ہوم << عبدالقادر حسن کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی - عامر خاکوانی

عبدالقادر حسن کی کہانی ، ان کی اپنی زبانی - عامر خاکوانی

جب میں نے افریشیا میگزین نکالا
عامر خاکوانی میں نے بھٹو صاحب کے دور میں یہ ہفت روزہ نکالا تھا. نوائے وقت چھوڑنے کی کوئی خاص وجہ نہیں تھی. آفریشا کا بہت اچھا ریسپانس ملا. پی این اے کی تحریک ہوئی تو ہم نے اسے بھرپور کوریج دینی شروع کی، پھر اس کی اشاعت اس قدر بڑھ گئی کہ اگلا ایشو آنے تک پچھلا پریس میں مسلسل چھپتا رہتا تھا. جنرل ضیاءالحق نے آکر سیاست پر پابندی لگا دی تو مجبوراً افریشیا بند کرنا پڑا. میں بطور کالم نگار دوبارہ نوائے وقت میں چلا گیا. دو تین سال بعد جنگ جوائن کرلیا. اس وقت میں اردو میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا کالم نگار تھا. اس دوران جنرل ضیاءالحق نے مجھے کہا کہ تم اخبار کے مالک تو زندگی بھر نہیں بن سکتے، میں تمھیں اخبار کا ایڈیٹر بنا دیتا ہوں. یوں میں امروز کا چیف ایڈیٹر بن گیا. 88ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی جیت کر آئی تو میں نے استعفا دے دیا اور دوبارہ جنگ میں لوٹ گیا. اس کے بعد ایکسپریس آگیا، ابھی تک ادھر ہی ہوں.
جن صحافیوں نے مجھے متاثر کیا
hameed-nizami-s-death-anniversary-today-1424832948-9253 پہلا نام تو حمید نظامی مرحوم کا آتا ہے. وہ ایک غیر معمولی ایڈیٹر تھے، ان کا سٹائل تھا کہ دفتر نہیں آتے تھے بلکہ گھر بیٹھ کر کام کرتے تھے. مجھے کالم کی طرف بھی حمید نظامی نے مائل کیا تھا. ایک بار میں نے ایک کالم لکھا اور نظامی صاحب کے پاس دفتر سے جانے والی ڈاک میں بھجوا دیا۔ اگلے روز وہ شائع ہو گیا تھا مگر شام کو میرے نام نظامی صاحب کا رقعہ آیا تھا جس میں انہوں نے صرف ایک جملہ لکھا ’’یہ کالم نہیں بلکہ مضمون تھا جسے ایک سال بعد بھی شائع کیا جا سکتا تھا۔‘‘ اس سے مجھے سمجھ آگئی کہ کالم تازہ حالات کے مطابق ہونا چاہیے۔ سبط حسن مرحوم نے بھی مجھے بہت متاثر کیا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ اردو کس بلا کا نام ہے۔ لفظوں کا استعمال‘ فقروں کی ترتیب ان سے سیکھی۔ اگرچہ ان کے نظریات زیادہ پاپولر نہیں ہو سکے مگر وہ حمید نظامی کے پائے کے ایڈیٹر تھے.
مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی باک نہیں کہ کالم نگار مجھے مجید نظامی صاحب نے بنایا۔ وہ طنز کے بادشاہ ہیں۔ کالم میں ایسے ایسے نکتوں کا اضافہ کرتے جو لاجواب ہوتے۔ اس سے میری عملی تربیت ہوئی۔ اگرچہ نظامی صاحب نے باقاعدہ کالم نگاری نہیں کی، وہ کچھ عرصہ سرراہے ضرور لکھتے رہے مگر بہت سے کالم نگاروں کو نامور بنانے میں ان کا کلیدی کردار ہے۔ وہ ایڈیٹر بھی کمال کے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایڈیٹرشپ ایک آرٹ ہے۔ اخبار بند کرانا کوئی خاص بات نہیں، کمال یہ ہے کہ اخبار بھی چلتا رہے اور اپنی بات بھی کہی جا سکے ۔ میر ظہورعالم شہید پائے کے نیوز ایڈیٹر تھے ،ان سے میں نے نیوز سینس اور خبر بنانی سیکھی۔ ان کی تربیت بعد میں کالم لکھتے ہوئے بھی کام آئی.
جماعت اسلامی میں رہنے کا تجربہ
