سید علی گیلانی آزادی کشمیر کی علامت اور استبدادی قوتوں کے سامنے جہاد و عزیمت کا عنوان تھے۔ کشمیر جنت نظیر وادی کے باغبانوں میں اک پیارا سا نام جو اس گلستان کی آب یاری ہی نہیں کرتا بلکہ جگہ جگہ لگی ہوئی آگ کو بھی بجھاتا ہے۔وہ باغبان جو اس باغ کی ملکیت کا مقدمہ ستر برس تک بغیر تھکے لڑتا ہے اور اس کی آخری آواز جو کشمیر کی وادی اور اس سے باہر ہر محبِّ وطن کے دل کی دھڑکن کو تیز کر دیتی ہے، وہ : ''ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے'' کی آواز ہے۔ یہ نعرہ جو قابض ظالم جبری حکمرانوں کی جمہوریت کے دعوے پر ایک بہت بڑا تازیانہ ہے۔اس نعرے کو دبانے کے لئے بھارت کی ساری حکومتیں ناکام ہوتی رہی ہیں، خواہ وہ کانگرس کی حکومت یا بی جے پی کی، اور ظالمانہ ہاتھ خواہ جبر کا کوئی بھی انداز اختیار کر لے اس آواز کی سرگزشت مقبوضہ کشمیر سے نکل کر پوری دنیا میں سنائی دیتی ہے۔
سید کا بچپن
سید علی شاہ گیلانی ۲۹ ستمبر ۱۹۲۹ء کو بارہ مولا کے علاقے سوپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نہر زینہ گیر میں ''سیزنل قلی'' تھے، اور ماہوار دس روپے تنخواہ لیتے تھے۔ وہ خود ان پڑھ تھے مگر بچوں کو تعلیم دلانے کا شوق رکھتے تھے۔سید اپنے بڑے بھائی کے ہمراہ زینہ گیر کے پرائمری سکول میں پڑھنے جاتے تھے۔ گھر کے مالی حالات اچھے نہ تھے، اس لئے اسکول کبھی بھوکے پیاسے اور کبھی دودھ کے بغیر چائے پی کر جاتے۔ ان کے پاس اکثر جوتے بھی نہ ہوتے تھے۔ گھر سے اسکول میں اتنا فاصلہ تھا کہ راستے میں بابا شکور الدینؒ کی پہاڑی حائل تھی۔یہ پر خطر مگر نزدیک کا راستہ تھا۔ دوسرا راستہ لبِ نہر جاتا تھا اور طویل تھا، اس لئے زیادہ تر پہاڑی عبور کر کے سکول پہنچتے۔ سکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد سوپور میں ایک عالمِ دین مولانا سید ثناء اللہ شاہ کے مکتب میں داخلہ لیا اور قرآن کریم ، کریما، گلستان ، بوستان اور دوسری کتابوں کا درس لینا شروع کیا۔پرائمری میں بوٹینگو سکول میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور سرکاری وظیفہ کی برکت سے سوپور ہائی سکول میں داخلہ لے لیا۔تنگ دستی کے باوجود بڑے ذوق شوق سے پڑھائی کی۔ اسی دوران محمد دین فوق صاحب لاہور سے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کشمیر آئے تو سید کے رشتہ دار سید مبارک شاہؒ انہیں ساتھ لیکر فوق صاحب کے پاس گئے، تاکہ وہ تعلیم کے سلسلے میں ان کی رہنمائی کر سکیں۔فوق صاحب نے ان سے بڑے پیار اور محبت کا اظہار کیا اور مشورہ دیا کہ : ''اس لڑکے کو آپ میرے ساتھ لاہور بھیج دیں۔ میں اس کو وہاں پڑھاؤں گا او اپنی بڑی لڑکی کے ہاں اس کے قیام کا انتظام کرواؤں گا''۔
