ہوم << حلم کیوں ضروری ہے - رومانہ گوندل

حلم کیوں ضروری ہے - رومانہ گوندل

حلم نا خوشگوار باتوں کو برداشت کرنا ، غصے کو پی جانا اور بدلے کی طاقت ہوتے ہوئے بھی بدلہ نہ لینے کا نام ہے۔ اپنے ذاتی مفاد یا بدلہ لینے کی طاقت نہ ہوتو برداشت کر جانا حلم نہیں ہے۔ حلم ، بردباری ، تحمل میرے اللہ کی خوبی ہے۔ وہ با اختیار ہے ۔ قدرت رکھنے والا ہے۔ اس نے انسان کو پیدا کیا۔ اسے زندگی گزارنے کے لیے ہر نعمت عطا کی، لیکن اربوں انسانوں میں سے گنتی کے لوگ ہیں جو اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ۔ ورنہ انسانوں کی اکثزیت اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا حق سمجھ کے استعمال کرتے ہیں لیکن دن رات اس کے ساتھ شرک کرتے ہیں، گناہ کرتے ہیں، لیکن وہ نعمتیں نہیں روکتا ، زندگی نہیں چھینتا، سا نسیس نہیں روکتا۔ اتنے حلم سے سب دیکھتا ہے کہ کرنے والوں کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ گناہ کر رہے ہیں ۔

وہ رب ہے اپنی تمام صفات کے ساتھ با اختیار اور ہمیشہ رہنے والا ہے ۔ کو ئی اس کا اقرار کرے یا نہ کرے اسے اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ اس کی ذات اور صفات ایک دائمی حقیقت ہیں ایک ایسی حقیقت جس کا اقرار ہر کسی کو کرنا ہی ہوتا ہے ، وہ تحمل سے دیکھتا رہے تو کوئی فرعون بن جائے۔ اپنی طاقت دکھائے تو اسے فرعون سے اپنی واحدنیت کا اقرار کروا لے۔ اس کی واحدنیت ، اس کی حاکمیت ایک سچائی ہے اور سچ کی یہ طاقت ہے کہ وہ بے نیاز کر دیتا ہے ۔ وہ اپنے بندوں کو بھی جب نوازتا ہے تو ان میں حلم اور بے نیازی ڈال دیتا ہے ۔ پھر وہ ہر مخالفت پہ لڑتے نہیں ہے بلکہ تحمل سے مسکرا کے سنتے ہیں ۔

اللہ اپنے بہترین بندوں کو یہ صفت عطا کرتا ہے۔ وہ اس سے بے نیاز ہو جاتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے جب لوگ ان کی خوبیوں کا اقرار کرتے ہیں۔ وہ درست ہونے پہ یقین کرتے ہیں ، کہلوانے پہ نہیں۔حلم کا معنی عقلمند اور شعور کے بھی کئے جاتے ہیں۔ یعنی انسان جب عقل مند اور با شعور ہو جاتا ہے تو وہ متحمل ہو جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم اللہ کے پیارے پیغمبر تھے۔ ایک وقت تھا جب ان کا اپنا باپ ان کے خلاف کھڑا تھا لیکن انہوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا اور آج دنیا کے سارے الہامی مذاہب کو ماننے والے حضرت ابراہیم کو پیغمبر مانتے ہیں۔ ان کے ماننے والے کئی ذیادہ ہیں سے جو کبھی ان کے خلاف کھڑے تھے ۔ علامہ اقبال نے شکو ہ لکھا ان پہ فتوے لگنے لگے لیکن انہوں نے جو سوچا تھا اس کا جواب ، جواب شکوہ میں دے دیا اور آج فتوی دینے والوں کی جگہ منبر پہ بیٹھ کے وہی شکوہ پڑھا جاتا ہے ۔ اور پڑھنے والے ان سے کئی ذیادہ ہیں جو فتوی لگانے والے تھے۔ اس لیے لوگوں کی باتوں کا اثر لینا چھوڑ دیں ۔ کوئی آپ کی خوبی کو نہیں مانتا، آپ کے خلوص سے کئے کام کو غلط رنگ دے دیتا ہے تو صبر کریں اور تسلی رکھیں. اگر وہ کام بہترین نیت سے تھا تو اللہ آپ کی تعریف کرنے والے لوگ مخالفت کرنے والوں سے زیا دہ لے آئے گا۔ دنیا میں ہر نا کام انسان غصے کا تیز ملے گا اور ہر کامیاب انسان تحمل مزاج۔ کسی تحمل مزاج کو دیکھیں تو سمجھ جائیں، اللہ کچھ عطا کرنے والا ہے۔ جب اللہ کسی کو بے نیاز کر تا ہے تو ہلکا ہو جاتا ہے اور اوپر اٹھنے لگتا ہے ۔

اطمینان رکھیں ، اور تحمل سے معاملات کو دیکھیں ۔ جن چیزوں کو انا کا مسئلہ بنا کے ہم اپنا بہت سا قیمتی وقت اور انرجی ضائع کر دیتے ہیں وہ ایک لمحے کی خاموشی سے ختم بھی ہو سکتا ہے۔ اپنی ذات کی برتری کے خول سے نکل آئیں ہم بھی انسان ہیں اور غلطی کر سکتے ہیں اور کبھی دوسرے ہمیں غلط بلا وجہ بھی سمجھ سکتے ہیں غصہ بھی آسکتا ہے لیکن تحمل سے کا م لیں یہ عروج کی پہلی اور اہم ترین سیڑھی ہے۔ تحمل مزاج انسان آخر کار عزت پا لیتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment