ہوم << جارحیت کا شکار بچے اور ہمارے دفاعی ادارے - محمد اکرم چوہدری

جارحیت کا شکار بچے اور ہمارے دفاعی ادارے - محمد اکرم چوہدری

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی چار جون کو جارحیت کے شکار معصوم بچوں کا عالمی دن منایا گیا یہ دن منانے کا مقصد دنیا بھر میں جسمانی، ذہنی اور جذباتی استحصال کا شکار بچوں کے بارے شعور بیدار کرنا ہے۔ چار جون اقوام متحدہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی چار جون کو میں یہ سوچتا رہا کہ ایک طرف تو اقوام متحدہ جارحیت کا شکار معصوم بچوں کے حقوق کا عالمی دن مناتا ہے.

لیکن یہ دن مناتے ہوئے اس عالمی تنظیم کے عہدیداران کس طرح خود کو تسلی دیتے ہوں گے جب دنیا بھر میں بالخصوص مسلمان بچوں کے ساتھ دہائیوں سے ظلم و ستم ہو رہا ہے۔ کبھی فلسطین میں بچوں پر طاقت کا استعمال ہوتا ہے، روتے ہوئے معصوم بچوں کی تصاویر اور ویڈیوز دل کو چیر جاتی ہیں تو کبھی کشمیر کے بچے اپنے شہید والد کے سینے پر بیٹھے مہذب دنیا کے نام نہاد امن پسندوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں، کبھی روہنگیا مسلمان دنیا کے نام نہاد امن پسندوں کے دوہرے چہروں سے نقاب اتارتے ہیں تو کبھی افغانستان کے جنگ سے تباہ حال بچے دنیا کو دوہرے معیار پر سوالات اٹھاتے ہیں۔ اتنے بڑے انسانی اور بالخصوص بچوں کے بحران پر اقوام متحدہ اتنا بے بس ادارہ کیوں ہے۔ کیا اس دن کو منانے کا کوئی مقصد بچتا ہے کہ جب آپ کشمیر اور فلسطین کے بچوں کو اس بحران سے نکالنے کا مینڈیٹ رکھتے ہوں لیکن خاموش رہیں۔ اقوام متحدہ کی سطح پر یہ دن منانا ہی دوہرا معیار ہے۔ ایک طرف آپ طاقتور کو معصوم بچوں کو کچلنے کی اجازت دیں اور دوسری طرف اس بربریت کے خلاف عالمی دن منا کر خود کو جھوٹی تسلی دیتے رہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے طول وعرض میں لاکھوں بھارتی فوجی کشمیری بچوں اور بچیوں کے لیے خوف اور دہشت کا باعث ہیں۔ بھارتی دہشت گرد افواج کی جانب سے گھروں رہائشی بستیوں اور تعلیمی اداروں پر چھاپوں اور حملوں کے دوران بچے کس خوف اور دہشت کا سامنا کرتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے صرف انسان ہونا ضروری ہے۔ بچے کس خوف میں بڑے ہوتے ہیں، کس ذہنی اذیت سے گذرتے ہیں یہ جاننے کے لیے آپکا ڈاکٹر ہونا، ماہر نفسیات ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے اور اقوام متحدہ کو حقائق کا علم ہے۔بھارتی ظالم فوجیوں نے گزشتہ 32 برسوں میں کشمیری بچوں پر دہشت گرد حملوں کو باقاعدہ جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا, بعض جگہوں پر کشمیری بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔ لاکھوں بچے بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بن چکے ہیں۔

دو ہزار سات میں معصوم بچوں کی ایک تحریک میں بھارتی افواج کی دہشتگردی کیخلاف پرامن احتجاج کے دوران بھارتی فوجیوں نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ایک سو سے زائد بچوں کو گولیوں، پیلٹ گنوں، مختلف قسم کے بارودی اور مہلک گیس شیلوں سے شہید کر دیا۔سفاک بھارتی فوجیوں نے پیلٹ گنوں کے بدترین حملوں میں ہزاروں بچوں اور بچیوں کو اندھا کیا، انکے چہرہ بگاڑ دیئے بلکہ انکے جسموں کو شدید زخمی کرکے عمر بھر کیلئے معذور کیا۔بھارتی فوجیوں نے گزشتہ تین دہائیوں میں122000 سے زائد بچوں کو یتیم کیا جن کے والدین کو اجتماعی قتل عام،جعلی مقابلوں اور عقوبت خانوں میں بے رحمی سے شہید کیا گیا۔