تعلیم کے شوق کی خاطر والدین نے بھی بارہ تیرہ سالہ علی گیلانی کی جدائی کا کڑوا گھونٹ پی لیا۔اور یوں علی گیلانی لاہور مزنگ نامی بستی کے ایک گھرانے میں رہنے لگے۔یہاں ان کی پڑھائی کا انتظام تو نہ ہو سکا لیکن گھر یلو نوکر کی حیثیت سے رکھ لیا گیا۔گھر سے دور انہیں اپنی زندگی ایک قیدی کی سی لگتی۔ ان زمانے میں وہ علامہّ اقبال ؒ سے تو اتنے واقف نہ تھے مگر ان کی نظم''پرندے کی فریاد'' انہیں لفظ بلفظ یاد تھی۔ وہ فرصت کے لمحوں میں صحن میں یا چھت کر بیٹھ کر اس نظم کو پڑھتے اور ان کی آنکھیں برستی رہتیں۔ انہیں اپنی زندگی بھی اس قیدی پرندے کی مانند لگتی جو گھر سے دور پنجرے میں قید تھا۔ اس تصوّر ہی سے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے۔وہ خود کہتے ہیں: ''میں یہ نظم پڑھتا اور پھوٹ پھوٹ کر روتا۔ مجھے ولر جھیل کے کنارے اپنی چھوٹی سی بستی یاد آ جاتی۔ عقب کی پہاڑی اور اس پر کبھی کبھی زیرہ کی تلاش میںرچکوروں کی طرح اچھلنا کودنا ، اپنے غریب والدین کی محبت ، ان کا پیار سب شدت سے یاد آتا۔اور مجھے بے حد اداس اور غمگین کر دیتا''۔ (اقبال: روحِ دین کا شناسا ، سید علی گیلانی، ص۲۴)
ایک برس تک اسی بے چینی ، بے بسی اور محرومی میں زندگی گزارنے کے بعد علی گیلانی نے چپکے سے لاہور کو الوداع کہا اور اور تنہا بذریعہ ٹرین جموں پہنچ گئے۔ جموں سے سری نگر، سری نگر سے سوپور اور سوپور سے زوری منز میں اپنے والدین کے پاس پہنچ کر دم لیا۔اس سفر کی یادیں ان کے تحت الشعور میں کسی ڈراؤنے خواب کی مانند آج بھی باقی ہیں۔
علی گیلانی نے اپنے ٹوٹے ہوئے سلسلہء تعلیم کو جوڑا، اور پیل سفر کر کے سوپور جانا شروع کردیا، جس کی مشقت انہیں نڈھال کر دیتی۔ ان کی بڑی بہن کی شادی لاہور میں ہو گئی۔ ان کے بہنوئی نے ان کے بڑے بھائی کو وہاں کالج میں ملازمت دلوا دی، اور یوں سید علی گیلانی کی قسمت انہیں ایک مرتبہ پھر لاہور لے آئی۔اس زمانے میں کشمیر کے بہت سے ًطلبا تعلیم کے لئے پنجاب کا رخ کرتے تھے، اور لاہور اور امرتسر کے اداروں میں پڑھتے۔ ان کی رہائش بالعموم مساجد میں ہوتی، اور ان مساجد سے ملحق محلوں کے مخلص لوگ ان طلبہ کی خدمت کرتے اور ان کے کھانے پینے، لباس اور کتابوں کا بوجھ بڑی خوشی سے اٹھا لیتے۔علی گیلانی بھی موچی دروازہ، لال کنواں، اور مسجد پیر گیلانیاں میں باری باری قیام کرتے رہے۔اسی دوران مسجد وزیر خان میں حفظ کا سلسلہ شروع کیا اور سورۃ البقرۃ اور آل عمران حفظ کیں۔
اس زمانے میں اقبالؒ کو فوت ہوئے دو برس ہو چکے تھے، سید علی گیلانی اقبال کو زیادہ تو نہ جانتے تھے مگر انہیں ان سے دلی عقیدت محسوس ہوتی اور وہ بار بار ان کی تربت پر جاتے۔اور گھنٹوں وہاں بیٹھے رہتے۔ انہیں وہاں بڑا اطمینان اور روحانی سکون ملتا۔انہیں علم کی طلب شام کے کالج میں بھی لے گئی جہاںپرنسپل آقا بیدار بخت خان پرنسپل تھے۔انہوں نے اس معصوم کشمیری لڑکے پر دستِ شفقت رکھ دیا اور ادیب عالم میں داخلہ دے دیا۔یہی سے گیلانی محترم کا علمی سفر نیا رخ اختیار کر گیا۔ وہ لاہور کے ادبی رسائل، ادبی محفلوں، مشاعروں اور مباحثوں میں حصہ لینے لگے۔ اس زمانے میں ادیب، ہمایوں، نقوش، الھلال، مخزن اور البلاغ ان کے ذیرِ مطالہ رہے۔ انجمن حمایت اسلام کے ہر پروگرام میں وہ باقاعدگی سے شریک ہوتے۔ کالج میں انہوں نے مولانا محمد حسین آزاد ، الطاف حسین حالی، اور اقبال کے فلسفہء خودی کو سمجھا۔بانگ ِ درا، ضرب ِ کلیم اور بالِ جبریل پڑھ کر اقبالؒ کی قدر دانی میں اضافہ ہو گیا۔ وہ امتِ مسلمہ کے لئے اللہ کا کتنا بڑا انعام تھے۔
ادیب عالم سیکنڈ ڈویژن میں پاس کر کے ادیب فاصل میں داخلے کے لئے پر تول رہے تھے، جب گیلانی صاحب کو ان کے والد کا خط ملا: ''میں بیمار ہوں، ملاقات کے لئے جتنا جلد ممکن ہو گھر چلے آؤ''۔ اپنے سب خوابوں کو تشنہ چھوڑ کر وہ بھاگم بھاگ گھر پہنچے تو عقدہ کھلا کہ والد صاحب بالکل ٹھیک تھے۔ اور یہ انہیں بلانے کے لئے بہانہ بنایا گیا تھا۔ بس پھر لاہور ان سے ہمیشہ کے لئے دور ہو گیا۔ وہ زندگی کے آخری لمحوں تک پاکستان سے محبت کے گن گانے رہے۔
سید علی گیلانی کا پاکستان سے گہرا رشتہ تھا، انہوں نے اپنی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ پاکستان سے متنازع علاقے ''مقبوضہ کشمیر'' میں واپس لوٹنے کے بعد بھی ان کی پاکستان سے تعلق کی گرہیں ڈھیلی نہیں ہوئیں۔ وہ پاکستان ریڈیو سنا کرتے ، خاص طور پر دن کے ابتدائی حصّے میں شاہ بلیغ الدین کا پروگرام روشنی سماعت فرماتے۔
سید علی گیلانی وہ ہستی ہیں جنہوں نے عمر کے تجربے اور حاصل کے طور پر اس نظریے اور جدو جہد کی راہ نہیں اپنائی تھی بلکہ وہ ایسی سعید روح تھی جس نے عین جوانی میں اسلام اور پاکستان سے محبت کی راہ اپنائی تھی۔کلمہ لا الہ اللہ ان کے دل میں ایسا رچ بس گیا تھا کہ انہوں نے زندگی کی جدو جہد کو یہی عنوان دیا۔ وہ ایک مفکر بھی تھے، شعلہ نوا مقرر بھی اور ادیب بھی۔ ایمان کی دولت سے بھرا ہوا دل، قرآن کے رموز سمجھنے والا، سول کریم ﷺ کی محبت میں سرشار، وہی ان کی نگاہ میں اول بھی تھے اور آخر بھی جن سے محبت تمام انسانی محبتوں میں پہلے درجے پر تھی۔وہ خطاب کرتے تو رزم و حق و باطل میں تلوار کی سی کاٹ سے بات کرتے ۔ وہ ریاست کا امن تباہ کرنے والے بھارتی حکمرانوں اور ان کی لاکھوں افواج کے لئے برق وباراں کی گرج تھے اور اپنے ساتھیوں کے لئے بادِ نسیم!اس شخص کے بارے قلم کیا لکھے گا جو خود اپنے بارے میں کہتے ہیں: ''میں نے تو اپنی زبان و قلم اور جسم و جان کی ساری توانائیاں حق کے لئے وقف کر دی ہیں۔اور جو شخص جس چیز کا ارادہ کرے، اللہ تعالی اس کی توفیق دے دیتا ہے''۔ (رودادِ قفس، ص۲۴)
سید علی گیلانی نے جدوجہد آزادی کی راہ پر قدم رکھا، تو وہ ارد گرد کی معاصر تحریکوں سے بھی پوری طرح آگاہ رہتے اور ان کے طریق ِ کار اور اسلوب کو گہری نگاہ سے دیکھتے۔ اس زمانے میں مصر میں اخوان المسلمون ظلم کی چکی میں پیسے جا رہے تھے، سید علی گیلانی نے اس ابتلاء و آزمائش میں ان کی طاقت کا مشاہدہ کیا تو یہ جانے بغیر نہ رہ سکے کہ ان کا تعلق بالقرآن اس راہ کا بڑا توشہ ہے۔ وہ ہر آزمائش میں قرآن کو اپنا ساتھی بناتے ہیں، اسی سے رہنمائی بھی پاتے ہیں اور تسکین بھی!اور وہ سردی گرمی، سختی و نرمی ہر حال میں روزانہ تلاوتِ قرآن کریم ضرور کرتے۔ اور یہ قرآن ان کے دلوں کی بہار ،انکے سینوں کا نور تھا، قرآن ان کی کلفتوں اور پریشانیوں کو راحت میں بدل دیتا۔سید گیلانی کا بھی قرآنِ کریم سے ایسا ہی گہرا اور مستقل تعلق تھا۔
