ہوم << قومی کھیل ہاکی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش -نسیم الحق زاہدی

قومی کھیل ہاکی کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش -نسیم الحق زاہدی

ہاکی میں زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ دنیا میں پاکستان ہاکی ٹیم اب عالمی درجہ بندی میں بہت نیچے ہے ایسا لگتا ہے کہ ہاکی اب متروک ہو چکاہے۔بلا شبہ پاکستان کے قومی کھیل ہاکی کے گرتے ہوئے معیار نے محب الوطن پاکستانی کو پریشانی اور تشویش میں مبتلا کر رکھاہے ۔ماہرین کے مطابق ہاکی کے کھیل میں ہماری مسلسل ناکامیوں کی بنیادی وجوہات یہ ہیں کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے ہاکی کے کھیل کو دیدہ دانستہ باہر نکال دیا گیا ہے۔

کلب سسٹم کو تباہ و برباد کیا گیا اور نئے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔ہاکی فیڈریشن کے مالی و انتظامی معاملات انتہائی گھمبیر صورتحال اختیار کئے ہوئے ہیں۔ہر ادوار کی حکومتیں ہاکی کی سرپرستی کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان کھلاڑیوں کی تلاش میں ناکامی بھی پاکستان ہاکی کی مسلسل ناکامیوں کی وجہ ہے۔ ناقص کار کردگی کی وجہ سے اب وکٹری سٹینڈ پر پہنچنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ ضرورت ہے کہ قومی کھیل ہاکی کی ساکھ اور معیار کو بحال کرنے کے لئے بھرپور اقدامات کئے جائیں۔ہاکی میں پاکستان کا زوال 1980 ء کی دہائی سے شروع ہوا ۔یہ گزرے دنوں کی بات ہے جب ہماری قومی ٹیم ہاکی کا چہار دنگ عالم میں خوب چرچا تھا، پاکستان نے اس میں عالمی شہرت حاصل کی اور دنیا کی نمبر ون کے اعزازات اپنے نام کروائے ۔ ہاکی میں ایسے ایسے کھلاڑی ابھر کر سامنے آئے جنہوں نے دنیا بھر میں ملک کے ساتھ ساتھ انفرادی شناخت بھی قائم کی اور اپنی بھرپور صلاحیتوںکا مظاہرہ کرتے ہوئے جھنڈے گاڑھے۔

1956ء کے میلبورن اولمپکس ،1964ء کے ٹوکیو اولمپکس اور 1972ء کے میونخ اولمپکس میں پاکستان ہاکی ٹیم نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ 1960ء کے روم اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ہاکی کھیلنے والے تمام ممالک کو حیرت زدہ کردیا۔اس ٹیم میں شامل کھلاڑی پاکستان کے اصلی ہیروہیں جو ہاکی کی داستانوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ 1968ء میکسیکو میں منعقدہ اولمپکس گیمز میں ڈاکٹر طارق عزیز کی عمدہ قیادت میںٹیم نے گولڈ میڈل جیت کر اولمپکس میں پاکستان کا چاند ستارے والا پرچم سربلند کیا۔یہ وہ دور تھا جب ائیرمارشل (ر) نورخان کے کاندھوں پر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی صدارت کی ذمہ داری تھی۔نور خان نے جتنا ہاکی کے کھیل کو فروغ دیا شاید ہی اس قدر کوئی اور اس کھیل کی خدمت کر سکا۔ درحقیقت یہ ایئرمارشل نور خان کی شخصیت تھی جنھوں نے ہاکی ورلڈ کپ کے خیال کو حقیقت کا روپ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

انھوں نے 1969 ء میں لاہور میں منعقدہ بین الاقوامی ہاکی ٹورنامنٹ کے موقع پر مجوزہ ورلڈ کپ کی خوبصورت ٹرافی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے اس وقت کے صدر رینی فرینک کو پیش کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ ورلڈ کپ پاکستان میں منعقد ہوتا ہے تو وہ تمام ٹیموں کے سفری اور دیگر اخراجات بھی برداشت کریں گے۔پہلے ورلڈ کپ کی میزبانی پاکستان کو ملی لیکن اس وقت کے خراب سیاسی حالات کے سبب ورلڈ کپ کا انعقاد یہاں ممکن نہ ہو سکا۔ انڈین ہاکی ٹیم کے پاکستان میں کھیلنے کے حوالے سے بھی ملک میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔

