ہوم << سنگین سیاسی و معاشی بحران- رانا اعجاز حسین چوہان

سنگین سیاسی و معاشی بحران- رانا اعجاز حسین چوہان

پاکستان میں ایک طویل عرصے سے سنگین سیاسی بحران جاری ہے جو کہ ملکی معیشت کو کمزور کرکے معاشی بحران کو جنم دے رہا ہے۔ پنجاب میں حکومت سازی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے معاملے پر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکی ہے .

ایک تین رکنی بنچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس کیس کی سماعت کر رہا ہے لیکن مدعا علیہان کیس کی سماعت کرنے والے بنچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں ، حالانکہ جن تین جج صاحبان پر انکا اعتراض ہے یہ وہی جج صاحبان ہیں جو اس پانچ رکنی بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے وفاق میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت برخاست ہوئی اور عمران خان وزیر اعظم نہ رہے تھے ۔ اس فیصلے پر جیتنے والوں نے بھنگڑے ڈالے ، مٹھائیاں بانٹیں اور عدلیہ کو ایک آزاد عدلیہ تسلیم کیا ، اب اسی بنچ کے وہی تین جج پنجاب کا مقدمہ سننے بیٹھے ہیں توجج صاحبان کو متنازعہ بنانے کے لیے مہم جاری ہے۔ معاملہ یوں نہیں کہ عدالت عظمیٰ کی کاروائی کس فریق کے حق میں جاتی اور کون مایوسی کے دلدل میں دھنس جاتا ہے ؟

سوال یہ ہے کہ ملکی سیاست میں محاذ آرائی اور تصادم کا نتیجہ آخر کا رکیا نکلنے جارہا ہے۔ دوسری طرف ہمارے ملک کا معاشی بحران ہر لمحے شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ، باہر کی دنیا ہمیں خبردار کر رہی ہے کہ پاکستان کا معاشی ڈھانچہ منہدم ہونے کے قریب ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان میں ہر تھوڑے وقفے کے بعد نیا سیاسی بحران پیدا ہو جاتا ہے یا پیدا کر دیا جاتا ہے ۔ پاکستان کے معاشی انہدام کی جتنی فکر باہر کے لوگوں کو ہے ، اتنی ہمارے اپنے ان لوگوں کو نہیں ، جو اپنی سیاسی قیادت سے پاکستان کو دنیا کی عظیم طاقت بنا دینے کا دعویٰ کرتے ہیں یا پس پردہ بیٹھ کر پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے نت نئی حکمت عملیاں بنا رہے ہوتے ہیں ۔

بیرونی ممالک خصوصا ًہمارے خطے کے ممالک ہمارے معاشی بحران سے زیادہ خوف زدہ ہیں ۔ باہر کے لوگوں کو یہ فکر لاحق ہے کہ پاکستان کے معاشی انہدام کے اثرات سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے لیکن ہمارے اپنے لوگوں کو کسی بات کی پروا نہیں ہے ۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر مسلسل گرتی جا رہی ہے ۔ملک کا بڑھتا تجارتی خسارہ اور کئی اسباب کی بناء پر بڑھتے ہوئے قرضے معیشت کی نمو کی قدرتی صلاحیت کو کمزور کر رہے ہیں ۔ لوگوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ اب مہنگی بجلی کے بل ادا کر سکیں ۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا عفریت ، انتشار اور بدامنی کی شکل میں ظاہر ہو رہا ہے۔ جبکہ حکومت اپنا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف )و دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے ریلیف پیکیج مانگ رہی ہے اور اس کے لئے اپنے عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کی ہر شرط قبول کونے کے لئے تیار ہے ۔ معاشی بحران سے قطع نظر ہمارے سیاسی اور غیر سیاسی حکمران ملک پر سیاسی جنگ مسلط کئے ہوئے ہیں ۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی سے معاشی بحران کی شدت میں تیز تر اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہماری غیر سیاسی اشرافیہ ، عدلیہ اور سیاسی جماعتیں غیر دانستہ طور پر ایک بڑے کھیل میں استعمال ہو رہی ہیں؟ اس صورت حال میں ہنگامی بنیادوں پر ملک میں سیاسی استحکام کے لئے کوششیں کرنا چاہئیں اور معیشت کی بحالی کے لیے ایک نیشنل چارٹر ، قومی میثاق وضع کرنا چاہئے ۔

بلاشبہ سیاست میں کسی کے بھی اقتدارکو دوام حاصل نہیں مثلاً آج کی اپوزیشن جماعت کل کی حکمران پارٹی ہے اور کل حکومت میں رہنے والی پارٹی آج حزب اختلاف کا کردار ادا کرسکتی ہے ، دراصل جمہوریت کی یہی خوبی عملاً سیاست دانوں کو اس بات کی ترغیب دیتی ہے کہ وہ سیاسی کھیل کے قوائد وضوابط پختہ سوچ کے ساتھ طے کریں ، مثلاً مسائل حل کرنے میں ناکامی کا زمہ دار ایک دوسرے کو قرار دینے کی بجائے ایسی طویل المعیاد پالیساں ترتیب دی جائیں جن پر عمل کرکے ملک کو حقیقی معنوں میں جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کا خواب شرمندہ تعبیرہو۔ اس میں دوآرا نہیں کہ موجودہ اتحادی حکومت خلوص نیت کساتھ پاکستان تحریک انصاف سے تعمیری بات چیت کی خواہشمند ہے ، مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علما اسلام (ف) کئی دہائیوں سے قومی سیاست میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، سوال تو یہ ہے کہ جب عمران خان حکومت میں شامل رہنماوں کو چور اور ڈاکو کے لقب سے نوازیں گے تو پھر کون ان سے ڈائیلاگ کرنے پر آمادہ ہوگا۔

پاکستان کا ہر باشعور پاکستانی اس نتیجے پر پہنچ چکا کہ قومی منظر نامہ میں نمایاں سیاسی قوتوں میں پاکستان تحریک انصاف ایسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہے جس کی ملک کو اشد ضرورت ہے ۔ بلاشبہ اب وقت آگیا ہے کہ تحریک انصاف آگے بڑھے اور قومی منظر نامہ میں اپنا ایسا کردار ادا کر کے تاریخ میں سرخرو ہونے کی کوشش کرے جو وہ اب تک ادا کرنے سے قاصر رہی ہے۔ سمجھ لینا چاہے کہ الزام تراشی کی سیاست نہ ماضی میں سودمند ثابت ہوئی اور نہ ہی مستقبل میں اس کی افادیت سامنے آنے کا روشن امکان ہے۔

Comments

Click here to post a comment