ہوم << مشرقی طریق علاج کے مسائل اور حل - محمد احمد چشتی

مشرقی طریق علاج کے مسائل اور حل - محمد احمد چشتی

دنیا میں مختلف قسم کے طریقہ علاج رائج ہیں۔ ان میں سب سے بہتر طریقہ علاج قدرتی اجزاء سے حاصل ہونے والی ادویات ہیں۔حکیم محمد سعید شہید صاحب نے پاکستان میں قدرتی طریقہ علاج کے فروغ کیلئے ایسٹرن میڈیسن کا ایک باقاعدہ ڈگری پروگرام بیچلر آف ایسٹرن میڈیسن &سرجری BEMS 1995میں شروع کرایا جسکا مقصد ویسٹرن میڈیسن کے مد مقابل ایک جدید طریقہ علاج تھا۔ ایم بی بی ایس و ایم ڈی جیسی ڈگریوں کے معیار کے مطابق ہی BEMS کا کورس ترتیب دیا گیا۔اس پانچ سالہ ڈگری پروگرام میں ایم بی بی ایس والے تمام مضامین کیساتھ اضافی مضامین بھی شامل ہیں۔پوری دنیا میں نیچرل میڈیسن،یونانی میڈیسن،آیوویدک میڈیسن کے نام سے بیچلر ڈگریاں ہو رہی ہیں اور انکو وہی حقوق دئیے جاتے ہیں جو کہ ویسٹرن میڈیسن سسٹم کے پریکٹیشنرز کو دئیے جاتے ہیں۔یہ پروگرام اس وقت پاکستان میں ہمدرد یونیورسٹی کراچی، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور،جی۔سی یونیورسٹی فیصل آباد،جناح ویمن یونیورسٹی کراچی،ضیائالدین یونیورسٹی کراچی،یونیورسٹی آف کراچی،یونیورسٹی آف بلوچستان کوئٹہ،پونچھ یونیورسٹی راولا کوٹ آزاد کشمیر،قرشی یونیورسٹی لاہور،سپیرئیر یونیورسٹی لاہور اور ہری پور یونیورسٹی میں ہو رہا ہے۔
ایسٹرن میڈیسن میں لیبارٹری سے تیار شدہ کیمیکلز کے علاوہ باقی تمام قدرتی ادویات جن میں پودے،مائیکروآرگنزمز،جانوروں سے حاصل ہونے والی ادویات چٹانوں اور سمندر میں پائی جانے والی ادویات اور قدرتی طریقے سے ملنے والے ایکسٹریکس شامل ہیں۔اس پروگرام کے بعد ایک سال کی ٹریننگ بھی مختلف ہسپتالوں میں دی جاتی ہے اور سائنسی طریقہ کار کے ذریعے تشخیص اور علاج سکھایا جاتا ہے۔

