قدرت نے انسان کی فطرت کے اندر دو جبلتیں ایسی رکھی ہیں کہ ان کی شدت انسان کو جانوروں کی صف میںلا کھڑا کرتی ہے۔پہلی جبلت پیٹ کی خواہش ہے جبکہ جبلت ثانیہ پیٹ سے نیچے کی خواہش ہے۔تاریخ انسانی شاہد ہے کہ ان دونوں خواہشات کو پوری کرتے کرتے انسان نے جہاں حلال وحرا م اور جائزو ناجائز کی حدود توڑی ہیں وہاں بعض اوقات مقدس رشتوں کی حرمت کو بھی تار تار کیاہے۔
ان دو طاقت ورجذبوں سے کبھی مذہب نے شکست کھائی ہے تو کبھی تہذیب و تمدن بھی ان کے سامنے ماند پڑے ہیں اور کہیں شرم و حیا داغ داغ ہوئی ہے تو کہیں عفت و پاکدامنی کی چاندنی چھلنی چھلنی ہوئی۔تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں اور کہیں کہیں تو مورخ کا قلم تھک ہار کر سپر ڈال دیتاہے کہ ان دونوں جذبوں کی مکروہ و مذموم وارداتیں ناقابل تحریر ٹہرتی ہیں اور بے باک قلم کار بھی کہتاہے زمانے کے مظالم کے زندہ رکھنے کا ذمہ مجھ پر نہ آن پڑے۔قرآن مجید نے انسان کی اس بدعملی پر کیا خوبصورت تبصرہ کیا ہے ’’ وَ لَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اٰذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلٌّ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ{۷:۱۷۹}‘‘ترجمہ:اور حقیقت یہی ہے کہ بہت سے جن وانسان ایسے ہیں جنہیں ہم نے جہنم ہی کے لیے پیداکیاہے،ان کے پاس دل ہیں لیکن وہ سوچتے نہیں،ان کے پاس آنکھیں ہیں لیکن وہ دیکھتے نہیں،ان کے پاس کان ہیں لیکن وہ سنتے ہی نہیں ،وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گزرے ہوئے ،یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں۔
جملہ کل انسانی معاملات کی مانند،اسلام نے یہاں بھی انسانیت کو بے سہاراو تنہانہیں چھوڑ دیا بلکہ ایک ایسا نظام العمل دیا ہے جو ان دونوں جبلتوں یعنی ،پیٹ اور پیٹ کی نیچے کی خواہشات کو باگیں ڈال دیتاہے اور جانوروں سے گراہوا انسان ایک بار پھر دائرہ انسانیت میں پناہ گزین ہو جا تاہے۔’’روزہ‘‘اسی نظام عمل کا نام ہے۔طلوع فجر سے دن کے اختتام تک پیٹ اورپیٹ سے نیچے کی جائز خواہشات سے بھی دستبردارہوجا نا ’’صوم‘‘یا روزہ کہلاتاہے۔لیکن یہ ’’روزہ‘‘کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔قرآن مجید انسان سے یہ توقع رکھتاہے کہ جس نے ان دو بڑی بڑی حیوانی جبلتوں پر قابو پالیاہے اس کے لیے ان سے چھوٹی عادات پر قابو پانا چنداں مشکل نہ ہوگا،پس زبان،آنکھ،کان،ہاتھ ،پاؤںاور دیگر خواہشات پر قابوپا لینا کچھ دشوار نہیں اگر ان دو بڑے منہ زور گھوڑوں کو قابو پا لیاجا سکے۔
’’روزہ‘‘تمام مذاہب میں اپناوجود رکھتاہے۔اﷲتعالی کی کتب کا ایک قانون ’’قانون نسخ‘‘کے نام جاناجاتا ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک وقت میں نازل شدہ احکام بعد کے اوقات میں کلی یا جزوی طور پر منسوخ کر دیے جاتے ہیں۔بنی اسرائیل کی شریعت میں مغرب سے مغرب تک روزہ ہوتا تھااور کل مہینے کے لیے بیویوں کے پاس جانا منع تھا۔جو شخص مغرب کے وقت میں کچھ کھانے پینے سے قاصر رہ جاتاتواس کا روزہ اڑتالیس گھنٹے کا ہو جاتا تھا۔ہجرت کے دوسرے سال ’’روزہ‘‘انہیں شرائط کے ساتھ امت مسلمہ پر بھی فرض کر دیا گیا۔لیکن کچھ مسلمان حالت روزہ میں بیویوں کے پاس جانے کی شکایت لے کر حاضر خدمت اقدس ﷺ ہوئے۔
اﷲتعالیٰ ان نفوس قدسیہ پر اپنی دائمی رحمتوں کا نزول فرمائے جن کے سبب وطفیل اﷲ تعالی نے اپنے اس قانون میں ’’نسخ‘‘فرمایااور امت مسلمہ کے لیے روزہ کادورانیہ مغرب سے مغرب تک کی بجائے طلوع فجر سے مغرب تک کر دیاگیااوررات کے اوقات میں کھانے پینے اور بیویوں کے پاس جانے کی اجازت مرحمت فرمادی۔روزہ ان پانچ عبادات میں سے ایک ہے جنہیں امت مسلمہ کے لیے فرض قرار دیا گیاہے۔قرآن مجید نے اس کا مقصد تقوی کا حصول بتایاہے۔تقوی کے بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں اور سب ہی درست ہیں .
لیکن اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ جب پیٹ اور پیٹ سے نیچے کا روزہ ہو تو آنکھ بھی روزے سے ہو،زبان،ہاتھ اور پاؤں بھی روزے سے ہوں،دل اور دماغ کا بھی روزہ ہواور انسان کے کل معمولات سے روزہ گویا چھلک چھلک کر امڈرہا ہو تب ہی تقوی کا مقصد پورا ہوسکتاہے۔سیکولرمغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ سیکولرلوگ کسی مقصد کا ایک دن منا لیتے ہیں ور پھر سارا سال اسے فراموش کیے رکھتے ہیں،اگر صرف رمضان میں تقوی حاصل کیااورباقی سال یہ سبق بھلادیاتو پھر مسلمان اور سیکولرسٹ میں تو کوئی فرق نہ رہا۔پس یہ تقوی کا سبق رمضان میں ایک یادہانی کی شکل میں گویاگلستان کی آبیاری کاکام کرتاہے جس کے نتیجے میں یہ درخت سارا سال بارآور رہتاہے۔یہ روزہ کا انفرادی مقصد تھا ،روزہ کے اجتماعی مقصد کی طرف قرآن کی اصطلاح ’’صوم‘‘واضع اشارہ کرتی ہے۔
یہ لفظ ’’صائم‘‘سے ماخوذ ہے جس کا مطلب وہ گھوڑا ہے جسے بھوکا پیاسا رکھ کر مشقت لی جاتی ہے اور اسے جنگ کیے تیار کیاجاتاہے۔چونکہ ساری عبادات مسلمان کو ’’قتال’’کے لیے تیار کرتی ہیں،نماز قتال کے لیے نظم و ضبط سکھاتی ہے،زکوۃ قتال کے لیے خرچ کرنا سکھاتی ہے،حج قتال کیے دوکپڑوں کی یکساں وردی پہن کر فوجوں کی طرح خیموںمیں رہنا سکھاتا ہے اسی طرح روزہ قتال کے لیے بھوکا پیاسا رہنا سکھاتاہے۔روزہ میں صبر کا سبق ملتا ہے جو کہ سپاہی کا سب سے پہلا امتحان ثابت ہوتا ہے۔دنیا بھر کی نعمتیں دستر خوان پر چنی گئی ہوتی ہوتی ہیں،لیکن صرف حکم کا انتظار ہوتا ہے اور جب تک حکم نہیں آتا کوئی سپاہی بھی کھانے طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا،سحری کے وقت آنکھیں نیندسے بھری ہیں،طبیعت انتہائی بوجھل ہے کھانے کو ایک فیصد بھی دل نہیں چاہتا لیکن سپاہی کے لیے حکم ہے ابھی کھانا کھاؤ،سپاہی کی تربیت کے لیے ہر موسم میں رمضان المبارک بھیجا جاتا ہے تاکہ جب کبھی کسی بھی موسم میں قتال کرنا پڑے تو مومن سپاہی تیارباش ہوں۔اسی طرح روزے کی حالت میں شوہراوربیوی ساتھ ساتھ موجود ہیں لیکن حکم یہی کہ ایک دوسرے سے احتراز کرنا ہے ۔
فرض روزے رمضان المبارک کے روزے ہوتے ہیں،یہ کسی صورت معاف نہیں ہیں،بیماری،سفر یا کسی اور شرعی عذرسے رہ جائیں تو ان کی قضا ضروری ہے۔خواتین کے خصوصی ایام کی نمازیں معاف ہیں لیکن روزوں کی قضا کرنی پڑے گی۔واجب روزے منت یانذرکے روزے ہیں،اگر منت مانی ہے کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو اتنے روزے رکھوں گاتب کام ہو جانے پر ان روزوں کا رکھنا واجب ہو جائے گا۔واجب روزوں کی دو قسمیں ہیں،’’واجب موقت‘‘ اور’’ واجب غیرموقت‘‘۔منت مانتے ہوئے اگر تاریخوں کابھی تعین کردیاہے کہ جیسے محرم کی یکم ،دو اور تین کو یا ربیع الاول کی یکم دو اور تین وغیرہ کو روزہ رکھناہے تو یہ ’’واجب موقت ‘‘ہو گاجسے انہیں دنوں میں پوراکرناضروری ہے۔اوراگر منت یانذرمانتے ہوئے تاریخوں کا تعین نہیں کیاتو یہ ’’واجب غیرموقت‘‘ہوگا جسے پہلی فرصت میں پوراکرلیناچاہیے۔
