ہوم << قندیل بلوچ اور ڈاکیومنٹری فلم - ساجدہ فرحین فرحی

قندیل بلوچ اور ڈاکیومنٹری فلم - ساجدہ فرحین فرحی

سوشل میڈیا سے مقبول ہونے والی فوزیہ المعروف قندیل کے قتل پر بحث اب تک جاری ہے. موت کے گھاٹ اُترنے والی یہ پہلی عورت نہیں ہے، اس سے پہلے بھی شوبز سے تعلق رکھنے والی کئی خواتین مبینہ طور پر قتل کردی گئیں یا انھوں نے اپنی زندگی کا خاتمہ خود ہی کرلیا. بھارتی اداکارہ جیا خان کی 25 سال کی عمر میں موت کی خبر آئی، بعد میں اداکارہ کی والدہ نے اسے قتل قرار دیا. پرتیوشا نے اسی سال یکم اپریل کو23 سال کی عمر میں پنکھے سے لٹک کر خودکشی کرلی. 1993میں بالی وڈ اداکارہ دیویا بھارتی 19 سال کی عمر میں اپنے فلیٹ کی کھڑکی سے گر کر ہلاک ہو گئی جسے بعد میں قتل قرار دیا گیا. اس کے علاوہ مشہور اداکارہ پروین بوبی 55سال کی عمر میں 2005 میں اپنے گھر میں مردہ حالت میں پائی گئی. میڈیا کی یہ چکاچوند دیکھنے میں جتنی دلفریب و سحر انگیز ہے پس پردہ اتنی ہی وحشت و اذیت ناک ہے، بظاہر خوش نظر آنے والی یہ اداکارائیں اندر سے کتنی مایوس اور تنہا ہوتی ہیں، یہ صرف وہی جانتی ہیں. شہرت کی نام نہاد بلندی تک پہنچے کے لیے ذلت کی کھائیوں میں گرنا پڑتا ہے، یہ شوبز سے تعلق رکھنے والے افراد بخوبی جانتے ہیں.
غربت کا شکار اور ذہنی طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے والی فوزیہ کو قندیل کس نے بنایا؟ یقینا اُن لاکھوں افراد نے جو یوٹیوب اور فیس بک پر اس کی ویڈیوز لائیک اور شیئرز کرتے اور اس قندیل کو مزید جلنے کے لیے اس کے بےباکانہ انداز کو مزید بھڑکاتے رہے، اس کی HOT VIDEOS سے اپنی آنکھیں سینکتے رہے. قندیل نے اپنی اسی کمائی سے بھائی کو موبائل کی دکان کھلوا کر دی تھی، ماں باپ کو ملتان میں گھر دلوایا، چھوٹی بہن کا جہیز جمع کرکے اُس کی شادی کی. اگر ایم بی اے مارکیٹنگ کرلیتی تو قیمت لگوانے کے کاروباری گر سیکھ جاتی جنھیں استعمال کرکے ملٹی نیشنل کمپنیاں لڑکیوں کو ہائر کرتی ہیں یا تھوڑے پیسے لگا کر دیگر اداکارائوں کی طرح کوئی مارکیٹنگ منیجر رکھ لیا ہوتا تو یہ نوبت نہ آتی. اداکار ہوں یا اینکر سب ہی اپنی فیس ویلیو کو کیش کرواتے ہیں لیکن قندیل شوبز کے اس سمندر میں بغیر سمجھے کود پڑی اور بالاآخر ڈوب گئی.
اپنی نمائش کرکے پیسے کمانے کا جو پیشہ اس نے اپنایا، اسی پیشے سے اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کئی دھندے چل رہے ہیں، کہیں چوری چھپے تو کہیں کھلم کھلا، مگر ایسے کاموں میں ملوث لوگ زیادہ تر اپنی شناخت خفیہ رکھتے ہیں لیکن میڈیا نے قندیل بلوچ کو نہ صرف بطور فوزیہ عظیم دریافت کیا بلکہ اس کے محلے، گھر اور رشتہ داروں تک بھی پہنچ گیا، اس کے مخفی حقائق کو افشا کردیا اور اب یہی میڈیا اس قتل پر مگرمچھ کے آنسو بھی بہا رہا ہے.
قندیل بلوچ کا نشئی بھائی جو کئی سالوں سے اُس کی کمائی کھا رہا تھا، بقول میڈیا اچانک اس کی غیرت جاگی اور اس نے اپنی بہن کو مارڈالا. میڈیا نے قندیل کا نماز جنازہ ادا کیے جانے کے موضوع کو بھی نہ بخشا، اسے بھی ٹاک شوز میں زیر بحث لایا گیا کہ کیا ایسی عورت کی نمازجنازہ ادا ہونی چاہیے جس کے جواب میں کہا گیا کہ اگر ایسی عورت کی نماز جنازہ نہ ادا کی جائے تو پھر ایسی عورتوں سے مستفید ہونے والے مرداوں کی بھی نماز جنازہ ادا نہیں کی جانی چاہیے. قندیل کے زندہ تھرکتے جسم کو دیکھنے والوں کی تعداد فیس بک پر سات لاکھ سے زیادہ تھی اور اس کے کفن میں لپٹے مردہ جسم کو کندھا دینے والے سینکڑوں بھی نہ تھے. اُس کے ساتھ ایک دن گذرنے والا اینکر تھا نہ اس کی نمائش لگا کر ریٹنگ حاصل کرنے والا کھرا سچ کا دعویدار کیونکہ میڈیا کے یہ گدِھ صرف عورت کے کھلے جسم کے سوداگر ہیں. ہاں موم بتی مافیا نے البتہ قندیل کی نعش سے بھی اپنا کاروبار چمکانے کی کوشش کی اور اس قتل کا ذمہ دار بھی مفتی کی آڑ میں غیرت اور اسلام کو ٹھہرایا. قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں اس پر مزید پیسہ کمانے اور ایوارڈز حاصل کرنے کی دوڑ میں کوئی ڈاکیومنٹری یا فلم بھی بنائی جاسکتی ہے کیونکہ فلم کے ہٹ ہونے کے لیے اسٹوری میں مصالحہ تو پورا ہے اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کے بھی روشن امکانات ہیں

Comments

Click here to post a comment