پورا شہر، ملک، یہاں تک زمین پر بسنے والے انسانوں کی اکثریت اگر کسی ایک بددیانت، چور، قاتل اور ڈاکو کے دفاع میں اکٹھی ہو جائے، منتخب جمہوری ادارے اس کے جرم کو تحفظ دینے کے لئے قانون سازی کر لیں.
عالمی رائے عامہ اپنے مخصوص مفادات کے تحت اس کے لئے ہموار کر دی جائے، دُنیا بھر کی مقامی، علاقائی، قومی اور عالمی عدالتیں اور ان میں بیٹھے ہوئے ججوں کی اکثریت بھی ایسے مجرم کے حق میں اپنی اکثریتی رائے دے، مگر انسانی فطرت میں اللہ نے جو عدل کے معیارات رکھ دیئے ہیں، ان معیارات کے مطابق ایک جج بھی اگر ایسا ہو، جو ان اُصولوں کے مطابق فیصلہ سنا دے تو انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ صرف ایسے ہی جج کو محترم اور معزز مانتی رہی ہے اور باقی تمام ججوں پر اس حد تک نفرین بھیجتی رہی ہے کہ ان کا نام تک تاریخ میں محفوظ کرنا پسند نہیں کرتی۔
تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کیجئے، آپ کو ان ججوں کا نام تک کہیں نہیں ملے گا، جنہوں نے حکمرانوں کی مرضی یا اکثریت کے خیالات کے تابع ہو کر فیصلے کئے۔ گلیلو (Galileo)نے 1610 میں اپنی ایجاد کردہ دُور بین کی بنیاد پر کی گئی تحقیقات پر مبنی ایک کتاب ’’سائیڈریس نن سیئس‘‘ (Sidereus Nuncius) شائع کی اور چاند، ستاروں، اور آسمان پر موجود لاتعداد اجرامِ فلکی کے بارے میں ایسے انکشافات کئے جنہیں اس وقت کا مذہب تسلیم کرتا اور نہ ہی اٹلی کا آئین، عوام تو تھے ہی بھیڑ چال پر چلنے والے۔ اس کے خلاف عدالت کا فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا اور اسے سزا سنا دی گئی۔ اس فل کورٹ ریفرنس کے کسی جج کا نام تاریخ میں محفوظ نہیں ہے، لیکن گلیلو کے نام کے ساتھ عزت وابستہ ہے اور ان بے نام ججوں کے مقدر میں کئی صدیوں کی ذلت۔ تاریخ ایسے لاتعداد مقدمات سے بھری ہوئی ہے جن کے فیصلے کرنے والے جج تاریخ کے گمنام اندھیروں میں گم ہیں۔ ایک مقدمہ ایسا بھی ہے جو اجتماعی جمہوری سوچ کے مقابلے میں عدل کے معیار کی کشمکش کی کسوٹی ہے۔
یہ مقدمہ یونان کے مشہور فلسفی سقراط کا مقدمہ ہے۔ یہ شخص رہتی دُنیا تک سچ بولنے، پھر اس پر قائم رہنے اور عدالت کے حکم پر زہر کا پیالہ پی کر موت کو گلے لگانے کی وجہ سے ایک روشن علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس کے شاگردافلاطون کی کتاب ’’الجمہوریہ‘‘ (The Republic) اور ارسطو کے سیاسی فلسفے کی وجہ سے لوگ ان دونوں کو جمہوریت کا بانی تصور کرتے ہیں، سقراط کے ان شاگردوں کی وجہ سے یہ تصور بھی ازخود بنا لیا گیا ہے کہ شاید سقراط بھی ایک جمہوریت پرست یا جمہوریت پسند فلسفی تھا۔ حالانکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ سقراط کی زندگی کے ابتدائی ایام میں ایتھنز ایک چھوٹا سا علمی و ادبی شہر تھا، جس میں کوئی مرکزی نظام نہیں تھا بلکہ پورا شہر ایک بہت بڑی ’’اسمبلی‘‘ تھی جس کے اجلاسوں میں فیصلے ہوتے تھے۔ شہر کا عدالتی نظام کسی مروجہ عدل و انصاف کے پیمانوں پر فیصلے کرنے کے لئے نہیں بنا تھا بلکہ بڑی بڑی پُرہجوم جیوریاں ہوا کرتی تھیں، جن کے سامنے ملزموں کو پیش کیا جاتا۔ ایسی عدالتوں میں فیصلہ کرتے وقت اس ہجوم کی اکثریت کی رائے کا ہی احترام کیا جاتا، خواہ یہ رائے عقل، انصاف اور اخلاقیات کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔
پچاس سال کی عمر تک سقراط اسی طرح کے معاشرے میں زندگی گزارتا رہا، مگر 404قبل مسیح جب پڑوسی ملک سپارٹا کے جرنیل لینڈر نے ایتھنز پر قبضہ کر کے وہاں چند لوگوں کی آمرانہ حکومت قائم کر دی تو پھر تمام اختیارات چند لوگوں تک محدود کر دیئے گئے۔ یہ چند لوگ ہی عدالت تھے اور یہی حکمران۔ سقراط کو ان کی عدالت کے سامنے پیش کیا گیا اور اسے یہ کہا گیا کہ تم نوجوانوں کو گمراہ کرنا بند کر دو ورنہ ہم تمہیں موت کی سزا سنا دیں گے۔ بند کمرے میں سزا سنا کر اس پر عمل درآمد بہت مشکل تھا، کیونکہ سقراط عوام میں بہت مقبول تھا۔ اس کے لئے جرنیل لینڈر نے جمہوری راستہ اختیار کیا اور قدیم طرز پر پورے ایتھنز کو ایک بہت بڑی عدالت میں بدل دیا۔ ہر کوئی جج کے مقام پر فائز تھا۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا فل کورٹ ریفرنس تھا، جس کا مقصد صرف ایک تھا کہ سقراط کے خلاف ہونے والے فیصلے کی ذمہ داری کسی ایک جج پر نہ رہے بلکہ تمام لوگ اس فیصلے کا بوجھ اُٹھائیں۔ اس عدالت کے روبرو سقراط کی تقریر کو افلاطون نے اپنی مشہور کتاب ’’معذرت نامہ‘‘ (Apology) میں محفوظ کر دیا ہے۔