سنت موکدہ کوئی روزے نہیں تاہم رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل محسن انسانیتﷺہر قمری مہینے کی تیرہ چودہ اور پندرہ تاریخوں میں روزہ رکھا کرتے تھے،انہیں ایام بیض کہتے ہیں،اکثر بزرگ ان ایام میں روزہ رکھنے کو سنت سمجھتے ہیں۔ایک نوجوان نکاح کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تھاتو آپ ﷺ نے اسے روزہ رکھنے کی ترغیب دی اور سنت داؤدی کو پسند فرمایا یعنی ایک دن روزہ رکھنا پھر ایک دن روزہ نہ رکھنا۔جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو یہودی دس محرم کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ اس تاریخ کو انہیں فرعون سے نجات ملی تھی،آپ ﷺ نے بھی یہ روزہ رکھا لیکن یہودیوں سے عدم مشابہت کی خاطر نو اور دس محرم کے روزے رکھے۔اگر کسی وجہ سے نو محرم کا روزہ نہ رکھاجا سکے تو دس اور گیارہ محرم کے روزے رکھنا مستحب ہے۔
کسی کام کے ہو جانے پر یاکسی نعمت کے میسرآجانے یاکسی اچھی خبرکے موصول ہونے پرشکرانے کے روزے رکھنے کی عادت اﷲ تعالی کو بہت پسندہے۔کسی ضرورت کو پوراکرنے کے لیے ،کسی مشکل کی آسانی کے لیے یا کسی پریشانی سے بچنے کے لیے اﷲ تعالی کے سامنے دست سوال کرنے کاایک طریقہ یہ بھی ہے کہ’’ قضائے حاجات‘‘کی نیت سے روزے رکھے جائیں۔رمضان کے علاوہ نفلی اعتکاف میں بیٹھنے کی صورت میں روزے رکھنا روزوں کی نفلی اقسام ہیں۔صرف جمعہ کے دن کا روزہ پسند نہیں کیا گیا کیونکہ ایک حدیث نبویﷺکے مطابق یہ مومن کے لیے جمعہ عید کا دن ہے،اس دن نہادھوکر اچھے کپڑے پہنے جائیں اور صلہ رحمی کی جائے،تاہم کسی ترتیب میں جمعہ کے دن کا روزہ آ جائے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
شوہر کی اجازت کے بغیرزو جہ کا روزہ رکھنا مکروہ سمجھا جاتا ہے وجہ صاف ظاہر ہے۔صرف دس محرم کا روزہ رکھنابھی مکروہ ہے،نوروز کا روزہ بھی مکروہ ہے کیونکہ دوسرے مذاہب سے مشابہت کا عمل شارع کو قطعاََبھی پسند نہیں۔یکم شوال اوردس،گیارہ،بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے روزے رکھنا حرام ہیں،ان دنوں میں ابلیس روزہ رکھتاہے۔تاہم یہ سنت ہے کہ عیدبقرہ کے موقع پرجس دن قربانی کرنی ہوتب قربانی کا گوشت پکنے تک کچھ نہ کھایا پیاجائے اور قربانی کے گوشت سے ہی دن کے کھانے کا آغاز کیاجائے۔یہ کتنا بڑا درس انسانیت ہے کہ جو جانور ہمارے لیے اپنی جان سے گزر رہا ہے اس کے احترام میں چند گھنٹے بھوک برداشت کر لی جائے۔
