ہوم << امام ، مؤذن ، خادم اور مسجد کمیٹی - فیض اللہ خان

امام ، مؤذن ، خادم اور مسجد کمیٹی - فیض اللہ خان

اس موضوع پہ بات کرنے سے پہلے کچھ ذاتی تجربہ بیان ہوجائے تاکہ اس اہم مگر فراموش مسئلے کے حوالے سے کچھ معلومات میسر آسکیں . 1970 میں والد محترم دستگیر کراچی کی غوثیہ مسجد میں امام تعینات ہوئے. خوش الحان اور فنا فی القرآن تھے. قرآن سے ان کی محبت عجب ہی تھی. شہر بھر کی محفل قرات کا حصہ بنتے . پاکستان آمد پہ معروف مصری قاری قرآن شیخ عبد الباسط کو براہ راست سن چکے تھے. غالباً کراچی کا واقعہ بتاتے ہوئے کہنے لگے کہ ساٹھ کی دہائی کے نصف کے بعد جمعہ کو ہم ایک دوست کے یہاں جمع ہوکر پرانے طرز کے گھومنے والے ریکارڈر میں تلاوت سنتے اور اس مجلس میں نجانے کہاں سے مصری فوجی کیڈٹ بھی شریک ہونے لگ گئے. وہیں والد صاحب بھی تلاوت کیا کرتے. انھی فوجیوں نے تب ایک جیبی سائز قرآنی نسخہ والد کو تحفے کے طور پہ دیا جس کے پہلے صفحے پہ مصری صدر کا فوٹو نمایاں تھا. (یہ مصری تھے یا شامی یہ اب مجھے نہیں یاد مگر یہ کنفرم ہے کہ تھے کوئی عرب کیڈٹس ہی جو یہاں تربیت حاصل کر رہے تھے). والد صاحب کی قرآن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ بستر مرض پہ جانے سے پہلے تہجد اور فجر کے اوقات میں کئی پاروں کی تلاوت معمول تھا . ایبٹ آباد کے ایوب ٹیچنگ اسپتال کی وہ سرد شام مجھے کبھی نہیں بھولے گی جب انھیں میں موبائل سے شیخ عبد الباسط ، شیخ منشاوی سمیت دیگر مصری قراء (انہیں حجاز کے بجائے مصری لہجہ بیحد پسند تھا) کی تلاوت سناتا رہا اور وہ اشاروں سے بتاتے کہ ہاں میں سن رہا ہوں اور پھر اس رات کی صبح فجر کی اذانوں کے ساتھ ہی وہ دنیائے فانی سے چلے گئے. اللہ پاک ان کی کامل مغفرت فرمائیں. آمین

خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی. 1970 میں والد صاحب نے غوثیہ مسجد کی امامت سنبھالی اور پھر 1995 تک وہیں رہے. امام مسجد کی تنخواہ اب کچھ نہیں تو سوچیں اس وقت کیا ہوتی ہوگی، سو گزارہ تھا ہوتا رہا، لیکن اصل پریشان کن صورتحال اس گھر کی تھی جہاں ہم نے پچیس برس گزارے، اور یہ تکلیف اس وقت مزید دو چند ہوگئی جب چندروز پہلے میرا وہاں ایک کام سے جانا ہوا اور دیکھا کہ جس ٹین اور سیمنٹ کی چادروں تلے ہمارے والدین نے زندگی کے قیمتی پچیس برس گزار دیے، اس کی حالت اب بھی نہ بدل سکی، البتہ رمضان کی خوشی میں بیرونی دیواروں پہ چونا پھیر دیا گیا تھا ۔

محلے کے ان پکے گھروں کے بیچ ہمارا کچامکان ایسے ہی نمایاں ہوتا جیسا کہ چھوٹے مکانات کے سامنے محل الگ سے نظر آتا ہے. ہمارا گھر یہاں کے اچھے گھروں میں گویا مخمل میں ٹاٹ تھا. مجھے اچھے سے یاد ہے کہ شام میں بچوں کے ساتھ کرکٹ وغیرہ کھیل کر کوشش ہوتی کہ اندھیرے میں گھر جاؤں تاکہ دوسرے محلے سے آنے والے بچے یہ نہ دیکھ سکیں کہ ہمارا گھر کتنا کچا اور قدیم زمانہ کا ہے. اپنے محلے کے بچے خواتین وغیرہ تو روز ہی ہمارے گھر اور ہم ان کے گھر جاتے کھیل کھیلتے ٹی وی دیکھتے اور گپ شپ مزے کی رہتی. پورے محلے میں گیس تھی اور وہ گھر گیس سے نوری سالوں کے فاصلے پہ تھا . امی لکڑیاں جلاکر ناشتہ کھانا بناتیں. 90 کی دہائی میں پھر جاکر گیس کا کنکشن ملا تو سہولت بنی. گرمیوں کے روزے وہاں زندگی جہنم بنادیتے. ٹین اور سیمنٹ کی چھت یوں تپتی کہ جسم پہ چھالے پڑجاتے. ہمیں سمجھ ہی نہیں نہ لگتی یہ مسئلہ کیا ہے . باتھ روم کے دروازے نہ تھے، بلکہ لکڑیاں جوڑ جاڑ کر دروازے بنانے کی بھونڈی کوشش کی گئی تھی. گھر کا آنگن بڑا تھا تو گرمی سے بچاؤ کے لیے امی ابو نے وہاں نیم کے دو درخت لگا دیے جو بڑے ہوکر چھاؤں کا سبب بنے. ہم بچے اور والد دوپہر میں مسجد چلے جاتے. اس کے حوض میں سر بھگو کر نیم اور پیپل کے پیڑ کے نیچے آرام کرتے، البتہ امی اسی گرمی میں رہتیں جس جگہ امام مؤذن اور خادم کے گھر بنے ہیں. کہتے ہیں کہ متنازعہ جگہ ہے، دستگیر میں تعمیراتی کام کے وقت کسی ٹھیکیدار نے اسے اپنا گودام بنا رکھا تھا، یہی ہمارا گھر کہلایا . چلیں ٹھیک ہے کہ جگہ متنازعہ ہے، مان لیا، مگر مسجد کا کچھ حصہ ان گھروں کے لیے مختص نہ کرنے میں کیا سائنس تھی، یہ آج دن تک سمجھ نہ آسکی (چند برس قبل امام کے لیے مسجد کے اندر پکا گھر بنادیا گیا ہے مگر مؤذن و خادم جنھیں یہاں چالیس برس بیت چکے، شاید اس قابل نہیں کہ انھیں بھی انسانوں والی زندگی فراہم کی جائے). حیرت مجھے ان لوگوں پہ بھی ہوتی ہے جو ارد گرد رہتے تھے مگر انھوں نے بھی کبھی امام، مؤذن اور خادم کو اس غیر انسانی ماحول سے نکالنے میں دلچسپی نہ دکھائی .

