ہوم << ہمارے بزرگ - سعدیہ نعمان

ہمارے بزرگ - سعدیہ نعمان

مجھے ماتھے پہ بوسہ دو، لمحہ لمحہ ریت کی مانند ہاتھ سے سرکتی زندگی، خالی آنکھیں، نحیف و کمزور جسم، لرزتی ٹانگیں، چٹختی ہڈیاں، امید و خوف کے بیچ پل پل گزارتے یہ ہمارے بزرگ. بلڈ پریشر، شوگر، دماغی اور جسمانی کمزوری، وسوسے اندیشے اور تنہائیاں، ایک چھڑی، دوائوں کے ڈبے، جائے نما ز ، قرآن ، چشمہ اور ماضی کی یادیں. ایک ٹیلی فون جس کی خامشی بار بار متوجہ کرتی ہو، اور ایک لا حاصل سا انتظار.
پھر یکدم بے رنگ اور پھیکی زندگی میں رنگ اُ مڈ آتے ہیں، بے جان آنکھوں میں چمک سی اُبھرتی ہے، زرد پڑتے چہرے پہ وصل و ملاپ کی سرخی سی دمکنے لگتی ہے، خشک ہونٹ محبت کی چاشنی سے تر ہو جاتے ہیں اور ایک مسکراہٹ انھیں اپنے حصار میں لے لیتی ہے. وہ خود کو جوان محسوس کرنے لگتے ہیں جب اپنے وجود کے ٹکڑ وں کو اپنے سامنے پاتے ہیں، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں کا دیدار ان کے دل کی دھڑکن کو بحال کر دیتا ہے، بانہیں والہانہ انداز میں وا ہوتی ہیں اور سست پڑتا وجود پھر سے تروتازہ ہو جاتا ہے جیسے کسی خشک زمیں کو سیراب کر دیا گیا ہو اور اس میں سے سبزہ اور ہریالی پھوٹ پڑے ہوں۔
یہ تجربہ اور مشاہدہ ہر اس فرد کا ہوگا جہاں بزرگ والدین موجود ہیں اور جن کی اولاد رزق کی تلاش میں نگر نگر کی خاک چھان رہی ہے. چھٹیاں ہوں یا عید، شب رات کے مواقع، ہمارے ہاں یہ عظیم روایت ابھی بھی زندہ ہے کہ سب اپنے بزرگ والدین کے گھروں کا رخ کرتے ہیں. ابھی عید گزری اور دوست احباب سب نے بچوں کی تصاویر لگائیں کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے. میرے ذہن میں مسلسل گردش کرتا رہا کہ اس میں یہ اضافہ ہونا چاہیے کہ عید کا مزہ اور رونق و برکت تو بزرگوں کے دم قدم سے ہے، خواہ میکہ ہو یا سسرال، انھیں نظرانداز نہ کریں. گزرے وقتوں میں ان والدین نے ہمارے لیے دن رات ایک کیے، اپنا عیش و آرام اور ضرورتیں قربان کیں، ہماری خوشیوں میں خوش ہوئے، ہماری تکلیفوں پہ تڑپتے رہے، اب ہمیں ان کی دعاؤں کی ہر مرحلے پہ ضرورت ہے تو ہم ان سے بے نیاز کیسے رہ سکتے ہیں.
نئی نسل کو ان کا مقام ہمیں ہی سمجھانا ہے. ذرا سوچیے بوڑھا دادا یا نانا اگر اپنی لاٹھی کی جگہ اپنے پوتے یا نواسے کے کندھےکا سہارا لیتا ہے اور یہ نوجوان ان بزرگوں کی لاٹھی بن جاتے ہیں تو انھیں کتنی خوشی ہوگی اور نوجوان نجانے کتنی خوش بختیاں سمیٹ لیتے ہوں گے. اس مادیت پرست دور میں جہاں ماں اور باپ کا ایک دن منا کر فرض ادا کر دیا جاتا ہے وہاں ہم پر قرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بزرگ والدین سے جوڑیں اور خدمت کی روایات کو مرنے نہ دیں. سود و زیاں کے پیمانے وہ نہیں جو معاشرے نے بنا دیے بلکہ وہ ہیں جو ہمارے رب نے مقرر کیے اور ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھا دیے. جنت سمیٹنے کے مواقع مل رہے ہیں تو ضائع نہ ہونے دیں. والدین کی جذباتی اور ذہنی و جسمانی ضروریات کو حتی الا مکان پورا کرتے رہیں، جتنا اور جب وقت دینا ممکن ہو ترجیحاً دیں. اُف کہے بنا، جھنجلا ہٹ کا شکار ہوئے بغیر، دعا کرتے ہوئے خدمت کرتے رہنے کا اجر اللہ دنیا میں بھی ضرور دیتا ہے اور آخرت میں بھی.

Comments

Click here to post a comment