ہوم << سوشل میڈیا نسل اور والدین کی ذمہ داری - محمدعاصم حفیظ

سوشل میڈیا نسل اور والدین کی ذمہ داری - محمدعاصم حفیظ

کراچی کی دو لڑکیوں دعا زہرہ اور نمرہ کاظمی کے مبینہ " اغواء" واقعات کے ڈراپ سین نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ۔ دعا زہرہ کیس بھی سامنے آیا کہ پب جی کھیلتے کھیلتے جنگجو اصل میں زندگی کے "مشن" پر نکل پڑے ۔ گھر سے فرار ہوئے ۔۔ لاہور میں کورٹ میرج کی ۔ چھپتے رہے ۔ حویلی لکھا سے گرفتار ہوئے ۔۔ نمرہ کاظمی کی کہانی بھی کچھ یوں ہی ہے ۔ کراچی کی یہ لڑکی تونسہ سے برآمد ہوئی اور اس نے ویڈیو بیان میں بتایا کہ وہ مرضی سے آئی اور اپنا نکاح کرکے خوش ہے ۔۔یہ کہانی ہے آج کی سوشل میڈیا نسل کی ۔۔

والدین بیچارے سہولیات دینے کی جدوجہد میں سب حاضر کر دیتے ہیں کہ بچے میں احساس کمتری پیدا نہ ہو ۔ اس کے پاس ہر قسم کے آلات ہوں ۔ انٹرنیٹ ہو ۔ اور بچے یہ والی پب جی کھیلتے ہیں ۔ خودکشیاں ہو رہی ہیں ۔ والدین تک کو قتل کر دیتے ہیں ۔ گیم میں دھوکہ دینا سیکھتے ہیں ۔ چال چلنا ۔۔ چھپ جانا اور کسی کے خلاف پلاننگ کرنا ۔۔ اور بہت کچھ۔ اس نسل کے لئے سب کو سوچنا ہو گا ۔۔ یہ گیمر نسل ہے ۔ زندگی کو بھی گیم سمجھتی ہے ۔۔زندگی کیا ہے ۔ اس کی زمہ داریاں کیا ہیں ۔ اس کی مشکلات کیا ہیں ۔ لمبی زندگی اور رشتے کیسے گزارنے ہیں ۔ انہیں اس سے کیا ۔۔ انہیں تو گیم کھیلنی ہے ۔ زندگی کو گیم سمجھنا ہے

والدین کدھر جائیں ۔ ہر کسی کا سوال یہی ہے کہ والدین کی ذمہ داری تھی نظر رکھا ۔ یقین مانیں یہ کہنا آسان ہے لیکن حقائق بہت بھیانک ہیں ۔ معاشی پریشانیاں ہیں اور معاشرتی پریشر ۔ اگر بچوں پر سختی کی جائے ۔ انہیں سوشل میڈیا آلات سے محروم رکھا جائے ۔ تو خاندانی پریشر کہ اپنے بچوں کو ترقی سے روک رہے ہیں ۔ ساری ایجوکیشن اب تو آن لائن ہو چکی ۔ اسائنمنٹ ۔ نوٹس ۔ کتب ، ہر چیز موبائل اور لیپ ٹاپ یا ٹیبلٹ میں موجود ہوتا ہے ۔ کئی سکولز تو کتب ختم کر رہے ہیں ۔ صرف آلات ہوں گے ۔ ان کے ساتھ جڑا انٹرنیٹ ۔ سوشل میڈیا اور گیمز ۔

یہ معاملہ کچھ اتنا سادہ بھی نہیں ہے ۔ والدین کہاں کھڑے ہیں ۔ معاشی حالات ایسے کہ کون ہو گا جو دو سے تین آمدن کے ذرائع میں دن رات مصروف نہ ہو ۔ اگر آمدن کم کریں تو گھریلو پریشانیاں ۔ گھر پر وقت کیسے دیں ۔ جب دو سے تین نوکریاں ، کاروبار یا مصروفیات ہوں گیں تو وقت کیسے ملے گا ؟ اگر وقت کے لئے آمدن محدود کریں گے تو ان بچوں کی خواہشات کیسے پوری کریں گے ۔ ایسا لگے گا کہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے اور بچوں کو بھی محروم رکھا ۔ انہیں وسائل اور اچھی تعلیم نہ دلا سکے ۔۔ ان کے لئے سہولیات فراہم نہ کر سکے ۔ اور اگر یہ سب پورا کرنے کے لئے دو سے تین آمدن کمانے نکلیں تو پھر بچے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ۔

اسی طرح موبائل و دیگر آلات فراہم کرنے کے حوالے سے بھی مشکلات ہیں ۔ اگر بچوں کو دور رکھیں تو پھر وہ اپنی کلاس ، دوستوں ، رشتہ داروں کے ساتھ نہیں چل پاتے ۔ ہر جگہ طعنے ملتے ہیں کہ تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں ۔ بچے ایک طرح کے احساس محرومی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ تعلیمی ادارے آن لائن ہو چکے ہیں ۔ رابطے ان آلات کے باعث ہیں ۔ اطلاعات ، نوٹیفیکیشن سمیت سب کچھ انہی موبائلز پرآتا ہے ۔ اب والدین بچوں کو ان آلات سے کیسے دور رکھ سکتے ہیں ۔ جب سسٹم ان پر چل رہا ہے ۔ چند ضروری اپیلیکشنز پر بھی ہر طرح کے اشتہارات اور مواد آ رہا ہے ۔ کوئی قانون موجود نہیں اور اسے روکا نہیں جا سکتا ۔

اسی طرح نظر رکھنا بھی آسان تھوڑی ہے ۔ کیا ہر والدین انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں ۔ کیا وہ چپکے چپکے موبائل ڈیوائسز چیک کیا کریں ۔ یہ کہنا اور عملی طور پر کرنا کتنا آسان و مشکل ہے سب خود سوچ سکتے ہیں ۔ شکی والدین ہونے کا طعنہ اور بچوں کی نظروں میں مشکوک ہونے کا ڈر۔

ان مسائل کا حل کوئی سادہ فارمولا نہیں ہے ۔ یہ ایک مسئلہ نہیں بلکہ معاشرے کے دیگر مسائل سے جڑا ایک حصہ ۔۔ اس کا حل یہی ہے کہ معاشرے میں سب مل بیٹھیں ۔ اقدار بدلنی ہوں گیں ۔ رسومات سے چھٹکارا پانا ہوگا ۔ خاندانی نظام کی بحالی کی تحریک چلانی ہو گی ۔ بچوں کی کونسلنگ ، انہیں متبادل فراہم کرنے ، ان کی ٹیکنالوجی سے مرعوبیت کو ختم کرنا ہوگا ۔ شوبز ، میڈیا ، رومانی فلم و ڈرامے کے موضوعات کو جدوجہد ، تعمیر و ترقی اور معاشرتی اصلاح کی جانب موڑنا ہوگا ۔ اگر اس بارے سنجیدہ کوششیں شروع کر دی جائیں تو ہی بہت جلد ہم اس طوفان کے آگے بند باندھ سکتے ہیں ۔ ورنہ سوشل میڈیا کے زیر اثر یہ گیمر نسل سب کو گھماکر رکھ دے گی

Comments

Click here to post a comment