95 تا 98 کا عرصہ والد صاحب نے گلشن اقبال کی ایک مسجد میں امامت کی.(پھر امارت چلے گئے تھے جہاں کے اسلامیہ اسکول میں استاد ہوگئے). یہ مسجد کسی عرب شیخ نے بناکر دی تھی، اگر میں غلط نہیں تو تنخواہ انھیں کیطرف سے دی جاتی، یہاں تنخواہ اور گھر معقول تھے یعنی کہ پکے اور اچھے لیکن یہاں کی مسجد کمیٹی والد صاحب تو ایک طرف خاکسار کی زندگی میں بھی مداخلت کرتے، (میں بمشکل اسوقت 17/18 برس کا بچہ تھا ) ایک صاحب جن کا انتقال ہوگیا انہیں میری ٹوپی نہ پہننے اور جینز پہننے پہ اعتراض تھا. ایک بار ایسی ہی کسی بات پہ موصوف کو میں نے کمیٹی ارکان کے سامنے ٹوک دیا تھا ، اس کے بعد تسلی رہی۔

ایسا نہیں ہے کہ میں اب کوئی بنگلے میں رہتا ہوں. میری رہائش تو کراچی کے تقریباً مضافات میں ہے، گھر بھی کرائے کا ہے مگر الحمدللہ پکا ہے، ٹین اور سیمنٹ کی چادروں کا نہیں کہ گرمیوں میں بدترین حال ہوجائے . بس اسی طرح کے چھوٹے سے گھر سہی مگر پکے ہوں تو آئمہ اور مسجد سے جڑے دیگر خادمین کی زندگیاں کچھ آسان ہوجائیں گی. مسجد کمیٹی کی اکثریت پورے پاکستان میں بنیادی طور پہ زعم تقوی کی چادر لپیٹے ننھے ننھے فرعونوں کی ہوتی ہے، وہ طے کرتے ہیں کہ امام کپڑے کیسے پہنے گا ؟ کیا تفریح کرے گا؟ کہاں جائے گا؟ کہاں نہیں جائے گا؟ وغیرہ وغیرہ (انسان کے بچے کم کم ہی ملتے ہیں) مسجد کروڑوں کی ہوگی مگر امام، مؤذن اور خادم کی تنخواہیں آپ کو آج بھی پتہ چلیں تو انگلیاں دانتوں تلے داب لیں . مسجد کمیٹی کو کمترین تنخواہ میں بہترین عالم، شاندار قاری اور نستعلیق خطیب چاہیے، بدلے میں آٹھ دس ہزار دیتے ہیں . امام کو بہترین رہائش تنخواہ اور گاڑی ملنی چاہیے تاکہ وہ پرسکون ہوکر مسجد کے معاملات دیکھ سکے. نماز پڑھاتے ہوئے اسے بچوں کی فیس اور علاج کی ٹینشن ہو نہ ہی جمعہ کا وعظ کرتے قیمتی پوشاک اور مہنگی گاڑیوں میں آئے نمازیوں کے لیے قبر و حشر میں عذاب کی وعید سنائے.

جو بڑے ادارے آئمہ وغیرہ مساجد کو فراہم کرتے ہیں، وہ مسجد کمیٹی والوں سے انسانی رویہ اور آئمہ کے لیے بہترین سہولتوں کا بھی مطالبہ کریں ، جب یہ سب ہوجائے گا تو معاشرے کو بہترین علماء، خطیب اور قراء میسر ہوں گے اور لوگ ڈاکٹر انجینئر کی طرح امام مسجد بن کر معاشرے کے روحانی امراض کا بھی خوب علاج کرسکیں گے . عکس والد مرحوم قاری محمد فرہاد خان اور انکی والدہ یعنی ہماری دادی کا ہے . ایک بار ضرور والد محترم کے لئیے فاتحہ پڑھ کر ایصال ثواب کریں .

Comments

Click here to post a comment