سقراط نے کہا ’’اے ایتھنز والو! میرے بہت سے دُشمن اور مخالف پیدا ہو چکے ہیں۔ عوام کا تعصب اور کینہ مجھے مجرم ٹھہرائے گا۔ یہی باتیں مجھ سے پہلے بہت سے نیک اشخاص کو مجرم ٹھہرانے کا موجب ہوئی ہیں۔ تم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہو کہ میں ایسا شخص ہوں جسے خدا نے اس شہر کے لئے مامور کیا ہے۔ مجھ پر ہر طرح کا الزام ہے لیکن یہ ’’عدالتی ہجوم‘‘ مجھ پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ میں نے نصیحت کرنے کی کوئی اُجرت لی یا مانگی ہو۔ میں اپنی غربت کو اپنے لئے شہادت تصور کرتا ہوں۔ ’’یہ عدالت نہیں ایک ہجوم ہے اور ہجوم عدل کے مطابق فیصلے نہیں کر سکتے‘‘۔ تاریخ کا یہ پہلا فل کورٹ ریفرنس، پانچ سو اراکین پر مشتمل تھا، جن میں ہر کسی کو جج کے وسیع اختیارات حاصل تھے۔ سقراط نے آخر میں کہا ’’اے ایتھنز والو! میں تمہاری عزت کرتا ہوں، مجھے تمہارا احترام ہے۔
لیکن میں تمہاری جگہ خدا کی اطاعت کروں گا‘‘۔ وقت آ رہا ہے کہ میں تو مر جائوں گا مگر تم زندہ رہو گے۔ لیکن ان دونوں میں کون سی بات بہتر ہے صرف خدا جانتا ہے۔ سقراط کا مقدمہ صرف ایک مقدمہ نہیں ہے بلکہ انسانی تاریخ کی ایک مسلسل کہانی ہے۔ تمام انبیاء ایسے ہی معاشروں میں بھیجے گئے جو اجتماعی طور پر تصورِ عدل اور تصورِ اخلاق کے خلاف جمہوری طور پر اکٹھے ہو چکے تھے۔ سیدنا شعیب علیہ السلام جب اہل مدین کی طرف مبعوث کئے گئے، انہوں نے کہا ’’اے میری قوم!اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ماپ اور تول میں کمی نہ کیا کرو‘۔ (ھود: 84) پورا تولنا ابتدائے آفرینش سے عدل کا معیار ہے، جسے اللہ نے فطرت میں رکھ دیا ہے۔ اس معیار کو آج تک نہ کوئی پارلیمنٹ عددی اکثریت سے بدل سکی اور نہ ہی کسی عدالت کے فل کورٹ ریفرنس نے یہ فیصلہ کیا کہ آئندہ سے کم تولنا جائز ہے۔
اسی طرح عدل کے تمام اُصول جو انسانی فطرت میں ودیعت کئے گئے ہیں، پوری دُنیا میں یکساں ہیں۔ کوئی پارلیمنٹ یا فل کورٹ ریفرنس قتل کو جائز قرار نہیں دے سکتا، دھوکے اور فراڈ کے حق میں قانون سازی نہیں ہو سکتی، بدترین اخلاقی زوال کے باوجود بھی آج تک جدید ترین معاشروں میں بھی میاں بیوی کا ایک دوسرے کے اعتماد کو دھوکہ دے کر ناجائز تعلقات بنانا یعنی "cheat" کرنا جرم ہے، وعدہ خلافی ہر معاشرے میں ناجائز ہے اور کسی کا حق غضب کرنا یا مال پر ناحق قبضہ کرنا، کہیں بھی قابلِ عزت فعل نہیں ہے۔ ایسے تمام جرائم میں فیصلہ صرف عدل کی بنیاد پر ہوتا ہے، خواہ اسے ایک ہی جج کرے اور باقی تمام جج اس کے مخالف کیوں نہ ہوں۔
تاریخ میں ہمیشہ فیصلہ وہی زندہ رہا ہے جو انصاف کے اُصول پر کیا گیا اور ہر وہ فیصلہ جو انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا خواہ اسے تمام ججوں نے مل کر ہی کیوں نہ کیا ہو، اس نے نفرت ہی سمیٹی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں جسٹس منیر کے فیصلے سے لے کر آج تک تمام متنازعہ فیصلے ہمیشہ متفقہ تھے، شاید ہی کسی ایک جج نے اکثریتی فیصلے کے خلاف اپنا علیحدہ موقف تحریر کیا ہو۔ لیکن تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ اکثریت کے مقابلے میں اس ایک اختلافی نوٹ کو ہمیشہ عزت اور پذیرائی نصیب ہوئی۔
عدل اور انصاف کھرا اور کھوٹا ناپنے کی کسوٹی ہے، رائے کی اکثریت کا نام نہیں۔ اجتماعی شعور (Collective Consciousness) نے بار ہا ثابت کیا، کہ وہ ہمیشہ گمراہ اکثریت کے تابع ہو کر غلط فیصلے کرتا ہے۔ پورا قرآن پاک اکثریت کی نفری کرتا ہے اور عدل کا حکم دیتا ہے اور عدل کبھی کثرتِ رائے کا محتاج نہیں ہوتا۔
تبصرہ لکھیے