ہوم << ہم کہاں بھٹک گئے - علی ہلال

ہم کہاں بھٹک گئے - علی ہلال

میں نے جیسے ہی ان تصاویر کو دیکھا مجھے بہت بڑا دھچکا لگا ۔ میرے دل کی دھڑکنیں ایک لمحے کو رک گئیں۔ میں ان تصاویر کو دیکھتا رہ گیا ۔ میں سوچتا چلا گیا ۔ مجھے عربوں کے عقال (سرپرباندھنے والی رسی) غطرہ (رومال) اور البشت (جبہ) سے بچپن سے محبت ہے ۔ میرے لئے اس لباس میں ہمیشہ سے ایک سرور پنہاں رہا ہے ۔ ایک راز ۔ ایک معمہ ۔ ایک نہ حل ہونے والی گھتی ۔ ایک دلچسپی پوشیدہ رہی ہے۔

مجھے عرب شاہوں اور شہزادوں کی زندگی سے متعلق تصاویر دیکھنے اور ان کی آپ بیتیاں ان کی زبان میں پڑھنے کا جنون ہے ۔ مجھے شاہی محلات کے بارے جاننے کا شوق ہے ۔ مجھے ان کی دعوتوں ،ان کے کھانوں اوران کے مزاج اور کھیلوں کے بارے جاننے کی خواہش رہتی ہے ۔ میں عراق سے مراکش تک کے شاہی خاندانوں کے رشتوں اور پسند وناپسند کے بارے کھوج لگاتا ہوں ۔ مجھے ان تصاویر سے فرحت میسر آتی ہے ۔ میرا مائنڈ فریش ہوجاتا ہے ۔

مگر اس مرتبہ کی ان تصاویر نے مجھے رلاد یا ۔ مجھے صدمہ دیا ۔ یہ تصاویر کل یعنی 28 اپریل کی ہیں ۔ کل ترک صدر رجب طیب اردوغان سعودی عرب کے سرکاری دورے پر جدہ پہنچے ۔جہاں ان کے استقبال کے لئے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان خود کھڑے تھے ۔ ان کے ساتھ گورنر ،وزیرداخلہ اور متعدد اہم سرکاری ذمہ داران موجود تھے ۔ دنیا کے طاقتور ترین ولی عہد محمد بن سلمان نے ترک صدر کو ریسیو کیا اور انہیں جدہ کے قصرالسلام لے گئے ۔جہاں دروازے پر سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز ان کے استقبال کے لئے کھڑے تھے ۔

ترک صدر ایک بھاری وفد کے ساتھ سعودی عرب کے دوروزہ دورے پر ہیں ۔ ان کے ساتھ وزیرداخلہ ،وزیرقانون ،وزیردفاع، وزیرمالیات، وزیرسیاحت،وزیرتجارت، وزیرصحت، انٹیلی جنس چیف اور متعدد مشیر وپارلیمانی ارکان ہیں ۔ مشرق وسطی کے امیر ممالک میں سربراہ مملکت کی حیثیت کا اندازہ ان کے وفد کے ارکان کی تعداد سے لگایا جاتا ہے ۔ سعودی فرماں 2017 میں روس کے سرکاری دورے پر گئے تو اپنے ساتھ 1500 رکنی وفد لے گئے ۔ ماسکو کے تمام ہوٹل ان کے لئے بک کردیے گئے ۔ 2015 میں چھٹیاں منانے فرانس گئے تو اپنے ساتھ ایک ہزار رکنی وفد لے گئے ۔

یہ چیزیں سفارتی سطح پر اہمیت رکھتی ہیں ۔ یہ پروٹوکول ہے ۔ یہ تمھاری اوقات ظاہر کرتی ہیں ۔ مگر ایک ہم ہیں کہ سیاسی مخالف کے ساتھ ہمارا رویہ معاندانہ ہی ہوتا ہے ۔ وزیراعظم کے جانے سے قبل ہمارے میڈیا پر اس دورے کے نتائج پر بحث کے بجائے وفد کے ارکان کی تعداد کا معاملہ سب سے اہم ترین ایشو کے طورپر زیربحث رہا ۔ اور وفد کے پہنچنے سے قبل ہی ہمارے اورسیز محسن لندن سے سعودی عرب پہنچ کر احتجاج کرنے اور غل غپاڑہ کرنے کی منصوبہ بندی کرچکے تھے ۔

دوسری جانب ترک صدر سکون سے سعودی عرب پہنچ گئے ۔ سعودی فرمان روا نے ترک صدر کو شاندار شاہانہ عشائیہ دیا اوردونوں سربراہان مملکت نے انتہائی برادرانہ ماحول میں عربی قہوہ نوش کیا اور بات چیت کی ۔
شاہی محل کی خوبصورت راہداری میں چلتے ہوئے 67 سالہ ترک صدر نے 87 سالہ سعودی بادشاہ کو سہارا دینے کی بھی کوشش کی جسے دواسلامی ممالک کے سربراہوں کے درمیان محبت والفت کی ایک یادگار مثال کے طورپر پیش کیا گیا ۔ سعودی میڈیا اس وقت مکمل طورپر ترک صدر کے دورے کی خبروں اورتصاویر سے بھرا ہوا ہے ۔چینلز ترک صدر کے شاہ سلمان کے ساتھ تصاویر اورکلپس دکھا رہے ہیں ۔اخبارات کے درمیان اچھی تصاویر کا مقابلہ ہے ۔

