ہوم << ترکی اور ایران میں فرق - فیض اللہ خان

ترکی اور ایران میں فرق - فیض اللہ خان

ستر کی دہائی کے آخر میں ایران میں عوامی احتجاج کے بعد اسلامی انقلاب کا اعلان کیا گیا۔ آیت اللہ خمینی اس انقلاب کے نمایاں راہبر تھے لیکن انقلاب کی نظریاتی تیاری ڈاکٹر علی شریعتی جیسے مایہ ناز انقلابی نے کی جو کہ فرقہ و مسالک کے جھنجھٹ و روایتی تعصب سے آزاد تھے۔ بدقسمتی سے انقلاب ملائیت کے ہاتھوں یرغمال ہوا اور ڈاکٹر شریعتی جیسے پس منظر میں چلے گئے۔۔۔
دنیائے اسلام میں اس انقلاب کو گہری دلچسپی سے دیکھا گیا۔ یہ جدید دور میں سیاسی اسلام کے نظریئے کی پہلی بڑی کا کامیابی تھی۔اس انقلاب سے اسلامی ممالک میں قائم بادشاہت و آمریت کو بیک وقت خطرہ محسوس ہوا۔۔۔
پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس انقلاب کی مکمل حمایت کی۔ یہاں تک کے جماعت اسلامی کے کارکن اس انقلاب کے سحر میں کھوگئے۔ مجالس میں اس کے حوالے دئیے جانے لگے۔ خمینی صاحب نے جس طرح امریکا کو للکارا اور القدس کے معاملے پہ جس طرح کی نمایندگی کی، اس نے بہت سے سنی مسلمانوں کے دل جیت لیے۔۔۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہی تھا لیکن ایرانیوں کا ایک بڑا مسئلہ نسلی تفاخر اور فرقہ وارانہ ذہنیت تھی جس سے متاثر ہوکر پاکستان جیسے سنی اکثریتی ملک میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ جنرل ضیاء کے زمانے میں زکوٰۃ کے معاملے پہ احتجاج اور اسلام آباد میں سول سیکرٹیریٹ پہ قبضے نے ریاست کے کان کھڑے کردئیے۔۔۔
شاید یہی لمحہ تھا جب سعودی عرب نے اس جنگ کے واسطے پاکستان کو مناسب میدان جانا، اس دوران سپاہ صحابہ بنی جس کے بانی حق نواز جھنگوی نے اہل تشیع کے خلاف بھرپور مہم چلائی۔ ان دنوں ملک کے مقبول ترین نعروں سے ایک اہل تشیع کے خلاف تھا۔۔۔
یہ کہانی طویل ہوئی۔ اختلاف دشمنی میں تبدیل ہوا تو علامہ حق نواز جھنگوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور علامہ عارف الحسینی اس کی نذر ہوئے۔ پھر لشکر جھنگوی و سپاہ محمد وجود میں آئے۔ باقی تاریخ ہے کیا گناہ گار اور کیا بےگناہ سبھی اس الاؤ کا ایندھن بنے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔۔۔۔
دوبارہ رخ کرتے ہیں ایران کا، ایران کو قدرت نے بڑا زبردست موقع فراہم کیا۔ ہمارے خطے میں پہلے ہی سے اس کے ثقافتی اثرات تھے۔ فارسی سے محبت ہمارے خون میں شامل تھی۔ ایسے میں جب ایران میں اسلامی انقلاب کی بات ہوئی تو پاکستانیوں کی اکثریت نے نہ صرف اس کی تائید کی بلکہ اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ایک خمینی پاکستان کو بھی درکار ہے۔۔۔
