ہوم << وزیر اعظم خان کے تین آپشنز...آصف محمود

وزیر اعظم خان کے تین آپشنز...آصف محمود

asif mehmood
تحریک انصاف کا کنونشن ختم ہوا تو سرشام چودھری طاہر جمیل سے ملاقات ہوئی۔ طاہر جمیل پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی پریس سیکرٹری رہ چکے ہیں اور وہ کنونشن ہی سے سیدھا اٹھا کر آ رہے تھے ۔ میں نے کہا : چودھری صاحب کنونشن کیسا رہا؟ دلگرفتہ سی مسکراہٹ بکھیر کر کہنے لگے: ’’کیا بتائیں آصف صاحب ، ٹائیگر تو ہم پہلے ہی تھے ۔ہمیں تازہ حکم اب یہ دیا گیا ہے کہ دم ہلا کر دکھائیں ورنہ تین آپشنز میں کوئی ایک چن لیں ‘‘ ۔
یہ تین آپشنز عمران خان صاحب نے کنونشن میں اس وقت دیے جب ایک کارکن کھڑے ہو کر عمران خان کے سامنے کچھ لوگوں کی شکایت کرنا چاہی۔اس سادہ دل کارکن کو علم نہیں تھا کہ عمران خان کی تحریک انصاف اب جارج آرول کا ’’ اینیمل فارم ‘‘ جہاں کہنے کو تو تمام کارکن برابر ہیں لیکن کچھ خاص کارکن کچھ زیادہ ہی برابر ہیں۔اسے شاید علم نہیں تھا کہ وہ تحریک انصاف خواب ہو چکی جس نے پلکوں میں سپنے کاشت کیے تھے۔اب کارکن کا جذبہ اور خلوص نہیں کچھ اور عوامل ہیں جو اسے پارٹی میں معتبر بناتے ہیں۔کارکن بھی غالبا ان عوامل سے محروم ہو گا۔ جہاز کی بجائے کسی کھٹارہ سی بس پر آیا ہوگا ۔ اس کا لباس بتا رہا ہو گا کہ کم بخت برانڈڈ پیر ہن سے نا آشنا ہے۔اس کا حلیہ شکوہ کناں ہو گا کہ اس کے پاس کوئی ایسی تجوری نہیں جس میں سے نکال کے بھاری فنڈ دے سکے۔ اب نئے پاکستان کے خواب ناک ماحول میں ایسے کارکن کا کیا کام ۔ چنانچہ اس گستاخی پر وزیر اعظم خان کو غصہ آ گیا اور انہوں نے ارشاد فرمایا کہ پارٹی کے عہدوں پر وہ نامزدگیاں کریں گے۔جس کو اختلاف ہو اس کے پاس تین آ پشنز ہیں ۔ اول : وہ تحریک انصاف کو چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں چلا جائے ۔ دوم : وہ الگ سے سیاسی جماعت بنا لے ۔ سوم : وہ عمران خان کے مقابلے میں چیئر مین کا الیکشن لڑ لے۔
’’ شہر گر طلب کرے تم سے علاج تیرگی
صاحب اختیار ہو ، آگ لگا دیا کرو ‘‘
یہ اس عمران خان کا رویہ ہے جو ملک میں ایک جمہوری کلچر کا علمبردار ہے۔ دوسروں کو بادشاہ سلامت کا طعنہ دیتا ہے ۔ لیکن اس کی اپنی بارگاہ میں ایک کارکن کو یہ اجازت بھی نہیں کہ دل کی بات ہی کہہ سکے۔مکرر عرض ہے کہ کسی روز نیا پاکستان بن گیا تو احباب کو لگ پتا جاے گا کہ آمریت کیا ہوتی ہے۔عمران خان کا کوئی ایک المیہ نہیں ہے۔ مطالعے کا شدید فقدان ہے ۔ مشیر بھی عون چودھری اور نعیم الحق جیسے نابغے ہیں ۔ مزاج میں ٹھہراؤ آ ہی نہیں سکا۔چنانچہ ہر صبح صاحب ایک خواب دکھاتے ہیں اور ہر شام اس کی تعبیر خود ہی پامال کر دیتے ہیں۔ایک عرصہ ڈھول پیٹا جاتا رہا جماعت میں الیکشن ہوں گے۔ پھر صاحب کے مزاج کی آمریت دو الیکشن کمشن کھا گئی۔ اول جسٹس وجیہہ الدین جیسا نجیب آدمی برداشت نہ ہوا پھر تسنیم نورانی اور سیمسن سائمن کے ساتھ بھی نہ چل سکے۔
اب کارکنان کو کہا جا رہا ہے گونگے بہرے بن کر اطاعت کرو ورنہ تین آپشنز موجود ہیں۔تحریک انصاف کا فکری افلاس لمحہ لمحہ بڑھتا جا رہا ہے۔اب فکری زمام نعیم الحقوں کے ہاتھ میں ہے۔ان کا تازہ ٹویٹ بہت سوں کو گدگدا گیا ہے ۔جناب نعیم الحق لکھتے ہیں کہ کشمیر میں ن لیگ نے 689000ووٹ حاصل کیے ۔جبکہ تحریک انصاف نے 383000 ووٹ لیے اور پی پی پی نے 353000 ووٹ لیے ۔ پی پی پی اور تحریک انصاف نے مل کر ن لیگ سے زیادہ ووٹ لیے لیکن ان دونوں کی نشستیں صرف چار ہیں جب کہ ن لیگ کی 32 نشستیں ہیں۔ایسا تجزیہ صرف نعیم الحق ہی کر سکتے ہیں۔کیا اب بھی کوئی شخص نعیم الحق صاحب پر یہ تہمت لگا سکتا ہے کہ وہ سیاست کی الف ب سے واقف ہیں۔نعیم الحق صاحب کو یہ تو نہیں بتایا جا سکتا کہ بھائی دو جماعتیں ساٹھ ساٹھ ووٹ لیں اور تیسری جماعت اکسٹھ ووٹ لے جائے تو اکسٹھ ووٹ لینے والی جماعت جیت جاتی ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہم دو جماعتوں نے مل کر ایک سو بیس ووٹ لیے تھے تو اکسٹھ والا کیسے جیت گیا۔ایسا مشورہ وہ یقیناًپسند نہیں کریں گے۔ انہیں وہی مشورہ دینا چاہیے جو انہیں اچھا لگے۔ تو بھائی یہ دھاندلی ہو گئی ہے۔ جلدی سے دھرنا دو اور گنگناؤ : ’’ عمران خاں دے جلسے اچ اج میرا نچنے نوں جی کردا ‘‘
میں نے چودھری طاہر جمیل سے پوچھا اب کیا ارادہ ہے ۔سوال اٹھانا ہے یا دم ہلانی ہے۔ کہنے لگے کیا کریں دم ہلا نے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔دم بھی اگر اے ٹی ایم کے سائے میں نہ ہلے تو کوئی فائدہ نہیں۔جسٹس وجیہہ الدین ،اکبر ایس بابر، نوید خان، عدنان رندھاوا،ایڈمرل جاوید اقبال ۔۔۔کتنے ہی لوگ الگ ہو گئے۔اب نعیم الحق ہیں اور عون چودھری۔انجام دیوارپہ لکھا ہے۔
خیر یہ ان کا جماعتی مسئلہ ہے ۔مجھے دم سے ایک نظم یاد آ رہی ہے۔یہ نئے پاکستان کا امکانی منظر نامہ نہیں ہے۔ اسے صرف ادبی ذوق کے تحت پڑھا جائے۔
’’جناب دم کی عجب نفسیات ہوتی ہے
کہ اس کی جنبش ادنی میں بات ہوتی ہے
وفا کے جذبے کا اظہار دم ہلانا ہے
جو دم کھڑی ہے وہ نفرت کا تازیانہ ہے
جو لمبی دم ہے وہ عالی صفات ہوتی ہے
جو مختصر ہے بڑی واہیات ہوتی ہے
