ہوم << نواز شریف صاحب کو بھی سلام- آصف محمود

نواز شریف صاحب کو بھی سلام- آصف محمود

میاں نواز شریف صاحب کا عدلیہ کے خلاف تازہ ٹویٹ دیکھا تو گوہر ایوب خان صاحب کی کتاب Glimpses into the corridors of power یاد آ گئی۔ نواز شریف فرماتے ہیں:پاکستان کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔تینوں جج صاحبان کو سلام۔ میرے بس میں ہوتا تو میاں صاحب کی خدمت میں ان کے اپنے سپیکر اور وزیر خارجہ کی کتاب بھیجتا اور عرض کرتا : پاکستان کو تماشا بنانے میں آپ کی خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ کو بھی سلام۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب سجاد علی شاہ صاحب چیف جسٹس تھے اور نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ نواز شریف کے چیف جسٹس سے تعلقات ٹھیک نہیں تھے کیونکہ سجاد علی شاہ ’ شرافت کی عدالت‘ کے قائل نہیں تھے۔پھر یوں ہوا کہ چیف جسٹس کے بیڈ روم میں خفیہ ریکارڈنگ کے آلات لگا دیے گئے، چیف جسٹس نے ان آلات کو پکڑ لیا ۔ خبر نکلی کہ چیف جسٹس پریس کانفرنس کریں گے اور بتائیں گے یہ حرکت کس نے کی۔ وزیر اعظم پریشان ہو گئے۔ منت ترلا مشن چیف جسٹس کے پاس بھیجا گیا کہ پلیز پریس کانفرنس نہ کریں۔ انہی دنوں کچھ اور معاملات میں بھی حکومت عدلیہ سے ناراض تھی۔ اب باقی کی کہانی گوہر ایوب صاحب کی زبانی سنیے ۔گوہر ایوب لکھتے ہیں کہ یہ 5 نومبر 1997 کی بات ہے۔ مجھے وزیر اعظم نواز شریف کا فون آیا کہ قومی اسمبلی میں ان کے چیمبر میں ان سے ملوں۔

جب میں وہاں پہنچا تو استحقاق کمیٹی کے اقبال مہدی اور بہت سے دیگر اراکین بھی وہاں موجود تھے۔ وزیر اعظم نے چیئر مین استحقاق کمیٹی کے چیئر مین سے کہا کہ صورت حال کی وضاحت کر یں۔چیئر مین نے بتایا کہ وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو قائمہ کمیٹی برائے استحقاق کے سامنے طلب کیا جائے اور جب وہ کمیٹی کے روبرو حاضر ہوں تو جناب وزیر اعظم نواز شریف بھی وہاں موجود ہوں۔ گوہر ایوب لکھتے ہیںکہ ــ:’’میں نے انہیں بتایا کہ قانون میں ایسے انتہائی اقدام کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔میں نے بطور سپیکر یہ قانون بنائے ہیں اور اگر آپ نے یہ غلطی کی تو چیف جسٹس آپ کے سمن کو خاطر میں نہیں لائیں گے اور اسے اڑا کر رکھ دیں گے۔اس سے وزیر اعظم اور استحقاق کمیٹی دونوں کی سبکی ہو گی۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میٹنگ ختم ہو گئی۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ وزیر اعظم گوہر ایوب سے کہتے ہیں کہ میرے ساتھ میری گاڑی میں وزیر اعظم ہائوس تک چلیے۔ گوہر ایوب وزیر اعظم کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ جاتے ہیں۔

راستے میں ایک ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ گوہر ایوب خان ہی نہیں ، ان کے پڑھنے والے بھی ششدر رہ جاتے ہیںگوہر ایوب لکھتے ہیں : وزیر اعظم نے ہاتھ میرے گھٹنوں پر رکھ دیے اور کہا ’’ مجھے کوئی طریقہ بتائیے میں چیف جسٹس کو گرفتار کر کے ایک رات جیل میں رکھنا چاہتا ہوں‘‘۔ گوہر ایوب صاحب تو ایسا کوئی راستہ نہ بتاسکے لیکن نواز شریف صاحب نے راستہ ڈھونڈ لیا۔ اول غنڈے اکٹھے کیے اور سپریم کورٹ پر حملہ کروا دیا۔ اس کے بعد رفیق تارڑ کے ’ بریف کیس مشن‘ کے ذریعے چیف جسٹس کو ان کے برادر ججوں کے ذریعے منصب سے فارغ کر دیا۔ جس طرح سے رفیق تارڑ بروئے کار آئے اور اس کے صلے میں جس طرح انہیں نوازا گیا یہ ہماری قومی تاریخ کا ایک افسوسناک باب ہے۔ معلوم نہیں اس تماشے پر سلام کس کی خد مت میں پیش کرنا ہے؟ تارڑ صاحب جس طرح رات کی تاریکی میں کوئٹہ گئے اس پر خود بے نظیر بھٹو ساری کہانی بیان کر چکی ہیں۔