دوسری جانب ہمارے وزیراعظم بھی کل اسی تاریخ پر سعودی عرب پہنچ گئے ۔کل مسجد نبوی میں اپنے پاکستانی شاہینوں نے جس انداز سے اپنے حکومتی وفد اوراپنے وزیراعظم کا استقبال کیا ہے اس بابت کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں پٹواری اور یوتھی کی بات نہیں کررہا مگر بحیثیت ایک پاکستانی ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں ۔؟ ہم نے گرین پاسپورٹ کو عزت دینے کی بات کی تھی ۔آج کتنی عزت ہے پاسپورٹ کی؟ ہم کیا کرنے جارہے تھے ۔ہمیں کیا خواب دکھا ئے گئے تھے اور یہ ہم کہاں آکر بھٹک گئے ۔

کل جس وقت سعودی عرب کی شاہی فورسز کے چاق وچوبند ارکان ترک صدر کے استقبال کے لئے اپنے سینوں کے تمغے درست کررہے تھے ۔ عین اسی وقت مسجد نبوی کے صحن میں سعودی پولیس ہمارے پاکستانیوں کو انسان بنانے کے لئے دوڑرہی تھیں ۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان شہریوں کو روضہ رسول کی بے حرمتی سے روک رہے تھے ۔ امام مسجد نبوی نے نماز میں ہماری وجہ سے وہی مخصوص آیات تلاوت کیں جن میں آواز نیچے رکھنے کی تاکید ہے ۔جس وقت یہ تلاوت ہورہی تھی لاکھوں نمازی سمجھ رہے تھے کہ اس تلاوت کی وجہ کیا بنی ۔ کس ملک کے باشندے مخاطب ہیں ۔ امام نے اس عمل کی مذمت بھی کی ۔ ہمیں دوستوں نے بھی دیکھ لیا اور دشمنوں نے بھی سن لیا ۔ یہی وجہ تھی کہ سعودی میڈیا نے پاکستانی وزیراعظم کے دورے کو کوئی کوریج نہیں دیا ۔ افسوس یہ ہے کہ سعودی عرب میں ہمارے دو ملین مزدور کام کرکے گھر والوں کا پیٹ بھر رہے ہیں ۔ یہ لوگ وہاں کی سوسائٹی کے سب سے کم تر لوگ ہیں ۔

یہ وہاں کی عالیشان طرز زندگی افورڈ نہیں کرسکتے ۔ یہ پیناڈول بھی پاکستان سے منگواتے ہیں ۔ یہ لوگ جاتے وقت اپنے ساتھ سوئی دھاگہ اورسرمہ تک پاکستان سے خرید کر لیجاتے ہیں ۔ یہ وہاں کے کسی ڈھنگ کے مقھی اورکیفے میں قہوہ پینے کی بھی اوقات نہیں رکھتے ۔ایسے میں اگر یہ وہاں سیاسی فریق بن کر نعرے بازی کرتے پھرے اور حرم وروضہ رسول کے تقدس کو پامال کریں گے تو ان پر پابندی لگے گی ۔ انہیں نکال دیا جائے گا ۔
پھر ان کے پاس یہاں پاکستان میں درختوں سے لٹک کر اورگاڑیوں کے نیچے لیٹ کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرنے کے سوا کرنے کو کچھ بھی نہیں رہے گا ۔ یہ ہم سب کا نقصان ہے ۔قومی المیہ ہے ۔ اجتماعی خسارہ ہے ۔
آپ اختلاف کریں مگر انسانیت سے باہر نہ ہو ۔2013 کے بعد پاکستان میں سیاسی سطح پر اختلاف کا جو ماحول بنا ہے اس نے پاکستان اورپاکستانیوں کی عزت کا جنازہ نکال دیا ہے ۔یہ ایسا اخلاق باختہ عمل ہے کہ ہمارا وزیراعظم عمران خان ہو۔ شہباز شریف ہو۔ نواز شریف ہو۔ زرداری ہو یا کوئی اور۔

ہمارے پرائم منسٹرز کو اب وہی سیکورٹی دی جائے گی جو ایک خودکش بمبار کی انٹیلی جنس اطلاع کے بعد دی جاتی ہے ۔ ہم دنیا بھر کے لئے خطرناک قوم بن گئے ہیں۔ ہم خودکش بمبار ہیں ۔ اخلاقیات کے بمبار ۔ انسانیت کے بمبار ۔ اس بمباری والے مزاج نے ہماری عزت کو بھسم کردیا ہے ۔ہم دو ٹکے کے بھی نہیں رہے ہیں ۔