اقبال کشمیر کی ڈوگرہ راج میں غلامی پر آزردہ تھے۔اور یہ حقیقت ہے کہ آزادیء کشمیر کی اتنی توانا آواز اور بے لچک رویہ اقبال ہی کے تصورِ حریت سے تو تراشا تھا۔علامہ اقبالؒ جنہیں اقبال کشمیری بھی کہا جاتا ہے، تمام عمر کشمیریوں کی نجات کے خواہاں رہے۔ قیام ِ پاکستان کے بعد کشمیر کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حصّہ بننے سے جبراً روک دیا گیا۔ حالانکہ مسلم اکثریتی علاقہ تقسیم کے ہر فارمولے کے مطابق پاکستان کا حصّہ بننے کا حقدار تھا۔ کشمیری عوام نے بھارت کے جابرانہ تسلط کو کبھی قبول نہیں کیا اور سید علی گیلانی اس مزاحمت کے ہراول دستے میں تھے۔ بھارت نے ہر دور میں اپنے جبری قبضے کو مضبوط کرنے اور کشمیری عوام کی جدو جہد کو کچلنے کی کوشش کی ۔ اور ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی دباؤ کو اپنے لئے جائز کر لیا۔ علی گیلانی کشمیر کے عوام کی آواز بن گئے۔اور سید علی گیلانی اقبالؒ کے اسی مشن اور جذبے کو لیکر آگے بڑھے جس کی بنیاد پر انہوں نے تصور پاکستان پیش کیا تھا۔گویا کہ انہوں نے اقبالؒ کی احیائے ملت اسلامیہ کی کوششوں کوآزادیء کشمیر کی تمناؤں میں سمو دیا۔
سید علی گیلانی نے کئی مرتبہ انتخابات میں حصّہ لیا اور پالیمنٹ کے محض ۲۵ برس کی عمر میں وہ پارلیمٹ کے ممبر بن چکے تھے، یعنی انہیں عوامی نمائیندہ تسلیم کیا جا چکا تھا۔انہوں نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اور پھر وہ جموں و کشمیر کے عوام کے دلوں کی دھڑکن بن گئے، خواہ وہ مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھتے ہوں یا آزاد کشمیر سے۔وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے اور زندگی کے آخری لمحے تک اس موقف پر قائم رہے۔
سید علی گیلانی عمر عزیز کی ۹۲ منزلیں طے کر کے یکم ستبر ۲۰۲۱ ء کو اپنے رب کے حضور اس حال میں حاضر ہوئے کہ اس پیر ِ بزرگ کا دل اپنے خوابوں سے جوان تھا۔ وہ امت، اسلام اور اتحاد کی نمایاں پہچان تھے۔ کشمیر میں آپ جیسا کوئی مقبول لیڈر نہیں۔ دل ان سے محبت کرتے ہیں۔ اتنی محبت کہ زندہ علی گیلانی کو برس ہا برس تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا، اور بوڑھے شیر کو آخری عمر میں بھی بارہ برس سے نظر بند رکھا گیا تھا۔ بھارتی بزدل حکمران ان سے اتنے خائف تھے کہ ان کی میت کو ان کی وصیت کے مطابق مزارِ شہداء میں دفن نہ کرنے دیا۔ بلکہ مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں عوام کو ان کی آخری جھلک دیکھنے سے بھی محروم کر دیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ کا اجتماع تک نہ منعقد ہونے دیا گیا، بلکہ نصف شب کے قریب داعی اجل کو لبیک کہنے والے گیلانی کا لاشہ رات کی تاریکی میں ان کے گھر حیدر پورہ کے قریب محض پچاس افراد کے ہمراہ جنازہ پڑھ کر رخصت کر دیا گیا۔ بھارت کہ بزدل حکمران شاید یہ نہیں جانتے کہ زندگی اور موت کے فیصلے ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ اور سید علی گیلانی کے لئے تو بس یہی کہا جا سکتا ہے: یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
بہترین۔وقت کی ضرورت۔۔مسلمانوں کے اصل ہیرو ایسے ہوتے ہیں