اس دوران ورلڈ کپ کی میزبانی انڈیا کو دینے کی بازگشت بھی سنائی دی لیکن پاکستان نے واضح کر دیا کہ اگر عالمی کپ کی میزبانی انڈیا کو دی گئی تو وہ اس میں شرکت نہیں کرے گا، بالآخر مارچ 1971 ء میں انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے پہلا ورلڈ کپ ہاکی ٹورنامنٹ سپین کے شہر بارسلونا میں منعقد کرنے کا اعلان کر دیااور بارسلونا میں منعقدہ ورلڈ کپ1971ء میں سونے کا تمغہ جیتا۔60 ء اور 70 ء کے عشرے میں پاکستانی ہاکی کی کامیابیوں کے روشن سفر کی خوبصورت یادوں میں روم اور میکسیکو اولمپکس کے بعد بارسلونا کے ورلڈ کپ کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔یہ وہ دور تھا جب پاکستانی ہاکی ٹیم نے 1968 ء میں میکسیکو اولمپکس 1970 ء میں بنکاک ایشین گیمز جیتنے کے بعد 1971 ء میں بارسلونا میں پہلا ورلڈ کپ جیت کر ہاکی کا گرینڈ سلیم مکمل کیا۔اس فاتح ٹیم کے کپتان خالد محمود تھے۔24 اکتوبر 1971 کو کھیلے گئے فائنل میں پاکستان نے میزبان ملک سپین کو ایک گول سے شکست دی تھی، یہ فیصلہ کن گول فل بیک اخترالاسلام نے پنالٹی کارنر پر کیا تھا۔ ہاکی ورلڈ کپ 1975ء کوالالمپور اور 1990ء لاہور میں پاکستان ٹیم نے چاندی کے تمغے لئے۔

1978ء میں بیونس آئرس میں کھیلے گئے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان نے سب کو پچھاڑ دیا۔1982ء میں ہندوستان کے شہر ممبئی میں منعقدہ ہاکی ورلڈ کپ میں پاکستان نے اپنے اعزاز کا دفاع کیا ۔1984ء لاس اینجلس اولمپکس میں پاکستان نے ایک بار پھر سونے کا تمغہ حاصل کیا ۔ 1994ء میں سڈنی میں کھیلے گئے ہاکی ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔ یہ وہ دور تھا کہ پاکستان کی ٹیم اگر کوئی ٹورنامنٹ نہیں بھی جیت پاتی تھی تب بھی وکٹری سٹینڈ پر اس کی موجودگی طے سمجھی جاتی تھی۔پاکستان نے آخری مرتبہ عالمی کپ 1994 میں جیتا اور اس کے بعد پاکستانی ٹیم کی کارکردگی بری سے بدترین ہوتی گئی ۔پاکستان اسپورٹس بورڈ کی سرکاری ایوارڈ فہرست کے مطابق ملکی سطح پر سب سے زیادہ اعلیٰ اعزازات ہاکی کے کھلاڑیوں اورمنتظمین کو عطا کیے گئے جو ہاکی سے وابستہ شخصیات کی مقبولیت اور عوامی و حکومتی سطح پر پسندیدگی کی علامت ہے۔ہاکی میں 48 تمغہ حسنِ کارکردگی، 1 ہلال امتیاز، 1 ستارہ امتیاز، 9 تمغہ امتیاز، 1 تمغہ قائد اعظم، یعنی مجموعی طور پر 60 سرکاری اعزازات دیئے گئے ہیں۔ ہاکی کے روشن ستاروں میںحسن سردار، خالد حمید، حنیف خان، کلیم اللہ، سمیع اللہ ،منظور الحسن،رشید الحسن ، ناصر علی ، توقیر ڈار، شاہد علی خان، سلیم شیروانی تنویر ڈار، خالد محمود، طارق نیازی، جہانگیر بٹ،سعید انور اور ذاکر حسین کے نام قابل ذکر ہیں جو آج بھی زبان پر عام ہیں۔

کسی بھی کھیل میں کامیاب نتائج کے حصول کیلئے جذبے اور مہارت کے ساتھ ساتھ بہترین اور پیشہ ورانہ بنیادوں پر انتظامی منصوبہ بندی انتہائی ضروری ہے۔ ماضی قریب میں سیاسی وابستگیوں کی بنا پر ہاکی کا انتظام مخصوص افراد کے حوالے کردیا گیا جنہوں نے ہاکی کے ڈھانچے کو تباہ کرکے رکھ دیا۔ ضروری ہے کہ یہ ذمہ داریاں میرٹ پر صرف ہاکی کے تجربہ کار اور اعلی انتظامی صلاحیتوں کے مالک عظیم کھلاڑیوں کے سپرد کی جائیں۔ نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو فروغ دینے اور ہاکی کو قومی کھیل کے طور پر بحال کرنے کے لیے پہلی چیف آف آرمی سٹاف نیشنل انٹر کلب ہاکی چیمپینئن شپ پاکستان نے ہاکی فیڈریشن کے تعاون سے مجموعی انتظامات کے تحت منعقد کی جارہی ہے بمقام نٹل ہاکی اسٹیڈیم لاہور فائنل پہلا مرحلہ، دوسرامرحلہ اور تیسرا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے ۔

اب14سے23جولائی تک نیشنل مرحلہ کھیلا جائے گا اور23جولائی کو فائنل میچ ہوگا ۔ان ہاکی میچز سے ایک زبردست تبدیلی آئے گی اور پاکستان ایک بار پھر سے ’’ہاکی‘‘کے کھیل میں دنیا بھر میں اپنا نام روشن کرے گا اورہاکی کے کھیل میں ان مٹ ریکارڈ قائم کرے گا۔عوام الناس اور شائقین کے لیے انٹری فری ہوگی۔

Comments

Click here to post a comment