خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور عرب دُنیا کے حصے بخرے ہونے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ سعودی عرب نے امریکی صدر جوبائیڈن سے ویسا ہی برتائو کیا ہے، اور اس کی عالمی میڈیا میں ویسی ہی پذیرائی ہوئی ہے جیسی عمران خان کے "Absolutely Not" کی گونج سے ہوئی تھی۔ عمران کے اسی فقرے کے بعد ہی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس ’’ناہنجار‘‘ کو اقتدار سے نکال باہر کیا جائے۔ سعودی عرب کا پہلا موقع وہ تھا جب شاہ فیصل نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کیا تھا۔
23 اگست 1973ء کو جب اسرائیلی ’’یوم کپور‘‘ منا رہے تھے تو ریاض میں ایک اعلان کے ذریعے مزید تیل کنوئوں سے نکالنے پر پابندی لگا کر تیل کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ پابندی اکتوبر 1973ء سے مارچ 1974ء تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں یورپ کے شہروں میں پٹرول پمپوں پر راشن بندی ہو گئی اور لمبی لمبی لائنیں لگ گئیں۔ امریکہ کے ’’یہودی‘‘ وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے جب سعودی عرب جاتے ہوئے قاہرہ میں انور السادات سے ملاقات کی اور پوچھا کہ شاہ فیصل نے ایسا کیوں کیا، تو انور السادات نے جواب دیا کہ شاہ فیصل تم ’’یہودیوں‘‘ سے اور کیمونسٹوں سے سخت نفرت کرتا ہے اور وہ کل تمہیں اسی نفرت کے ساتھ ملے گا۔ بقول کسنجر جب وہ ریاض کے شاہی محل میں داخل ہوا تھا تو یہی خوف اس کے دل میں تھا۔ شاہ فیصل کی قیادت امریکہ کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو چکی تھی۔
غرض یورپ کو سبق سکھانے کے بعد 17 مارچ کو پابندی اُٹھا لی گئی، لیکن اس کے بعد اس اقدام کا خوف مغربی دُنیا پر اس قدر چھایا رہا کہ آج تک یورپ کے ممالک یہ سوچ کر کانپ اُٹھتے ہیں کہ اگر مشرقِ وسطیٰ کا تیل بند ہو گیا تو پھر وہ کیا کریں گے۔ اس گستاخی کی سزا شاہ فیصل کو یہ دی گئی کہ سان فرانسسکو سٹیٹ کالج میں پڑھنے والے اس کے بھتیجے فیصل بن مساعد کو تیار کیا گیا، جس نے 25 مارچ 1975ء کو ایک میٹنگ کے دوران شاہ فیصل کو گولی مار کر شہید کر دیا۔ تیل بطورِ ہتھیار اس وقت تو بنیادی طور پر صرف ایک ملک اسرائیل کے خلاف استعمال ہوا تھا اور یورپ کو بھی اسی اسرائیل کی بلاوجہ سپورٹ کی سزا دی گئی تھی۔
لیکن آج مشرقِ وسطیٰ کا تیل سر پر کھڑی عالمی جنگ میں یورپ کی سب سے بڑی ضرورت بن چکا ہے۔ ایک جانب امریکہ اور دوسری جانب روس اور چین دونوں قوتیں جنگ کے آغاز سے پہلے ہی اس بات کے انتظامات میں مصروف ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کا تیل اور گیس دُشمن کے تسلّط میں نہ ہو۔ روس کو ان دونوں اشیاء میں سے کسی کی بھی فوری ضرورت نہیں کیونکہ وہ خود دُنیا کا دوسرا بڑا تیل برآمد کرنے اور پہلا بڑا گیس برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس کے برعکس پورے یورپ کا زیادہ تر انحصار روس کی گیس اور تیل پر ہے، اور گذشتہ دنوں روس نے پائپ لائنوں کی صفائی کے بہانے گیس کو بند بھی کر کے دکھا دیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یورپی ممالک کے پاس صرف دو ماہ کی گیس کا سٹاک موجود ہے اور اگر مشرقِ وسطیٰ کی گیس نہ ملی اور ساتھ ہی افریقہ و جنوبی امریکہ سے کوئلے کی ترسیل شروع نہ ہوئی تو اس ستمبر کے بعد آنے والی سردیاں یورپ کے لئے قیامت خیز ہوں گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ جس نے یورپ کو اس جنگ میں جھونکا ہے وہ یہ سب بندوبست کرنے خود نکلا ہوا ہے۔
بائیڈن کے اس دورے سے پہلے تمام امریکی تھنک ٹینکوں نے مل کر ایک حکمتِ عملی بنائی جسے امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائز جیک سولیون (Jake Sullivan) نے وائٹ ہائوس کی ایک بریفنگ میں پیش کیا۔ یہ حکمتِ عملی دراصل خوف دلائو اور لالچ دونوں یعنی "Carrot & Stick" والی پالیسی پر مبنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن نے دھمکانے کے لئے روانگی سے قبل واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خشوگی کے قتل میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے والی رپورٹ کو شائع کرنے کا اعلان کیا اور سعودی عرب کی یمن ناکہ بندی کے خلاف بھی بیان دے دیا، لیکن ساتھ ہی دوستی کے لئے ابراہم معاہدے پر بھی پیش رفت کا اظہار کیا۔ دورہ ختم ہوا تو سعودی عرب کے وزیر خارجہ کا بیان انتہائی جارحانہ تھا۔ انگریزی میں کی گئی اس پریس کانفرنس میں کہا گیا: "His Royal Highness made it quite clear to President Biden That we have an Expectation to see the US behave in a Similar Responsible attitude." ’’سعودی فرمانروا نے صدر بائیڈن پر یہ واضح کر دیا ہے کہ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہماری طرح ہی ذمہ دارانہ روّیہ اختیار کرے‘‘۔ اس کے بعد کہا گیا کہ امریکہ کا اپنی اقدار کو دوسروں پر نافذ کرنا ٹھیک نہیں ہو گا۔
اس کا بہت منفی ردّعمل ہو گا، بلکہ سخت جواب بھی ملے گا۔ شہزادہ محمد بن سلمان نے بائیڈن سے کہہ دیا ہے کہ ’’ہماری اپنی اقدار ہیں اور ہم امریکہ کے ساتھ سو فیصد نہیں جا سکتے اور نہ ہی ہم اپنے عقیدے اور روایات کو چھوڑ سکتے ہیں‘‘۔ سعودی عرب کا یہ بدلا ہوا روّیہ امریکہ کے لئے حیران کن ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک گذشتہ تین ماہ سے سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اگر روس اور یورپ کی آپس میں جنگ شروع ہوتی ہے تو پھر کس قوت کا ساتھ دینا ان کے ملک کے لئے زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ ہر ملک کے اپنے اپنے حالات اور اپنی اپنی ضروریات ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک نے اپنے حالات کا جائزہ لیا تو ان کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس جنگ میں ان کے لئے روس کا ساتھ دینا زیادہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ سب سے پہلے مصر ہے جس کی 85 فیصد گندم روس اور یوکرین سے آتی ہے۔ اگر اس نے امریکی حکومت کا ساتھ دیتے ہوئے روس اور یوکرین سے گندم نہ منگوائی تو عام مارکیٹ سے گندم خریدنے کے لئے اس کے بجٹ میں رقم ناکافی ہے۔
مصر نے حال ہی میں روس سے ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ لگانے کا سمجھوتہ بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب یوکرین پر روس نے حملہ کیا تو مصر نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے برعکس یہ بیان دیا کہ روس کی نیشنل سکیورٹی کو بھی نیٹو سے سخت خطرات موجود ہیں۔ دُنیا کو یوکرین حملے کے پیچھے انہیں بھی مدِنظر رکھنا چاہئے۔ تیل پیدا کرنے والے ایک اور بڑے ملک کی حیثیت سے لیبیا کے اپنے معاملات بھی ایسے ہی ہیں۔ خلیفہ ہفتار والی سول وار کے بعد روس اور ترکی کی مشترکہ مدد نے ہی اب تک لیبیا میں ایک نئی سول وار کے خطرے کو روک رکھا ہے۔ اسی طرح لیبیا بھی اپنی 75 فیصد گندم روس اور یوکرین سے منگواتا ہے اور کل اگر جنگ چھڑتی ہے تو اس وقت اس کے گوداموں میں بھی گندم بالکل نہیں ہے اور وہ اگر برازیل یا ارجنٹائن سے منگواتا ہے تو اس پر خطیر رقم خرچ کرنا پڑے گی۔ اسی طرح تیونس بھی اپنی 80 فیصد گندم روس اور یوکرین سے منگواتا ہے اور ساتھ ہی وہ تیل بھی روس سے لیتا ہے۔ تازہ صورتِ حال یہ ہے کہ تیونس اپنے معاشی تحفظ کے لئے آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑا ہے۔
اس کے باوجود تیونس نے بھی اقوام متحدہ کی روس کے خلاف دو مارچ والی قرارداد کا ساتھ نہیں دیا۔ شام تو ویسے ہی گذشتہ کئی برسوں سے عملی طور پر روس کے کیمپ میں ہے۔ ترکی نیٹو میں ہونے کے باوجود روس کے ساتھ دو طرفہ تعلقات میں بہت آگے ہے۔ ترکی کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے کہ جنگ کے دوران بحرِ اسود کے کنٹرول میں وہ کس کا ساتھ دے گا۔ کیونکہ اس سمندر کے ایک جانب یوکرین ہے اور دوسری جانب ترکی۔ ایران اور سعودی عرب دونوں کے اپنے اپنے علاقائی جھگڑے بہت گہرے ہیں۔ عرب و عجم کی قدیم جنگ میں اُلجھے ہوئے دونوں ممالک اپنا اپنا پلڑا بھاری رکھنے کے لئے کسی ایک جانب فیصلے کی سوچ میں ہیں۔
امریکہ نے اپنی گومگو پالیسی بتائی ہے کہ وہ سعودی عرب کو چھوڑنا نہیں چاہتا اور ایران سے تعلقات مزید بگاڑنا نہیں چاہتا۔ ہر طرف منافقت چل رہی ہے، روس اور امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کوششوں میں تیزی ہے۔ عسکری ماہر کہتے ہیں کہ ایسے میں اگر اچانک جنگ چھڑ جاتی ہے تو پھر وہ اُدھم مچے گا کہ رہے نام اللہ کا۔ (جاری ہے)
تبصرہ لکھیے