ہوم << آزاد کشمیر کے انتخابات اور مجموعی صورت حال - حمزہ صیاد

آزاد کشمیر کے انتخابات اور مجموعی صورت حال - حمزہ صیاد

آزاد کشمیر میں 21 جولائی الیکشن کا دن ہے۔ صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے۔ انتخابی مہم اپنے آخری مراحل میں ہے۔ مسلم لیگ نون کی پوزیشن اچھی ہےلیکن کوئی بھی جماعت اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس مضبوط ترین سیاسی جماعت رہی ہے۔ جس کے اس وقت چیئرمین مجاہد اول سردار عبد القیوم صاحب (مرحوم) کے فرزند عتیق خان صاحب ہیں۔ مجاہد اول کے بعد یہ جماعت بدترین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ راجہ فاروق حیدر اور سردار سکندر حیات کی سربراہی میں ایک فاروڈ بلاک بنا جس نے مسلم کانفرنس کو خیر باد کہہ دیا۔ نواز شریف صاحب نے موقع غنیمت جانا اور اس ناراض گروپ کو نون لیگ کی چھتری فراہم کردی۔ یوں میاں صاحب نے عتیق خان سے وہ بدلہ بھی چکایا جو میاں صاحب کی جلاوطنی میں عتیق خان نے کشمیر میں مشرف کا ساتھ دیا تھا اور ایک طاقت ور گروپ کو اپنے ساتھ شامل کر کے میاں صاحب نے کشمیر میں نون لیگ کی بنیاد بھی رکھ دی۔ اس وقت مسلم لیگ (ن) اچھی پوزیشن میں ہے جس کی بڑی وجہ پاکستان میں نون لیگ کا اقتدار میں ہونا ہے۔
کشمیر کی سیاست ہمیشہ سے پاکستان کی سیاست سے متاثر رہی ہے۔ تحریک انصاف نے مسلم کانفرنس سے اتحاد کرکے کشمیر کی سیاست میں دلچسپ صورت حال پیدا کردی ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کے اس اتحاد کی وجہ سے اب یہ دونوں جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے بعد دوسرے نمبر پر آرہی ہیں۔ اس اتحاد کی وجہ سے پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر چلی گئی ہے ورنہ انفرادی طور پر پیپلزپارٹی ددوسرے نمبر کی بڑی جماعت ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی مسلم لیگ (ن) سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر عبد الرشید ترابی صاحب کا تعلق ہمارے حلقہ وسطی باغ سے ہے جہاں وہ مسلم لیگ (ن) کے امیدوار معروف صحافی مشتاق منہاس صاحب کے حق میں بیٹھ چکے ہیں۔ ہمارے حلقے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کا بڑا زوردار مقابلہ ہے۔ ان تینوں میں سے کوئی بھی چند ووٹوں کے فرق سے جیت سکتا ہے۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کشمیر میں ایک سیٹ لے سکتی ہے جو جمعیت علماء اسلام آزاد کشمیر کے امیر سعید یوسف صاحب کی ضلع پلندری سے ہوگی۔ اسی طرح جموں کشمیر پیپلزپارٹی جو سردار ابراہیم خان (مرحوم) کی جماعت ہے وہ بھی ایک ہی سیٹ لے سکتی ہے جو ابراہیم خان( مرحوم ) کے بیٹے خالد ابراہیم صاحب کی ضلع راولاکوٹ سے ہوگی۔ ایم کیو ایم دو سیٹیں لے سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کم و بیش پندرہ سیٹیں لے سکتی ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی گیارہ سیٹیں لینے کی پوزیشن میں ہے۔ تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس تیرہ سیٹیں لے سکتی ہیں۔ حکومت مخلوط ہوگی ۔ پیپلز پارٹی اور نون لیگ مل کر حکومت بناسکتی ہیں۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ تحریک انصاف، مسلم کانفرنس، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم مل کر حکومت بنائیں۔ پیپلزپارٹی دونوں صورتوں میں اقتدار میں ہوگی۔ مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا مل کر حکومت بنانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

Comments

Click here to post a comment