کشمیری بچوں پر یہ تشدد، ظلم اور بربریت بھارتی حکومتوں کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ رہا ہے جس پر بھارتی سیکیورٹی فورسز کے وحشی اہلکار عمل پیرا ہیں۔سوال یہ ہے کہ آج جب دنیا متاثرہ بچوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کیلئے عالمی سطح پر دن منا رہی ہے تو فلسطین اور کشمیر کے لاکھوں بچے جو اسرائیلی اور بھارتی فوج کے ظلم اور بےرحمی کا شکار ہیں انکی طرف توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ اقوام متحدہ دن منانے کے بجائے عملی اقدامات کی طرف بڑھے۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بچے ظلم و ستم کا شکار ہیں ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے مذہب اور رنگ و نسل کی تفریق کے فیصلے ہونے چاہئیں۔ مسلمان بچوں کے خون سے زمین رنگیں ہو رہی ہے۔ مسلم امہ کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ ہر سال منایا جانے والا یہ دن اقوام متحدہ کو تو جگا نہیں سکا کیا مسلم امہ نے بھی نہ جاگنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔

پاکستان میں ہمیشہ ہمارا دفاعی بجٹ زیر بحث رہتا ہے۔ بعض حلقوں کو اس حوالے سے ہمیشہ اعتراض رہا ہے لیکن دفاعی بجٹ پر تنقید کرنے والے ہمیشہ بنیادی حقائق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ کیا بھارت جیسے ازلی دشمن کی موجودگی میں ہم دفاع کو نظر انداز کر سکتے ہیں، کیا دفاعی بجٹ ہمارے دفاع کے لیے نہیں ہے، یہ درست ہے کہ دیگر شعبوں پر بھی دفاع جیسی توجہ کی ضرورت ہے لیکن کیا کبھی کسی نے روکا ہے کہ تعلیم اور صحت پر پیسہ خرچ نہ کیا جائے، کیا کوئی روکتا ہے کہ عام آدمی کی زندگی کو بہتر اور آسان بنانے کے منصوبے شروع نہ کیے جائیں۔

اگر ہم اردگرد اور دنیا میں دفاعی بجٹ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھیں تو یہ فرق واضح نظر آتا ہے کہ ہم دیگر کاموں کی طرح دفاع والے معاملے میں بھی دنیا سے بہت پیچھے ہیں لیکن اس کے باوجود تنقید کرنے والے یہ حقیقت دیکھنا نہیں چاہتے۔ ایک محتاط اندازے اور ماہرین کے مطابق پاکستان کا دفاعی بجٹ لگ بھگ گیارہ ارب ڈالر جب کہ بھارت کا ڈیفنس بجٹ ستر ارب ڈالر ہے۔ایران کا دفاعی بجٹ بھی پچیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اس حوالے سے تنقید تو ہوتی ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جاتا کہ مالی مشکلات کے باوجود دفاعی اداروں نے ملک میں پائیدار امن کے قیام اور ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2020-21ءمیں عسکری ملازمین کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔

2019-20ء میں ملکی معاشی صورتحال کے پیش نظر دفاعی بجٹ منجمد رہا۔ دشمن کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ افواج پاکستان کیلئے ہمیشہ سے چیلنج رہا ہے گذشتہ دو برس کے دوران فوج کے بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا لیکن دشمن اس حوالے سے مسلسل کام کر رہا ہے اور اپنی فوجی قوت بڑھانے پر کام کر رہا ہے۔ ہم کب تک آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہ سکتے ہیں۔پاکستان کا دفاعی بجٹ پہلے جی ڈی پی کا 2.6 فیصد ہوا کرتا تھا اب کم ہو کر 2.2فیصد رہ گیا ہے۔ یہ صورت حال تشویشناک ہے۔ بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ چار گنا زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ ہمارا سب سے بڑا دشمن بھارت ہے اور وہ دفاعی اخراجات کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران دنیا میں فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

دنیا کے بدلتے ہوئے حالات اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کو دیکھتے ہوئے، پانی کے ذرائع پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے خواب اور پاکستان کو دیوار سے لگانے کی بھارتی حکمت عملی کے پیشِ نظر پاکستان کے لیے دفاع کو اہمیت دینا بہت اہم ہے۔ ہم آزاد ہیں اور ایٹمی طاقت ہیں، اسلام کا نام لینے والے ہیں اور اسلام مخالف دنیا ہمیں کہیں بھی برداشت نہیں کرتی ہمیں سب کی مخالفت مول لیتے ہوئے اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کا سفر جاری رکھنا ہے۔ ہمیں اس معاملے میں کوئی کوتاہی یا نرمی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ مضبوط اسٹیبلشمنٹ، مضبوط فوج اور مضبوط معیشت ہی بہتر مستقبل کی ضمانت ہے۔ جیسے ہم دفاعی معاملات میں مشکل فیصلے کرتے ہیں ویسے ہی معیشت مضبوط کرنے کے لیے بھی سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔

Comments

Click here to post a comment