لیکن معاملہ تب خراب ہوا جب ڈاکٹر علی شریعتی جیسے راہنمائوں کے پیچھے ہٹنے کے بعد انقلاب کی زمام کار آیت اللہ خمینی سمیت ملائیت کے علمبرداروں کے ہاتھ آگئی۔ اسلامی انقلاب شیعہ انقلاب میں تبدیل ہوا اور رفتہ رفتہ یہ فرقے کی جنگ بن گئی۔۔۔
یہی وہ مرحلہ تھا جب ایران کی حمایت کرنے والی جماعت اسلامی بھی اپنی پالیسی میں خاموشی سے تبدیلی لائی اور ایرانی انقلاب کے سحر سے باہر نکل گئی۔ ایران و سعودی عرب سے شروع ہونے والی فرقہ پرستی کی اس لہر نے امت کو شدید نقصان پہنچایا اور اس صورتحال کا تاحال موثر تدارک نظر نہیں آرہا۔۔۔
ایران نے امت مسلمہ کی قیادت کا سنہرا موقع اپنے ہاتھوں خود گنوایا ہے۔ اگر انقلابی صدیوں سے موجود اختلافات کو کم کرنے پہ توجہ دیتے مقدس شخصیات کے حوالے سے موثر اقدامات اٹھاتے تو غنیمت تھا بدقسمتی ایسا ہو نہ سکا اور جب افغانستان، شام، لبنان، بحرین، یمن اور عراق میں ایران نے فرقہ وارانہ پالیسیوں کی ترویج کی تو سنی بلاک چاہتے یا نہ چاہتے سعودی اتحاد میں شامل ہوا اور یوں فارس و عرب کی قدیم لڑائی کو فرقے کا تڑکا بھی لگ گیا۔۔۔ سعودی حکمرانوں کے لیے اس سے زیادہ نادر موقع دوسرا نہیں تھا کیونکہ اس کے بدترین سیاسی مخالفت بھی پھر اسی کے کیمپ میں کھڑے تھے اور یہ سب ممکن ہوا ایران کی جارحانہ پالیسیوں کے سبب۔۔۔
ایران کو پاکستان میں ایسے دوست میسر آئے جن کی موجودگی میں کسی سپاہ صحابہ یا لشکر جھنگوی کی ضرورت نہیں وہ خود ہی اپنے لیے کافی ثابت ہورہے ہیں۔
ایک دور میں پاکستان میں صرف روایتی مذہبی طبقہ ایران مخالف تھا، اب ہر شعبہ ہائے زندگی میں اس کا اثر نظر آتا ہے۔۔۔
اس کی ایک مثال موٹر وے پولیس کے سابق اعلی افسر ذوالفقار چیمہ کی ایران یاترا اور پھر ایکسپریس اخبار میں لکھے جانے والے ان کے کالمز ہیں جن میں ایسے ہی مسائل پہ بات کی گئی ہے۔۔۔ شام کے معاملے میں ایران کی بدترین مداخلت اور ابتدا میں عوامی احتجاج کو کچلنے کی بشار کی ظالمانہ پالیسیوں کی حمایت اور بعد میں باقاعدہ حزب اللہ پاسدارن انقلاب اور الحشد الشعبی کی جنگ میں شمولیت نے ایران کے حوالے سے معتدل طبقے کو اس سے بہت دور کردیا اور اب واضح طور پر اسلامی ممالک کی فرقہ وارنہ تقسیم کی ذمہ داری سعودی عرب و ایران پہ ڈالی جارہی ہے۔ سنجیدہ پڑھا لکھا مسلمان انہی دونوں کو قصور وار سمجھتا ہے، البتہ ماضی میں توپوں کا رُخ عموماً سعودی عرب کی جانب ہوا کرتا تھا۔۔۔
اس ساری صورتحال میں ترکی، قطر اور سعوی عرب خاموش نہیں رہے۔ انہوں نے احرار الشام جیش اسلامی وغیرہ کی مدد شروع کردی اور یہ الزامات بھی لگے کہ ترک و سعودی دولت اسلامیہ و جبھتہ النصرہ کی حمایت کر رہے ہیں لیکن ان الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا، البتہ دیگر تنظیموں کی کھل کر مدد کی گئی۔۔۔
