ہوم << نائٹ کلب کی روشنیوں میں - مولوی روکڑا

نائٹ کلب کی روشنیوں میں - مولوی روکڑا

گزشتہ ہفتے میرے دوستوں نے کلب جانے کا پروگرام بنایا، اور مجھے بھی ساتھ لے گئے ! ویسے تو کلب میں داخل ہونے کے لیے پاکستانیوں پر انٹری فیس ہے لیکن چونکہ میرا دوست ایک اسکول ٹیچر ہے اور کلب کے ایک مینیجر کے بچے اسی اسکول میں پڑھتے ہیں لہذا ہم بنا کسی فیس کے کلب میں داخل ہو گئے!
کلب میں داخل ہونے کے بعد کسی حسینہ سے پہلے پاکستان کی ایک نامور سیاسی شخصیت کا دیدار کیا، جو ان دنوں ہانگ کانگ آئی ہوئی تھی. آزادکشمیر میں ایک سیاسی جماعت کی انتخابی کمپین اس کے ذمے تھی مگر وہ یہاں حسینائوں کے جھرمٹ میں، ایک لمحے کو حیرانی ہوئی، اب آزادکشمیر میں الیکشن کے نتائج سامنے آئے ہیں تو ان کی شدت سے یاد آئی ہے. کلب کے اندر کسی کونے کی تلاش میں تھے کہ پاکستان کے معروف تجزیہ نگار و دانشور حسن نثار صاحب کی یاد آئی، جن کے بقول انہوں نے لاس اینجلس کے کلبوں میں بیٹھ کر کالم لکھے ہیں، اور ان کو کسی قسم کی بےحیائی محسوس نہیں ہوئی. میں نے کلب کے چاروں طرف نظر دوڑائی لیکن مجھے کوئی ایسی پرسکون جگہ نہیں ملی جہاں بیٹھ کر کالم لکھا جا سکے، اور نہ کوئی ایسا بندہ نظر آیا جو کلب تو آیا ہو لیکن کچھ لکھنے پڑھنے کا کام کر رہا ہو.
میرے مشاہدے کے مطابق کلب میں مردوں کی دل جوئی کے لیے دو تین قسم کی عورتیں پائی جاتی ہیں.
ایک وہ جسے انگلش میں ہور کہتے ہیں اور عام زبان میں طوائف. ان میں سے بیشتر لڑکیاں کسی مجبوری یا جبری طور پر کلب کی زینت بنی ہوتی ہیں. غلامی کا دور یہاں باقی ہے، وہ بھی بدترین شکل میں، یہاں سب سے زیادہ جنسی غلام یا سیکس سلیو ایشیائی لڑکیاں ہیں جنھیں دھوکے کے ساتھ دوسروں ملکوں میں سمگل بھی کیا جاتا ہے، اور ان سے زبردستی عصمت فروشی کا دھندہ بھی کروایا جاتا ہے ! ان لڑکیوں پر نظر رکھنے والے نہ صرف پڑھے لکھے ہوتے ہیں بلکہ اچھے خاص سوٹ بوٹ ڈریس میں کلب کے اندر موجود ہوتے ہیں اور کسٹمرز کو گھیرنے کےلیے نشاندہی بھی کرتے ہیں. کسٹمر گھیرنے کا طریقہ واردات ڈرنک سے شروع ہوتا ہے، کچھ صرف ڈرنک تک ہی محدود رہتے ہیں، جتنا زیادہ پینے پلانے میں کوئی لڑکی کسٹمر کو مگن رکھے گی، اسے اتنا زیادہ کمیشن ملے گا، ڈرنک جتنا زیادہ ہوگا، عصمت فروشی کا چانس اتنا بڑھ جائے گا اور اس کے الگ چارجز ہوتے ہیں !
دوسری قسم کی لڑکیاں یہاں صرف انجوائے کرنے آتی ہیں. ڈانس فلور میں کوئی بھی جا کر ڈانس کر سکتا ہے، ایسی لڑکیاں کمپنی دیتی ہیں. میں اور میرے دوست ایک طرف بیٹھے تھے کہ دو لڑکیاں پاس آ کر بیٹھ گئیں. ایک کہنے لگی ہم ٹورسٹ ہیں، میرے دوست نے ''نان الکوحلک'' ڈرنک آرڈر کیے. ایک لڑکی نے کہا مجھے بھی ڈرنک لے دو ، میں نے جواب دیا چونکہ میں نہیں پیتا اس لیے پلاتا بھی نہیں. جوس پینا ہے تو پلا دوں گا یا پھر کوئی نان الکوحلک ڈرنک ! اسی اثنا میں دوسری لڑکی میرے دوست کو کہنے لگی، اگر تم مجھ میں انٹرسٹڈ ہو تو میں دو ہزار ہانگ کانگ ڈالر لوں گی. میں یہ سن کر مسکرانے لگا. دوست نے لڑکی سے سوال کیا کہ تم ٹورسٹ ہو اور باتیں طوائف والی کر رہی ہو، تو جواب ملا میں وہ نہیں ہوں، بس انجوائمنٹ کے لیے کہہ رہی ہوں. کلبوں میں اس قسم کی انجوائمنٹ کرنے والی لڑکیاں بہت آتی ہیں جو پیشے کے لحاظ سے طوائف تو نہیں ہوتیں لیکن ان سے کم بھی نہیں ہوتیں. فرق بس یہ ہوتا ہے کہ ایک کے لیے اصطلاح طوائف ہے اور دوسری کے لیے آزاد خیال، روشن خیال. اس آزاد خیالی سے خیال آیا کہ اسی کے بیج پاکستان میں بونے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہ لڑکیاں تو رات کو بھی شائن کر سکتی ہیں. اب سٹینڈرڈ ڈائیلاگ تو نہیں چلے گا کہ لوگ کیا کہیں گے.
تیسری قسم میں وہ جوڑے آتے ہیں جن کے لیے ویلنٹائن کا دن بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے. آج کل کی اصطلاح میں جنھیں لو برڈز کہتے ہیں. اس کی تفصیل اور باقی باتیں اگلی نشست میں

Comments

Click here to post a comment