ہوم << خاک قبرش از من و توزندہ تر - نصر اللہ گورائیہ

خاک قبرش از من و توزندہ تر - نصر اللہ گورائیہ

انسان جس سے محبت کرتا ہے اگر اس کا ذکر اور تذکرہ کسی مجلس و محفل میں ہو تو انسان کی آنکھوں میں چمک اور دل میں حرارت کا پیدا ہونا ایک یقینی اور فطری امر ہے۔ اگر ذکر کرنے والی شخصیت خود بھی کچھ سانچوں میں ڈھلی ہوئی ہو تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ یہ چیز اس محبت کو دو آتشہ کیسے بنادیتی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری ایام میں احمد جاوید صاحب نے سید منور حسن ؒ کے بارے میں جن جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے وہ یقیناً ایک بہت بڑی گواہی ہے لیکن ان کی اس گواہی نے ماضی کے دریچوں کو وا کردیا اور کئی ماہ و سال پر پھیلے ہوئے اس تعلق پر فخر محسوس ہوا ۔ کئی دوستوں نے پیغامات بھیجے۔ کچھ نے کالز بھی کیں بالخصوص نوید انور صاحب نے اپنے ساتھ ان کی خصوصی شفقت و محبت کا تذکرہ خاص کیا۔ ویسے تو ایسے لوگوں کا کمال وصف بھی یہی ہوتا ہے کہ ان کی محفل کا ہر آدمی ان کو اپنا جانتا اور مانتا ہے اور احمد جاوید صاحب یہ گواہی کہ انہوں نے آخری ولی اللہ جس کا دیدار کیا وہ سید منور حسن تھا ور اپنے کردار میں مولانا مودددی ؒ سے مماثلت میں جو قریب ترین آدمی تھاوہ بھی سید منور حسن ہی تھا بلکہ انہوں نے سید منور حسن ؒ کو مودودیؒ ثانی قرارد دیا۔

سید منور حسن بلا شبہ اپنی طرز اور طرح کا ایک انوکھا اور صبغۃ اللہ میں ڈھلا ہوا بلکہ اس میں گندھا ہو انسان تھا۔ استقامت کا کوہ گراں تھا جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا:

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں
علاج درد میں بھی درد کی لذت پہ مرتا ہوں
جو تھے چھالوں میں کانٹے نوک سوزن سے نکالے ہیں
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں
رلاتی ہے مجھے راتوں کو خاموشی ستاروں کی
نرالا عشق ہے میرا نرالے میرے نالے ہیں
نہ پوچھو مجھ سے لذت خانماں برباد رہنے کی
نشیمن سینکڑوں میں نے بنا کر پھونک ڈالے ہیں

یاد رہے کہ دنیا میں انسانوں کو جو بات بڑا اور انمول بناتی ہے وہ ان کے کردار و عمل میں مطابقت اور یگانگت ہے کہ جس سے کسی انسان کے قد کاٹھ کا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں۔ وگرنہ اکثریت آپ کو ظاہراور باطن کے تضادات کا شکار نظر آئے گی۔ سید منور حسن ؒ اس معاملے میں اپنے کمال کو پہنچے ہوئے آدمی تھے۔ ظاہر تو خوبصورت تھا ہی اور اس کا معترف ایک زمانہ ہے لیکن باطن اس سے بھی بڑھ کر خوبصورت تھا اور جس کا باطن اپنے کمال اور جمال کوپہنچا ہوا ہوتا ہے تو یاد رکھیں کہ وہ اللہ کے مقرب ترین بندوں میں شمار ہوتا ہے۔ جس کو اپنے رب کا قرب خاص حاصل ہوجائے اس کے نصیب اور اس کی شان کے کیا کہنے ۔ سید منور حسن ؒ کو ذکر دوام حاصل تھا یعنی وہ ہر پل اللہ کی یاد میں محور رہتے تھے۔ قرآن عظیم الشان کی اس آیت کے مصداق الَّذِِیْنَ یَزْکُرُونَ اللّٰہََ قِیَا مًا وََّ قََعُوْ دً ا وَّ عَلٰی جُنُوْ بِھِمْ (آل عمران ۱۹۱) ترجمہ:جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوئوں کے بل لیٹے ہوئے اللہ کو یاد کرتے ہیں۔

اور فقط قلبی ذکر ہی حاصل نہ تھا بلکہ میدان جہاد کے شہسوار بھی تھے۔ تلاوت قرآن اور لذت نماز جس بندہ مومن کا ہتھیار بن جائیں تو آپ اس بندہ مومن کی شان وعظمت کا اندازہ لگاسکتے ہیں اپنے رب سے مناجات کرنا، اپنے رب کو پالینے کے لیے اپنے پائوں کو خاک آلودہ کرنا، اس کے دین کے غلبہ کے لیے جدوجہد کرنا ور طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اور اپنی دعوت و فکر پہ کامل یقین اس بندہ مومن کا طرہ امتیاز تھا ، جسے دنیا منور حسن کے نام سے جانتی ہے۔

قرآن عظیم الشان بارہا مختلف جگہوں پر اللہ کے بندہ مطلوب کی جو نشانیاں گنواتا ہے ،ان میں سے ایک نمایاں وصف دنیا سے بے رغبتی ہے اور آخرت کی محبت شامل ہے۔ یعنی دنیا برتنے کی جگہ تو ہے لیکن دنیا کے لیے جیا جائے اور دنیا ہی مطلوب و مقصود ہو ، چاہے وہ مال و دولت کی شکل میں ہو، چاہے وہ مقام و مرتبہ کی شکل میں ہو یا پھر کسی بھی بھیس میں ہو ترجیح ہمیشہ آخرت ہی رہے گی۔ بہادری اور دلیری بندہ مومن کی نمایاں صفات میں سے ایک ہیں اور سید مرحوم کی زندگی تو بہادری اور دلیری سے ہی عبارت تھی جتنے بھی امتحانات میں ان کو ڈالا گیا ہر امتحان سے کامیاب و کامران اور سرخرو ہو کر نکلے۔ ہنستے ، مسکراتے جانب منزل رواں اور دواں رہے۔ اخلاق اور کردار کے بلند مرتبے پر فائز تھے۔

ویسے تو بہت سارے واقعات ان کے کردار و اخلا ق کی بلندی پر شاہد ہیں لیکن بطور خاص ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گاکہ اسلامی جمعیت طلبہ کی ایک تربیت گاہ منعقدہ خانسپورمیںبعد از پروگرام قبلہ حافظ عبد اللہ صاحب سے کچھ تلخ بات ہوگئی یا جملہ ایسا کہہ دیا کہ جو موقع کی مناسب سے بہتر نہیں تھا۔ بعد ازاں جب احساس ہوا تو ایک خط تحریر کیا جس میں نہ صرف اس جملے پر معذرت تھی بلکہ کہا گیا کہ اس مجلس میں جتنے لوگ تھے سب کو بھیج دیا جائے تاکہ اس مجلس میں موجود تمام لوگوں تک یہ بات پہنچ جائے۔ عاجزی و انکساری بندہ مومن کی چال ڈھال، رہن سہن اور گفتگو کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے۔ سید صاحب اس کی عملی تفسیر تھے۔ سفید لباس، قراقلی ٹوپی اور مسکراتا چہرہ آپ کی نمایاں پہچان تھی۔ ایک جملہ جو وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے اجتماعات میں اکثر کہا کرتے تھے کہـــ’ ’ تحریک اسلامی کو اپنا کیریئر بنائو‘‘اپنے اندر معانی و مفہوم کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ جس تحریک کے کارکن کا اوڑھنا بچھونا اس کی تحریک ہو ، اس کا مطلوب اور مقصود اس کی تحریک ہو ، اس کی امیدوںکا مرکز و محور اس کی تحریک ہو، دعوت ہو تواس کو دنیا کی کوئی طاقت کامیاب و کامران ہونے سے نہیں روک سکتی۔ آپ نہ صرف یہ جملہ بولتے تھے بلکہ اپنی پوری زندگی اس کی عملی تفسیر بنے رہے۔ تحریک اسلامی ہی اول و آخر ان کا کیریئر تھی اور اس بات پر ان کے روزو شب، ان کی جدوجہد گواہی اور دلالت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

کبر اور ریاکاری سے پاک زندگی ایک بندہ مومن کی نمایاں شان ہے اور سید بادشاہ نفس کی ان دونوں بیماریوں سے محفوظ اور مامون رہے۔ جس لمحے نے ان کے دل و دماغ کے دریچوں کو وا کیا بس بھر پور زندگی ، زندگی کا ہر لمحہ اور ہر ساعت، لڑکپن اور جوانی اور پھر زندگی کی آخری ہچکی تک اس مرد مومن نے اپنے رب سے کیے ہوئے وعدے کو ایسا وفا کیا کہ یقیناً فرشتے بھی اس پر رشک کرتے ہوںگے۔ میرے ایک بہت کی قریبی دوست کاشف زبیر ہیں جوکہ زمانہ طالب علمی ہی سے جمعیت کے قریب آئے۔ مریدکے میں ہم نے مل کر بہت اچھا کا م کرنے کی شش کی ۔کاشف زبیر کا تعلق اس وقت بائیں بازو کے خاندان سے تھا اور جب وہ جمعیت کا رفیق بنا تو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ منور حسن ؒ کی وفات پر کاشف زبیر کی کال نے اور اس کے الفاظ نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا کیونکہ میرے خیال کے مطابق کاشف کی کوئی ملاقات منور حسن صاحب سے نہیں ہوئی ۔ لیکن ان کے الفاظ کہ گورائیہ بھائی! منور حسن جیسے لوگوں کا وجود ہمارے سماج اور معاشرے کے لیے ایک نعمت خداوندی ہے اور اللہ کے ایسے مقرب بندوں کے اٹھ جانے سے بہت سارا خیر معاشرے سے اٹھ جاتا ہے جوکہ ان کے دم سے موجود ہوتا ہے۔ کاشف کے مزاج پر چونکہ متصوفانہ(صوفی) رنگ غالب ہے تو اس کے ان جملوں نے اور میرے بہت ہی قریبی او ر دل و جان سے عزیز دوست شوکت اسلام نے ان کی وفات پر اور بعد ازاں مختلف مجالس میں جن گہرے دلی جذبات اور عقیدت کا اظہار کیا تھا تو وہ بھی میری توقعات سے بڑھ کر اور سید صاحب کی عظمت اور پختہ کردار کی گواہی تھی۔ اور یہ واقعہ جس کے راوی ابو نثر ہیں کہ سید منورحسن صاحب کے بال بھی چھوٹے تھے اور ڈاڑھی بھی ۔ قارئین شاید سوچ رہے ہوں کہ یہ لمبے پٹے داربالوں اور ڈاڑھی والا انقلاب کب آیا ؟ کسی بھی شخص کی زندگی میں اس قسم کے انقلابات تو کسی بھی وقت آسکتے ہیں؟ ایسے انقلاب کے لیے کوئی بڑی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگرکبھی کبھی کسی چھوٹی سے بات سے ’’ تحریک ‘‘ ہوجاتی ہے۔ کراچی میں ایک دیندار گیسو تراش (Hair dresser)تھے۔ انہوں نے اپنی دکان پر یہ اطلاع نامہ آویزاں کر رکھا تھا کہ ’’ یہاں شیو نہیں بنائی جاتی۔ ‘‘ باریش افرد ( ڈاڑھی والے ) کے خط بنانے کو ہمہ قت تیار رہتے۔ منور صاحب بھی ان ہی گیسو تراش کی زلف گرہ گیر کے اسیر تھے۔ ایک روز وہ منور صاحب کی ڈاڑھی کو بناتے ہوئے کہنے لگے ۔ آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی۔ منور حسن صاحب نے ان کے اس فقرے کو ان کی خوش مزاجی سمجھا یا ان کی غلط فہمی، مگر ہوں ، ہاں کرکے خاموش ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے دوبارہ یہی بات کی ہے۔ منور صاحب تب بھی چپ ہی رہے۔ مگر جب وہ باربار ایک ہی بات کہتے رہے کہ بھئی ! آپ اتنی چھوٹی ڈاڑھی کیوں رکھتے ہیں ؟ آپ کے نانا کی ڈاڑھی تو بڑی تھی تو منور صاحب نے اپنی خاص ترنگ میں آکر جواب دیا کہ اپنے نانا کو تو میں نے خود بھی نہیں دیکھا ، آپ نے کہا ں سے دیکھ لیا؟ اس پر اس نے ایک مختصر سا سوال کیا کہ اور منور صاحب کے دل پر جو چوٹ پڑی وہ فوراً کارگر ہوگئی۔ باربر نے بس اتنا پوچھا تھا کہ ’’ کیا آ پ سید نہیں ہیں؟'' بس اتنی سی بات دل کی دنیا کو آباد کرگئی اورسید زادے نے مرتے دم تک اپنے نانا کی سنتوں کو شاد اور آباد رکھا۔

جس بات کو سارا زمانہ نہ کہہ سکا سید زادے کے چند جملوں نے کایا پلٹ کے رکھ دی اور جب مطالبہ ہو اکہ بیان واپس لیا جائے تو حق و صداقت کے پیکر نے وہ تاریخ رقم کی کہ دنیا حیران و انگشت بدنداں رہ گئی۔ استعمار کے خلاف جدوجہد کا استعارہ بن گیا تھا سید منور حسن، گو امریکہ گو اور ریمنڈ ڈیوس کی کتاب اس بات پر شاہد ہے کہ اس مرد مجاہد نے ملت اسلامیہ کی ہر محاذ پر حقیقی ترجمانی کی اور آپ کے کہے ہوئے جملے طالبان کے متعلق بھی، اسامہ بن لادن، کے متعلق بھی ضرب المثل بن گئے اور بعد ازاں آپ کے بیانیے کو ریاست پاکستان نے بھی اپنا یا لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ اسے کہتے ہیں ’’ فراست مومن ‘‘ کیونکہ ایک بندہ مومن اپنے رب کی دی ہوئی فراست کے آئینے میں دیکھتا ہے تو وہ ان دائروں کو بھی دیکھ پاتا ہے کہ جن کو ایک عامی دیکھنے سے عاجز ہوتا ہے۔ جس بیانیے کو آپ نے اوڑھنا بچھونا بنایا اور جس پر ریاستی ادارے اور افراد بھی بہت جز بز کا شکار ہوئے، بعد ازاں اسی بیانیے کو اپنانے پر مجبور ہوئے ۔ غالباً یہ اسلامی جمعیت طلبہ 2011ء کے اجتماع عام کا واقعہ ہے کہ سابقین ناظمین اعلیٰ کا سیشن جاری تھی کہ نماز عشاء کا وقت ہوگیا۔ آپ خاموشی سے اٹھے ، اسٹیج سے اترے مسجد میں نماز عشاء ادا کی اور اپنی کرسی صدارت پر دوبارہ جلوہ افروز ہوگئے ۔کہنے کو تو یہ ایک واقعہ ہے لیکن بقول اقبال آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز ، تو اپنے اسلاف کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے سید مودودی کی وراثت کو چار چاند لگاتے ہوئے یہ بندہ دو عالم سے خفا تیرے لیے ہے، کے مصداق اپنی منزلوں کو پا گیا۔خوبصورت گفتگو، دلیل اور اشعار کے ساتھ آپ کی شخصیت کو غیر معمولی بنادیتی تھی۔الفاظ گویا قطار باندھ کر ادب سے کھڑے رہتے تھے۔ اردو زبان وادب کو ایک نیا رنگ اور آہنگ دیا ۔

آئیے! آگے بڑھیے! اور’’ تحریک کو اپنا کیریئر بنائیے‘‘! تحریک کو اس بات کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے نہ تھی۔ ! راستہ مشکل ، کٹھن اور دشوار ضرورہے لیکن راستہ یہی ہے۔ سید منور حسن کا تذکرہ اور باتیں کہاں ختم ہوتی ہیں ایسے لوگ تو امر ہوجاتے ہیں استعارے بن جاتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کے لیے ۔ آئیے !’’ تحریک اسلامی کو اپنا کیریئر بنائیے ‘‘ کے جملے کی ماہیت جانیے، ان کے نقوش پا اور ان کی سیرت و کردار کو مشعل راہ بنائیے۔ گاہے بگاہے ان جیسے اولیا ء اللہ کے تذکروں سے مجالس کو آباد رکھیے!بقول شاعر
لاکھ چاہا ہے کہ اس کو بھول جائوں ،پر قتیل !
حوصلے اپنی جگہ ہیں، بے بسی اپنی جگہ

Comments

Click here to post a comment

  • جب دنیا کئیریر بن جائے اور تحریک کے ذریعے دنیا کو سنوارنے کی کوششیں عام ہو جائیں ،ایسے میں منور حسن جیسے کرداروں کا تذکرہ فرض بن جاتا ہے ۔نصر اللہ صاحب نے نقار خانے میں اذان حق بلند کی ہے ۔اللہ کرے یہ طوطی کی سدا ثابت نہ ہو!