میں صحافت میں آنے سے پہلے جماعت اسلامی میں رہا ہوں۔ پھر اس لیے چھوڑ دی کہ صحافی کو کسی سیاسی جماعت کا رکن نہیں ہونا چاہیے۔ جماعت میں گزرے دنوں نے میری نظریاتی بنیاد مستحکم Capture کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے مولانا مودودیؒ سے بہت سیکھا۔ وہ نادر روزگار شخص تھے۔ بڑے خوش مزاج‘ شریف اور تکلف سے عاری‘ ان کے چہرے سے ناشناسا لوگ بالکل نہیں پہچان سکتے تھے کہ یہ مولانا مودودیؒ ہیں۔ ان کے خیالات بڑے واضح اور غیرمبہم تھے۔ جماعت میں اس وقت نمبر2 مولانا امین احسن اصلاحی تھے۔ اصلاحی صاحب تفسیر کے ماہر تھے۔ ہم ان کے لیکچرز اٹینڈ کرتے تھے۔ فن تفسیر میں اصلاحی صاحب کی قابلیت کسی شک و شبے سے بالاتر ہے مگر قیادت کے حوالے سے مولانا مودودی زیادہ اہل تھے۔ مولانا انقلابی نہیں بلکہ ارتقائی عمل کے حامی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لوگوں کے ذہن بدلے بغیر انقلاب نہیں لایا جا سکتا۔ مجھے یاد ہے ان دنوں مولانا بڑے یقین سے کہتے تھے کہ میں زندہ رہوں یا نہ رہوں تم لوگ دیکھو گے کہ انقلاب روس ناکام ہوگا بلکہ کیپیٹل ازم بھی باقی نہیں رہے گا۔ ان کی ایک پیش گوئی تو ہم نے پوری ہوتی دیکھ لی۔ اب عراق میں امریکہ کی پسپائی سے کیپیٹل ازم کے خاتمے کا آغاز بھی ہو چکا ہے ۔ جماعت اسلامی اب ویسی نہیں رہی۔ بات تو وہی کی جا رہی ہے مگر یہ سیاست میں اتنی زیادہ آ گئی ہے کہ توازن نہیں رہا۔ جماعت کے ارکان کی ذہنی تربیت بھی پہلے جیسی نہیں۔ دراصل کردار سازی اور سیاست میں توازن نہیں رہا ہے۔ مولانا مودودی پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ برگد کے درخت بن گئے تھے اور انہوں نے جماعت میں کوئی قد آور دینی شخصیت تیار نہیں کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں نظر آتا ہے کہ بڑے بڑے علماء کے جانشین اتنے اہل نہیں آئے۔ صرف ایک استشنائی مثال ہے جب امام ابن تیمیہ کے شاگرد حافظ ابن قیم جیسے جلیل القدر عالم بنے۔
جنرل ضیا الحق
Gen05 بھٹو صاحب کے بارے میں بات پہلے ہو چکی ہے۔ جہاں تک جنرل ضیاء کا تعلق ہے۔ وہ ذاتی طور پر بہت اچھے انسان تھے۔ شریف‘ شائستہ اور میل ملاقات میں زبردست‘ تاہم اقتدار انھیں ہر قیمت پر مطلوب تھا۔ ان کی سب کوششیں اقتدار کے لیے تھیں، اسی لیے انھوں نے بھٹو کو پھانسی دے دی۔ ان کا تصور اسلام بھی محدود تھا۔ میلاد اور نعتوں والا۔ اسلام کے انقلابی تصور سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ جب میری ان سے پہلی ملاقات ہوئی تو میں نے کہا ’’ جنرل صاحب! آپ کی نماز روزہ کی پابندی بہت اچھی بات ہے مگر مجھے یا کسی اور کو اس سے کیا سروکار‘ حکمران کی نیکی وہ ہے جو عوام تک جائے۔‘‘ بعد میں صدیق سالک نے کہا کہ تم نے پہلی ہی ملاقات میں صاحب کو ناراض کر دیا ہے۔ مگر اس کا اثر یہ ہوا کہ بعد میں جب بھی کوئی خاص بات ہوتی تو مجھے اکیلے بلاتے اور مشورہ کرتے۔ انھوں نے جونیجو کو وزیراعظم بنایا تو انھیں نصیحت کی کہ اگر کوئی ایڈوائس لینی ہو تو قادر حسن سے لیا کرو۔ پھر جونیجو صاحب مجھے اکیلے بلا کر رائے لیا کرتے۔ اگرچہ حکمرانوں کو رائے دینا بےکار ہی ہوتا ہے، کرنا انھوں نے بعد میں وہی ہوتا ہے جو ان کا دل چاہتا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں ہمیں جونیجو سے بہتر وزیراعظم شاید ہی ملے۔ اگر وہ رہ جاتے تو ملک کی شکل ہی بدل دیتے۔ وہ دیانت دار تھے اور جو فنڈ ملتے وہ سب کے سب ترقی کے لیے خرچ کیے جاتے۔ آخری دنوں میں جنرل ضیاء کو معلوم ہوچکا تھا کہ اب امریکہ انہیں نہیں چھوڑے گا۔ دراصل جنرل ضیاء نے آئی ایس آئی کے دفتر میں ایک تقریر کی تھی جس میں کہا تھا کہ اب روس کے جانے کے بعد بھی افغان ہتھیار نہیں رکھے گا بلکہ پاکستان کو لانچنگ پیڈ بناتے ہوئے انڈیا اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں کی طرف جائے گا۔ ظاہر ہے یہ تصور ہی امریکہ کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ جنرل ضیاء کا ووٹ بینک مذہبی طبقے میں ابھی تک ہے۔ یہ تو ان کا بیٹا اعجاز الحق نالائقی کی انتہا پر پہنچ چکا ہے اور اس سے اپنے والد کے ووٹ بینک کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔
بے نظیر بھٹو
benzir_bhutto_asif_zardari_20070205a بے نظیر کے دور کو تو آصف زرداری کا دور کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری فوج کسی کو کیفرکردار تک پہنچنے نہیں دیتی۔ عوام ان کو شکست دیں تو بہتر ہوتا ہے مگر فوج ان ناکام سیاسی حکمرانوں کو بھی ہیرو بنا دیتی ہے۔ اب دیکھیں بے نظیر پر مقدمات حقائق ہیں۔ وہ ہار‘ وہ سرے محل‘ سپین میں جائیدادیں سب موجود ہیں‘ مگر آج کل سیاسی جماعتیں بھی فرقوں کی سی صورت اختیار کر گئی ہیں۔ جو پیپلزپارٹی کا ہے‘ وہ اپنی قائد کی تمام تر کرپشن )کے باوجود اسے ہی ووٹ دے گا۔ اب مطالبہ کیا جارہا ہے کہ دوبارہ آئو اور ہمیں لوٹو۔ ( یہ گفتگو بے نظیر بھٹو کے قتل سے پہلے کیا گیا تھا
میاں نواز شریف
نوازشریف ایک ان پڑھ سا ‘ سیدھا سادا میلادوں کے ماحول والا شخص تھا۔ماں باپ کا انتہائی فرمانبردار‘ ایک غیرمعمولی قسم کا تابعدار بیٹا۔ میرے اوپر تو وہ بڑا مہربان رہا ہے۔ دراصل نوازشریف کی آنکھ میں بہت حیا ہے‘ وہ کسی کو انکار نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے بعض غلطیاں ہوئیں۔ وہ بڑا کشادہ دل ہے۔ دوسری بار نوازشریف وزیراعظم بنا تو یکسر مختلف آدمی تھا۔ اس بار اس نے بڑی دیانتداری اور محنت سے کام کیا۔ بدقسمتی سے اسے اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملا۔ جہاں تک جنرل پرویز مشرف کی آمد کا تعلق ہے تو اب واضح ہوچکا ہے کہ یہ پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا۔ پینٹاگون سے اجازت مل چکی تھی۔ اس لیے اقتدار سنبھالتے ہی پہلا فون جنرل مشرف نے امریکی جنرل ٹونی کو کیا اور اس سے بیسٹ وشز لیں۔
نواب آف کالا باغ
مجھے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ آپ مغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب کالا باغ کو اپنے کالموں میں خاصا سراہتے ہیں۔ حالانکہ وہ انتہائی جابر شخص تھے۔ Nawab-Of-Kala-Bagh-image دراصل نواب کالا باغ غلط دور میں پیدا ہوا۔ اسے تو امیر تیمور کے دورمیں ہونا چاہیے تھا‘ ان کا ایسا ہی مزاج تھا۔ مجھے نواب امیر محمد خان کالاباغ کی انتظامی صلاحیتوں نے بہت متاثر کیا ہے۔ وہ اپنے ہر کام میں بہت ماہر تھا‘ خصوصاً زراعت میں ماسٹر تھا۔ اسے یہ تک معلوم ہوتا تھا کہ ا س دریا میں کس جگہ کتنی گہرائی ہے۔ نواب کالاباغ مغربی پاکستان کے ہرخاندان سے واقف تھا اور ان کی کمزوریوں اور طاقت کا بھی بخوبی اندازہ تھا۔ سخت تو وہ بہرحال تھا ہی.
کالم
کالم کی تعریف کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ اسے ایڈیٹوریل یعنی اداریہ سے مختلف ہونا چاہیے۔

Comments

Avatar photo

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment