ضروری نہیں کہ جو طاقتور ہو وہی درست ہو بلکہ جو درست ہے وہی طاقتور ہے. ہم اللہ کے آگے رکوع و سجود کرتے ہیں اس لیے ترک ملت کو کوئی خوف نہیں. یہ تاریخی الفاظ ترک صدر رجب طیب اردگان نے ترکی میں حالیہ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے بعد ادا کیے. کچھ ایسے ہی تاریخی الفاظ رجب طیب اردگان نے تب کہے تھے جب وہ استنبول کے میئر تھے. اُنھوں نے کہا تھا کہ مسجدیں ہماری چھائونیاں ہیں، اس کے گنبد ہمارے ہیلمٹ ہیں، اس کے مینار ہمارے میزائل ہیں اور نمازی ہمارے سپاہی ہیں، پوری دینا کو فتح کرنا ہمارا مشن ہے، اسلام غالب آکر رہےگا خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔ اس بیان کی پاداش میں رجب طیب اردگان کو سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا، اُن کی جماعت نے انتخابات میں فتح حاصل کی اور عبداللہ گل نے قیادت سنبھال لی اور دو سال بعد جب طیب اردگان پر لگائی گئی پابندی ختم ہوئی تو اُنھیں ترکی کا مقبول حکمران بننے سے کوئی نہ روک پایا.
2002 میں جب طیب اردگان کی جماعت برسراقتدار آئی تو ترکی32.5 بلین ڈالر کا مقروض تھا اور پھر 2012میں ترکی نے آئی ایم ایف کا سارا قرض ادا کردیا اور اعلان کیا کہ اگر آئی ایم ایف کو قرض درکار ہے تو وہ ترکی سے رجوع کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ طیب اردگان کے اس دور حکومت میں ترکی کے جی ڈی پی میں 64 فیصد ، اور انفرادی سطح پر اقتصادی ترقی کی شرح میں 43 فیصد اضافہ ہوا۔ 2001 ترکش سینٹرل بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 26.5 ملین ڈالر تھے جو 2011 میں بڑھ 92.2 بلین ڈالر ہوگئے. اسی وجہ سے ترکی کے عوام طیب اردگان اور اُن کی جماعت کے نظریات کے ساتھ ساتھ اُن کی نافذ کردہ اقتصادی پالسیز کے بھی گرویدہ ہیں، اسی لیے فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے اُن کی سوشل میڈیا پر کی گئی اپیل پر اپنی جان کی بازی لگا کر رات کے اندھیرے میں سڑکوں پر نکل آئے. وہ قوتیں جن کی سازش نے مصر کی منتخب اسلام پسند حکومت کا تختہ اُلٹا اور انسانی حقوق کی پامالی کی گئی، سینکڑوں افراد کو پھانسیاں دی گئیں اور انسانی حقوق کے دعویدار گونگے بہرے اور اندھے بن کر تما شا دیکھتے رہے، وہی سازشی عناصر ترکی میں باغیوں سے نمٹے جانے والے اقدامات کو غیر انسانی قرار دے رہے ہیں اور پھانسی کی سزا کی بحالی پر یورپ سے بے دخلی کی دھمکی دی جارہی ہے. ان بااثر قوتوں کے لائحہ عمل کی عکاسی ان کے زیراثر ابلاغی اداروں سے عیاں تھی. ترکی میں فوجی بغاوت کی کوریج کے دوران CNN, FOX, SKY, BBC جیسے نیوز چینلز نے اپنی خبروں، تجزیوں اور تبصروں میں اردگان کو دہشت گردوں کا حامی گردانا اور کہا گیا کہ اب فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں امن کا سفر دوبارہ شروع ہوگا. فاکس نیوز پر بات کرتے ہوئے امریکی سابق سفیر جان بولٹن نے کہا کہ اگر بغاوت ناکام ہو گئی تو بہت خون ریزی ہوگی. اور اسی چینل پر اس دوران ترک اور امریکی فوج کے تعلقات پر مذاکرے کا بھی اہتمام کیا گیا تو O'Reilly Factor میں Lt. Col. Ralph Peters نے کہا کہ اگر ترکی میں فوجی بغاوت کامیاب ہوگئی تو اسلامسٹ ہار جائیں گے اور ہماری فتح ہوگی.
ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ مغربی اخبارات بھی ترکی کی اسلام پسند حکومت کے خلاف ہونے والی بغاوت پر بہت خوش نظر آئے اور جب یہ بغاوت ناکام ہو گئی تو پھر اس بغاوت کو مشکوک ثابت کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے۔انڈپینڈنٹ نے ترکی کی فوجی بغاوت کو جعلی ڈرامہ قرار دیا جبکہ 19 جولائی کو فاکس نیوز نے ایک تجزیہ شائع کیا Turkish coup attempt spawns conspiracy theories, bolsters Erdogan's clout اس میں لکھا گیا کہ اس فوجی بغاوت سے اردگان کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے، اس بغاوت سے اردگان کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا ہے۔ تجزیے میں لکھا گیا کہ ترکی میں اس سے پہلے فوجی بغاوتیں کامیاب ہوتی چلی آئی ہیں مگر اس دفعہ کیسے ناکام ہو گئی اور اس بغاوت کے دوران فوج ذرائع ابلاغ پر مکمل کنٹرول کرنے میں کامیاب کیوں نہ ہو پائی اور لوگ کیسے ذرائع ابلاغ پر اردگان کی اپیل پر گھروں سے باہر نکل آئے اور اس بغاوت کو ناکام بنا دیا. اس میں کہا گیا ہے کہ F-16 aircraft نے اردگان کے جہاز کو کیوں مار نہیں گرایا جبکہ F-16 aircraft آسانی سے اردگان کو نشانہ بنا سکتے تھے. کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ اردگان کو کچھ گھنٹے قبل اس فوجی بغاوت کا علم ہوگیا تھا، اس لیے اس سے نمٹنے کی تیاریاں کرلی گئی تھی اور جب فوجی بغاوت ناکام ہوگئی تو سیکولر میڈیا نے اسے اردگان کا ڈرامہ قرار دے دیا، Business Insider نے لکھا کہ اردگان نے اس فوجی بغاوت سے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کی ہے. ٹیلیگراف نے بغاوت کو ترکی کے سیکولر آئین کی محافظ فوج کہہ کر Justify کرنے کی کوشش کی. نیویارک ٹائمز نے اردگان کو متنازعہ اور سخت گیر رہنما لکھا. ٹائمز آف مالٹا نے یورپی یونین کے نامعلوم ذرائع کے توسط سے ٹویٹ میں لکھا کہ ترکی میں فوجی بغاو ت کامیاب ہوگئی ہے اور روس کی نیوز ایجنسی نے تو جھوٹ کی انتہا ہی کردی، ایسی تصویر اپ لوڈ کی جس میں لوگ فوجی بغاوت کو ناکام بنانے سڑکوں پر نکلے تھے مگر سپوتنک نیوز ایجنسی نے اس تصویر کو اس عبارت کے ساتھ لکھا کہ ترکی میں لوگ فوجی بغاوت کے کامیاب ہونے کا جشن منا رہے ہیں البتہ CNN Turk نے ایک اچھا کام بھی کیا. صدر طیب اردگان کا فیس ٹائم پر دیا گیا پیغام نشر کیا جس میں عوام سے اس بغاوت کے خلاف آواز اُٹھانے کی ترغیب دی گئی تھی، اور سی این این پر ہی انٹرویو میں اردگان نے ڈرامے کے الزام کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دو سو سے زائد افراد کی شہادت اور ہزاروں زخمیوں کی زندگیوں سے کیسے کھیلا جاسکتا ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے استنبول یونیورسٹی کے سینٹر فار سٹڈیز میں پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل ریلیشنز کے شعبے کے سربراہ گلنور ایبت نے کہا کہ ملک میں فوجی بغاوت کی بظاہر ناکامی کی تین وجوہات دکھائی دیتی ہیں. پہلی یہ کہ تختہ الٹنے کی کوشش میں بہت کم تعداد میں فوجی شریک ہوئے، دوسری سینئر کمانڈر کا اس کوشش کی مذمت میں کھل کر سامنے آنا اور تیسری اہم وجہ عوام کااس فوجی بغاوت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ناکام بنانا تھا.
مغربی میڈیا اس بغاوت کو براہ راست کوریج دے رہا تھا بلکہ کچھ چینلز تو اردگان کی جرمنی میں پناہ کی درخواست اور لندن میں جہاز لے کر جانے کے من گھڑت دعوے کرتے رہے، مگر جب بغاوت ناکام ہوگئی تو اس کی کوریج کم کردی گئی. ہمارے کچھ اینکرز جن کے دل میں یہ خواہش شدت سے موجود ہے کہ کاش ترکی جیسی کوشش پاکستان میں کی گئی ہوتی، انھوں نے ترکی کی اس بغاوت کے دوران اپنے دل کے ارمان پورے کرنے چاہے اور اپنے ٹویٹ میں لکھا Erdo-Gone مگر اُن کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور امریکہ سے کنٹرول کی جانے والی اس فوجی بغاوت کو ترکی کے غیور عوام نے نہتے ہوکر بھی ٹینکوں کے سامنے آکر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ناکام بنا دیا. رات کی تاریکی میں کی گئی اس بغاوت کو ترکی کے بیدار لوگوں نے شفق کی پھوٹتی پہلی کرن کے ساتھ سحرکی روشنی سے شکست دے دی. اسلام کے چاہنے والوں نے نماز فجر سڑکوں پہ ادا کی اور ثابت کردیا کہ نماز عشق ادا ہوتی ہے تلواروں کے سائے میں.
ترکی کے ایک صحافی نے فوجی بغاوت کے دوران ٹی وی اسٹیشن پر قابص افواج کے احکامات ماننے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ٹویٹ کرکے لوگوں کو گھروں سے باہر نکل کر فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کرنے کی ترغیب دی. ترکی میں موجود صحافی ایلوسکوٹ نے ایک پیغام ٹویٹ کیا جو ان کے بقول صدر طیب اردگان نے لوگوں کو بھیجا تھا. اس پیغام میں صدر نے عوام سے حکومت کی حمایت کرنے کی اپیل کی تھی. اردگان نے اپنے مزاحمتی بیان کی تشہیر کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا. دور حاضر میں میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کے استعمال کی یہ بہترین مثال ہے. فوجی طاقت کو سوشل میڈیا کی طاقت سے شکست ہوگئی. کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ اب جنگیں جنگی ہتھیاروں سے زیادہ میڈیا کے ذریعے لڑی جائیں گی اور ترکی میں اس کی عملی شکل بھی دیکھ لی گئی.
تبصرہ لکھیے