اس خدمت کے صلے میں انہیں ن لیگ نے صدارتی امیدوار بنا دیا۔ الیکشن کمیشن نے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے۔ جسٹس قیوم اس وقت چھٹی پر تھے اور ان کی والدہ کا انتقال ہو چکا تھا لیکن وہ اپنی چھٹی ختم کر کے آئے عدالت لگائی اور رفیق تارڑ کو سٹے آرڈر جاری فرما دیا۔ ۔۔۔۔۔اور یہ جسٹس قیوم کون تھے؟ یہ وہی تھے جن کی مبینہ آڈیو ٹیپس کا سکینڈل سامنے آیا اور انہیں اس کے نتیجے میں مستعفی ہونا پڑا۔ یہ الگ بات کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے انہی کو بعد میں اپنا صدر بنا لیا۔ تو کس کس نے ملک کو تماشا بنایا اور سلام کس کس کو پیش کیا جائے ؟ گوہر ایوب خان صاحب کی اس کتاب کے ساتھ ساتھ اگر آپ سابق چیف جسٹس کی کتاب Law Courts in a Glass House بھی پڑھ لیں تو پھر آپ ایک قدم آگے بڑھ کر عرض کریں گے کہ اس کار خیر میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی خاصا حصہ ڈال رکھا ہے اس لیے ان کو بھی سلام۔

وہ اس میں ساری کہانی لکھ چکے ہیں کہ کیسے بے نظیر کی جانب سے انہیں پیغام دیا گیا ( جو انہوں نے رد کر دیا)کہ وہ انہیں چیف جسٹس بنانا چاہتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں تعیناتی سے پہلے استعفی لکھ کر بے نظیر بھٹو کو دینا ہو گا اور اس استعفی پر کوئی تاریخ بھی نہیں ہونی چاہیے تا کہ ملک کا چیف جسٹس بے نظیر صاحبہ کے رحم و کرم پر ہو اور انہیں کبھی ان سے نجات کی ضرورت محسوس ہو تو وہ ان کاپہلے سے لکھا ہوا استعفی نئی تاریخ ڈال کر قبول کروا کر نجات حاصل کر سکیں۔ اس ملک کو تماشا بنانے میں سب نے حصہ ڈالا ہے۔ نہ کسی فرد کو استثناء ہے نہ کسی ادارے کو۔ سب نے غلطیاں کی ہیں اور سب کی غلطیاں پہاڑ جیسی ہیں۔ اب ہر موقع پر کوئی گروہ ا ور کوئی شخصیت اٹھتی ہے اور رجز پڑھنا شروع کر دیتی ہے۔ یہ رجز سن کر ایسے لگتا ہے کہ اس شخصیت کے سوا کسی کا دامن صاف نہیں اور ملک کا درد تو صرف اسی شخصیت کو ہے۔

حقیقت مگر اس کے برعکس ہے۔ جب جس کے مفادات پر ضرب پڑتی ہے وہ اقوال زریں پڑھنا شروع کر دیتا ہے کہ ہائے ہائے۔لیکن جب اس کے مفادات کا تحفظ ہو رہا ہوتا ہے تو اس وقت نہ کسی کو ملک یاد آتا ہے نہ آئین نہ قانون۔ چنانچہ آپ دیکھ لیں جب حالات ناسازگار ہو جائیں تو ہر جماعت ایک جیسی چیخیں نکالتی ہے اور قانون کی دہائیاں دیتی ہے۔ لیکن حالات سازگار ہوں تو پھر کسی کو نہ اخلاقیات یاد آتی ہیں نہ قانون نہ آئین۔ آئین قانون اور وطن برائے وزن بیت استعمال کیے جاتے ہیں ، مشاعرے کے تمام شعرائے کرام صرف اپنے مفادات کی زمین پر شعر کہتے ہیں۔ یہ زوال،زوال اجتماعی ہے۔

یہ بحران بھی ہمہ جہت ہے۔ اس کے ذمہ دار بھی سب ہیں۔ کوئی خود کو میاں معصوم بنا کر دوسروں کے نام سلام بھیج کر سرخرو ہونا چاہے تو یہ کام اب ممکن نہیں۔وہ وقت بیت گئے جب اردو کے چند کالم نگاروں اور دو چار اخبارات کے صدقے میدان فتح ہو جایا کرتے تھے۔ اب قوم کا شعور ی سفر دو چار منزلیں آگے بڑھ چکا ہے۔ اب سب کی حقیقت کھل کر سامنے آتی جا رہی ہے۔ ابلاغ پر اجارہ داری ختم ہو چکی، آنکھیں کھلتی جا رہی ہیں۔ اس لیے محترم میاں نواز شریف صاحب کو بھی سلام پہنچے۔ اس میں وہ سلام بھی شامل ہیں جو قضا ہو چکے۔