وہ جاندار مکمل نہیں ادھورا ہے
وہ جس کی دم نہیں ہوتی لنڈورا ہے
جہاں میں یوں تو ہے اونچا مقام انساں کا
مگر لنڈوروں میں آتا ہے نام انساں کا
میں سوچتا ہوں جو انساں کے دم لگی ہوتی
کسر جو باقی ہے وہ بھی نہ رہ گئی ہوتی
وہ اپنی جان بچانے کو یہ سپر لیتا
جو ہاتھ سے نہیں کر پاتا دم سے کر لیتا
کچھ اس طرح سے رد عمل ہوا کرتا
گزرتی دل پہ تو دم پہ اثر ملا کرتا
خوشی کا جذبہ اترتا تو دم اچک جاتی
کوئی اداس جو ہوتا تو دم لٹک جاتی
کسی پہ دھونس جماتا تو دم اٹھا لیتا
کسی سے دھونس جو کھاتا جو دم دبا لیتا
بزرگ لوگ جوانوں سے جب خفا ہوتے
زباں پہ ان کے یہ الفاظ برملا ہوتے
تمہیں خبر نہیں تھی کیسی آن بان کی دم
کٹا کے بیچ لی تم نے تو خاندان کی دم
کہیں جو فاتح اعظم کوئی کھڑا ہوتا
میرے خیال میں یوں پوز دے رہا ہوتا
بڑے غرور سے لہرا رہا ہے دم اپنی
بجائے مونچھوں کے سہلا رہا ہے دم اپنی
سبا میں جب کوئی دستور نو بنا کرتا
شمار رائے کچھ اس طرح سے ہوا کرتا
جو لوگ اس کے موافق ہیں دم اٹھا لیں وہ
جو لوگ اس کے مخالف ہیں دم گرا دیں وہ
امیر لوگوں کی دم میں انگوٹھیاں ہوتیں
انگوٹھیوں میں نگینوں کی بوٹیاں ہوتیں
گھمنڈ اور بھی بڑھ جاتا اور اتراتے
یہ لوگ جب گھڑی اپنی دم میں لٹکاتے
حسین لوگ کسی طرح سے نباہ لیتے
نہ ملتا کچھ تو فقط دم ہی کو ہی رنگا لیتے
جو مفلسی سے اپنی کوئی جھلاتا
تو ہسپتال میں جا کے دم کٹا آ تا
حسین لوگوں کی پھولوں ے دم ڈھکی ہوتی
کہ پھلجھڑی سے فضاؤں میں چھٹ رہی ہوتی
دموں سے پھر قد زیبا کچھ اور سج جاتے
کہاں کی زلف کہ دم ہی میں دل الجھ جاتے
یہ افتخار جو ہم عاشقوں کو مل جاتا
ہر ایک غنچہ امید دل کو کھل جاتا
کسی کو بزم میں ہم اپنا یوں پتا دیتے
بجائے پاؤں دبانے کے دم دبا دیتے
کبھی کمند کا جو کام دم سے ہو جاتا
ہم عاشقوں کا بڑا نام دم سے ہو جاتا
اشارہ کر کے ہمیں دم وہ اپنی لٹکاتے
ہم ان کے کوٹھے پہ دم کو پکڑ کے چڑھ جاتے
ہماری راہ کا ہر کانٹا پھول ہو جائے
اگر دعا یہ ہماری قبول ہو جائے
کہ آدمی کے لیے دم بہت ضروری ہے
بغیر دم کے ہر اک آرزولنڈوری ہے ‘‘
لیجیے ابھی تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما کا ایس ایم ایس آیا ہے۔لکھا ہے نواز شریف اور کھوتے میں فرق ہے۔ ساتھ ہی ایک ویڈیو بھیجی گئی ہے اور کہا گیا ہے صاحب نے اس ویڈیو میں اس فرق کو مخصوص انداز میں ضاحت سے بیان کیا ہے۔ ویڈیو تو میں نے نہیں دیکھی البتہ یہ سوچ رہا ہوں کاش تحریک انصاف کے پاس بھی کوئی ایسا رہنما ہوتا جس کے بارے میں یہ صاحب ایسا ہی کوئی دعوی کر سکتے۔