دنیا میں رائج تمام قسم کے طریقہ علاج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن ایسٹرن میڈیسن زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔یہ ایک اچھا اور سستا طریقہ علاج ہے جس سے لوگوں کو جلد شفاء مل جاتی ہے۔ پرانی بیماریوں کا بہترین علاج ایسٹرن میڈیسن میں موجود ہے۔اس طریقہ علاج میں ادویات کے مضر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ڈگری شروع تو گئی لیکن بد قسمتی سے ڈگری کو وہ حقوق ابھی تک نہیں مل سکے جو ایک بیچلر ڈگری کو دئیے جاتے ہیں۔ BEMS کی ڈگری کو NCT کیساتھ منسلک کر کے ڈپلومہ ہولڈرز کے ماتحت کر دیا گیا اور ڈگری و ڈپلومہ کے حقوق ایک جیسے کر دئیے گئے جبکہ ڈگری اور ڈپلومے کا موازنہ بنتا ہی نہیں۔ پوری دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں کہ ایک ڈگری ڈپلومہ ہولڈرزکے ماتحت ہو۔ ہر میڈیسن سسٹم کا ایک قانون ہوتا ہے جسکے مطابق پریکٹس کی جاتی ہے لیکن ایسٹرن میڈیسن کا کوئی قانون ہی نہیں بن سکا اور اس ڈگری کو نیشنل کونسل فار طب(NCT) سے منسلک کر کے اس ڈگری کو صرف جڑی بوٹیوں تک محدود کر دیا گیا۔ایسٹرن میڈیسن ڈگری ہولڈرز کو پریکٹس کرنے کیلئے وہی رجسٹریشن سرٹیفیکیٹ جاری کیا جاتا ہے جو ایک ڈپلومہ ہولڈر کو دیا جاتا ہے۔BEMS شروع ہی 1995میں ہوئی جبکہ نیشنل کونسل فار طب 1965کے آیوویدک،یونانی&ہومیو پریکٹیشنر ایکٹ کے تحت کام کر رہی ہے۔این سی ٹی صوبائی ہیلتھ کئیر کمیشنز کو وہی قوانین فراہم کرتی ہے جو ایف ٹی جے کیلئے ہیں اور جب ہیلتھ کئیر کمیشن یا ڈرگ انسپکٹرز آتے ہیں تو وہ BEMS گریجوئیٹس کے کلینکس کواسی معیار پر پرکھتے ہیں جسطرح سے عام حکماء یعنی FTJ کے کلینکس کے معیار کو چیک کیا جاتا ہے۔ کیونکہNCT نے ہیلتھ کئیر کو جو MSDS بنا کر دئیے ہیں وہ ڈپلومہ ہولڈرز یعنی FTJ اور ڈگری ہولڈرز یعنی BEMS دونوں کے یکساں ہیں جبکہ ڈگری کے MSDS اس ڈگری کے مطابق ہونے چاہیے تھے۔

پاکستان میں ایسٹرن میڈیسن پریکٹیشنرز کو ایسٹرن میڈیسن کی حدود میں آنے والی تمام ادویات تجویز کرنے کی اجازت ملنی چاہئیے تا کہ صحت کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔BEMS کے بعد M.Phill اور P.hd کرنے والوں کو انکے متعلقہ فیلڈ میں باقاعدہ سپیشلائزڈ پریکٹس کی بھی اجازت ملنی چاہئے۔ایسٹرن میڈیسن کا کوئی جاب سٹرکچر بھی سرے سے موجود ہی نہیں۔یونیورسٹیز کی کسی ہسپتال کے ساتھ وابستگی نہیں ہے کہ ڈگری کرتے وقت وارڈ سٹڈی کرائی جائے اور ڈگری کرنے کے بعد باقاعدہ ہاوُس جاب ہو۔ ایسٹرن میڈیسن کی ترقی کیلئے جاب سٹرکچر بنانا ہو گا تا کہ اسکے سکوپ میں بہتری آ سکے۔ ڈگری کے دوران وارڈ سٹڈی کی اجازت بھی ملنی چاہئے اور معاوضے کیساتھ ہاوُس جاب کی بھی اجازت ملنی چاہئے۔ایسٹرن میڈیسن کرنیکے بعد ان ڈور لیب کی اجازت ہونی چاہئے اور ایم فل کرنے کے بعد باقاعدہ لیبارٹری کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ایسٹرن میڈیسن کی ترقی اور بہتری کیلئے موئثر قانون سازی کی جانی چاہئے اور رجسٹریشن سرٹیفیکٹ بھی ڈگری ہولڈر کا ملنا چاہئے۔ایسٹرن میڈیسن کی ڈگری کرنے کے بعد ڈگری ہولڈرز کو ڈاکٹر آف ایسٹرن میڈیسن کا ٹائیٹل ملنا چاہئے تا کہ سٹوڈینٹس کے اعتماد میں اضافہ ہو اور پرقار پریکٹس کو یقینی بنایا جا سکے۔حکومت کو چاہئے کہ ایسٹرن میڈیسن کی ترقی کیلئے قانون سازی کرے کیونکہ ادویات کے قیمتی اجزاء باہر کے ممالک سے مہنگے داموں منگوانے کے بجائے ایسٹرن میڈیسن میں لوکل لیول پر حاصل کیے جا سکتے ہیں اور اسطرح ملکی معیشت میں بھی بہتری آ سکتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment