَین مت اور بدھ مت کے ماننے والوں اور پارسیوں کی طرح ہندو دھرم کی برتری کو تسلیم کرتے ہوئے اس ملک میں چین سے رہیں ‘‘۔ جبکہ مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ صرف اور صرف دینِ اسلام کو حق سمجھے اور اس کے مقابل ادیان کو باطل سمجھے، دستیاب حالات میں دین کے غلبے کی ہرممکن کوشش کرے ، البتہ اسلام دین اور ہر معاملے میں جبر واِکراہ اور دہشت وفساد کی اجازت نہیں دیتا ،مگر دعوت وتبلیغ کے ذریعے دینِ اسلام کو پھیلانا ہرمسلمان کی ذمے داری ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل)ادیان پر غالب کردے ،خواہ مشرک اسے ناپسند کریں ، (التوبہ:33،الصف:9)‘‘،(۲)’’وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اُسے تمام (باطل) ادیان پر غالب کردے اور اللہ کی گواہی اس پر کافی ہے (کہ یہ ہوکر رہے گا)، (الفتح:28)‘‘۔
اسی طرح کفر کو کفر کہنا پڑے گا،قرآنِ کریم اور اسوۂ رسول ﷺ اس پر ناطِق وشاہد ہیں ، حق وباطل میں تمیز کرنا اور حق کوباطل سے ممتاز کرنا ہرمسلمان کی ذمے داری ہے، نیز باطل سے مفاہمت نہیں ہوسکتی ، قرآنِ کریم کی ’’سورۃ الکافرون ‘‘اور دیگر متعدّدآیات اس پر ناطِق وشاہد ہیں، علامہ اقبال نے کہا ہے:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
سورۃ التوبہ:24اور سورۃ المجادلہ :22میں قرآنِ کریم نے واضح طور پربتایاہے کہ ایمان ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرّم ﷺ سے عداوت ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے،نیز اسلام نے مومن کوکائنات کی اُن تمام چیزوں سے اپنی حد کے اندررہتے ہوئے محبت کرنے یا وابستگی رکھنے کی اجازت دی ہے، جن سے لگائو انسان کافطری تقاضا ہے۔ لیکن اگران تمام چیزوں کی محبت یکجا ہوکر بھی اللہ تعالیٰ،اُس کے رسول ﷺ اور اُس کی راہ میں جہاد کے مقابل آجائیں تو ایمان تب سلامت رہے گا جب صرف اللہ تعالیٰ ،اُس کے رسولِ مکرم ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد کومحبوب ترین مانا جائے۔ (جاری ہے۔۔)
تبصرہ لکھیے