اعتکاف بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔آپ ﷺہر سال رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرماتے تھے،عمر مبارک کے آخری رمضان میںبیس دنوں کا اعتکاف اداکیا۔اعتکاف کے دوران روزے کے علاوہ بھی بیوی کے پاس جانا منع ہوجاتاہے۔اعتکاف میں خاص طور پر اور پورے رمضان میں عام طور پر قرآن مجید کو سمجھ کر یعنی ترجمہ سے پڑھ لینا اس لیے مفید ہے کہ یہ مہینہ قرآن سے ہی وابسطہ ہے۔اگر ایسی جگہ تراویح اور اعتکاف کا موقع مل جائے جہاں قرآن فہمی کے مواقع میسر ہوں تو اسے رب کی خصوصی عنایت سمجھاجائے،محض تلاوت کر لینے سے قرآن کا حق ادانہ ہوگااور قرآن سے راہنمائی حاصل نہیں کی جا سکے گی۔
دنیاکے امتحانوں کے لیے کتابوں کو کیڑوں کی طرح چاٹ جانا،ان کے نوٹس بنانا،ان کتابوں کی تفہیم کے لیے دن رات محنت کرنا اور ان کی امدادی کتب سے بھی استفادہ کرنا جب کہ آخرت کے امتحان کی تیاری کے لیے قرآن مجید کو سمجھنے کی کوشش بھی نہ کرنا اور صرف سرسری سا تلاوت کرکے گزر جانا بالکل بھی مناسب نہیں۔اگرچہ قرآن مجید سے تعلق ساراسال اور شب و روز برقراررہنا چاہیے لیکن رمضان خاص طورپر قرآن مجید کا مہینہ ہے۔اوررمضان المبارک میں بھی اگراعتکاف کی توفیق میسرآجائے تو ان دس دنوں میں تو کلیۃ قرآن مجید میں غوطہ زن رہناچاہیے تاکہ علم دین حاصل کرکے اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھال سکیں۔ایک رات علم حاصل کرنے کے مقابلے میں ستر راتیں عبادت کرتے رہنے کے باوجود علم والی رات کی فضیلت زیادہ ہے۔
اعتکاف کے دوران بلاضرورت مسجدسے باہر نہیں نکلنا،ملنے والوں سے علیک سلیک سے زائد روابط سے احترازکیاجاناچاہیے اورذکر،اذکار،تسبیحات،وظائف ،نوافل اوردعاؤں و مناجات پر توجہ مبذول رکھی جائے۔اگراعتکاف کرنے والا صاحب علم ہے تو نفلی عبادات کاانفرادی اہتمام کرے لیکن اگر عامی مسلمان ہے تو نفلی اجتماعی عبادات میں حصہ لے سکتاہے۔رمضان کے اگرچہ بہت سے مستحب اعمال ہیں لیکن کثرت سے دعائیں مانگنا،ہر وقت دعامانگتے رہنا،دوسروں سے دعاؤں کی درخواست کرنااور اپنی دعاؤں میں زندوں اور مردوں اورکل امت و عالم انسانیت سب کو یاد رکھنابہت ضروری عمل ہے۔
رمضان کاآخری عشرہ میںمساجد کے اندررونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔اعتکاف،ختم قرآن مجید کی محفلیں،شبینہ قرآن مجیداوراجتماعی عبادات جیسے باجماعت صلوۃ التسبیح یا حلقہ ہائے ذکر کااہتمام ہوتاہے۔بعض مساجد میں سحری اور افطاری کے کھانے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔مسجد کی مرکزیت اسلامی معاشرے کاخاصہ ہے لیکن اس دوران مسجد کااحترام حتی الامکان ملحوظ خاطررہے۔مسجدکی انتظامیہ اور علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ مسجد میں آنے والے،طاق راتیں گزارنے والے اور اعتکاف کرنے والوں کو ایک لگابندھایومیہ معمول فراہم کریں جس میں تفہیم دین،انفرادی و اجتماعی عبادات اور طعام و قیام و آرام کوایک منضبط نظام الاوقات سے مزین کیاگیاہو۔جن راتوں میں لوگ کثرت سے مسجد میں وارد ہوں ان راتوں کے اندر وسیع پیمانے پر تربیت کاانتظام ہو ناچاہیے تاکہ آنے والے اپنے وقت کاصحیح فیض حاصل کرپائیں۔
لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی جائے،ان کے معاملات میں راہنمائی فراہم کی جائے ،معاشرت اور معیشیت کے جملہ اسلامی اصول سکھائے جائیں،فرائض و سنن اور حرام و مکروہات کاشعوربیدارکیاجائے۔اگرممکن ہو تو اتحادامت اور باہمی محبت و مودت کے دروس کااہتمام بھی کیاجائے۔اس طرح معاشرے میں پھیلتی ہوئی ذہنی آوارگی اورعام بے عملی کاخاتمہ ممکن ہوسکے گااوررمضان المبارک کی برکتیں بھی ثمرآورہوں گی۔ عیدالفطر میں خرافات کے اندر غرق ہوجانا ایسا ہی ہے جیسے بہت اچھے طبیب سے بڑی موثراور مہنگی دوائی حاصل کی اور کھا کر ہضم ہونے سے پہلے حلق میں انگلی ڈال کرقے کرکے اگل دی۔رمضان المبارک کاتقاضاہے کہ یوم عیدکوشریعت کے احکامات کے مطابق خوشی سے منایاجائے۔عید کے روزقریب اوردورکے تمام رشتہ داروں سے ملاجائے اور اپنے گھردعوت طعام پر مدعو کیاجائے۔دوستوں کے ساتھ اچھاوقت گزارا جائے اور نیک لوگوں کی صحبت اختیارکی جائے۔
رمضان المبارک میں مسجدسے جو تعلق پیداہواتھا اسے پہلے روز سے اسی قوت کے ساتھ مستقل بنیادوں پراستواررکھاجائے۔عیدکے دن کی خوشیوں کو بھی اﷲ تعالی نے نماز جیسے عمل کے ساتھ منسلک کردیاہے ،چنانچہ غسل کرکے،میٹھی سوغات کھاکے ،نئے کپڑے زیب تن کرتے ہوئے اور خوشبو لگاکر ایک راستے سے عیدگاہ جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا مسنون ومستحب اعمال ہیں۔عیدنمازکے بعد سب مسلمانوں سے بغل گیرہوکر عیدکی مبارک باد دی جائے،نظریں بچانے کی بجائے خوش دلی سے جان پہچان والوں اور ان جانے لوگوں سے محض کلمہ طیبہ کے تعلق خاطر کے باعث باہم مصافحہ و معانقہ کرنا اسلامی معاشرت کا منفردشعائرہے۔ پڑوسیوں سے خاص طورپر ان کے دروازوں پر جاکر ملناحق ہمسائگی ہے۔اسلامی شریعت بھلاایسے موقع پر غرباء و مساکین کوکیسے فراموش کرسکتی ہے۔
فطرانہ اداکرنے تک ،پورامہینہ صبح سے شام تک دن بھربھوکے پیاسے رہ کر روزے جیسامشقت بھراعمل زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتاہے ۔ڈھائی سیر گندم یااس کے برابر قیمت کو گھر میں موجود تمام افرادکی تعداد سے ضرب دے کراتنی رقم اداکی جائے۔یکم شوال کو طلوع آفتاب سے قبل پیداہونے والا بچہ بھی اس تعداد میں شامل ہے۔رمضان کے بعداگلے رمضان کاانتظارشروع کردیاجائے تاکہ اگرموت آئے تو منتظررمضان کی حیثیت سے اﷲ تعالی کے سامنے پیش ہوں۔
تبصرہ لکھیے