اب آتے ہیں ترکی کی طرف، سچی بات تو یہ ہے کہ آزادی سے قبل بھی مسلمانان ہند ترکوں سے شدید محبت کیا کرتے تھے۔ خلافت تحریک کی مشہور نظم کسے یاد نہیں؟ جس میں بی اماں کہتی ہیں کہ بولی اماں محمد علی کی کہ بیٹا جان خلافت پہ دیدو۔۔۔۔
ترکوں کی ہم سے محبت کا ایک بڑا سبب یہی ہے۔ برصغیر کے عوام جحاز مقدس کی نسبت افغانوں ترکوں اور ایرانیوں سے زیادہ قربت رکھتے تھے، البتہ مکہ، مدینہ کی وجہ سے سعودی عرب کو ہمیشہ خاص طرح کی تقدیس حاصل رہی ۔۔۔
ترکی میں قیادت فوجی رہی ہو یا سیاسی، پاکستان ان کے لیے ہمیشہ دوست ملک ہی رہا۔ یہی رویہ ہمارا بھی تھا۔۔۔
ایسی صورتحال میں جب نجم الدین اربکان نے اقتدار کی باگ دوڑ سنبھالی تو پاکستان میں جماعت اسلامی نے اس کا بھرپور خیر مقدم کیا۔ اربکان نے قاضی حسین احمد کو ترکی آنے کی دعوت دی اور وہاں کے ایک اسٹیڈیم میں ان کا اس وقت شاندار استقبال کیا گیا جب قاضی و اربکان ایک جیپ میں سوار ہوکر میدان کا چکر لگا رہے تھے اسی طرح کا ایک استقبال اسی کی دھائی میں گلبدین حکمت یار کا بھی کیا گیا تھا۔۔۔
ترکوں کی اچھی بات یہ تھی کہ سعودی عرب و ایران کی طرح انہوں نے اپنا مذہبی ایجنڈا کبھی پاکستانیوں پہ مسلط کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی بلکہ حقیقی برادرانہ بے غرض قسم کے مراسم قائم کیے۔۔۔
حالات بدلے اور جب اردگان نے اقتدار سنبھالا تو نہ صرف جماعت اسلامی بلکہ اخوان، سلفیوں اور دیو بندیوں نے اس کی بھرپور حمایت کی اور مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھا۔۔۔
اردگان نے پہلے مرحلے میں ترکی میں صحت تعلیم، معیشت کے میدان میں فتح کے جھنڈے گاڑے، اس کے بعد مصر فلسطین شام و برما پہ وہ مؤقف اختیار کیا جس کی امت مسلمہ اپنے حکمرانوں سے توقع رکھتی تھی اور اردگان نے صرف باتیں نہیں کیں بلکہ شام غزہ برما اور پاکستان کی مختلف شعبوں میں مدد بھی کی ۔۔۔
حالیہ بغاوت والے معاملے پہ اردگان کی حمایت کی وجہ بھی یہی تھی، لیکن بدقسمتی سے کچھ فرقہ پرست اور انہی سے متاثرہ لبرلز اسے دوسرا رنگ دے رہے ہیں۔۔۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اردگان انسان ہے اور خطائوں سے پاک نہیں، مگر امت مسلمہ کو میسر لیڈرز کی کھیپ میں اردگان نعمت ہے ۔۔۔
رہے وہ لوگ، جن کا خیال ہے کہ یہ ترکی و سعودی عرب کی حمایت ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ہمارے جگر میں امت کا درد ہے اب اگر کانٹا شام، افغانستان، فلسطین، کشمیر، برما، مصر، ترکی، عراق، بوسنیا میں چبھے یا ایران میں، ہمیں اس کی تکلیف محسوس ہوتی ہے اور اسی کو امت کہتے ہیں ۔۔۔
کاش آپ آل سعود و فارس سے بالاتر ہوکر بھی سوچیں۔۔۔ ہر وقت فرقہ فرقہ کھیلنا امت کے لیے مضر ہے۔