ہوم << کامیاب ترکوں پر ناکام ترکتازیاں - حافظ یوسف سراج

کامیاب ترکوں پر ناکام ترکتازیاں - حافظ یوسف سراج

13006698_1120626147982743_4328716347595490718_nطیب اردوان کی کامیابی پر یاروں کے پیچ و تاب کھاتے تبصرے پڑھ رہا تھا کہ بڑا دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ اس کالم کے قارئین جان ہی گئے ہوں گے کہ اس خاکسا رکی کچھ دلچسپیاں مذہب اورمذہبی امور سے بھی متعلق ہیں ۔انھی دلچسپیوں کی تسکین کے لیے ضروریاتِ زندگی کے ساتھ ساتھ مذہبی چیزیں دیکھنے کا بھی اتفاق ہو جاتا ہے۔ کافی سال ہوئے ، کسی دوست نے ایک مناظرے کا ویڈیو کیسٹ لا تھمایا۔یہ مناظرہ دو مسلکوں کے دو جید مناظرین اسلام کے درمیان واقع ہوا تھا۔ یہ مناظرہ بڑا دلچسپ ثابت ہوا۔ دلائل کے علاوہ بھی اس میں عقل والوں کے لیے دلائل تھے ۔ ایک مناظرکا رنگ نرالا تھا۔ وہ دلائل میں کمزورپڑتا بھی تو فی الفور ایسی عقلی قلابازی کھا جاتاجو ٹیکنیکلی اور علمی اعتبار سے غلط ہوتے ہوئے بھی عوام کے لیے بڑی معرکے کی چیز ہوتی۔ مثلا آپ اندازہ کیجیے کہ بات آگئی ایک حدیث کی صحت پر۔ ان صاحب نے ان کی پیش کردہ حدیث کوضعیف کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا۔ مقابل نے کہا کہ میری پیش کردہ حدیث صحیح ہے اور اسے فن حدیث کے فلاں فلاں جید اماموں نے صحیح قرار دیا ہے۔ انھوں نے حدیث کوصحیح قرار دینے والے فنِ رجال کے ماہرین کے نام اور حوالے بھی گوش گزار کردیے۔اب گیند ان مولانا صاحب کے کورٹ میں تھی اور بظاہر ان کے پاس کوئی جواب باقی نہیں بچا تھا، لیکن وہ گھبرانے یا ہار ماننے والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔ فی الفور انھوں نے ایک عجیب و غریب مطالبہ داغ دیا۔ کہنے لگے کہ اگر اس حدیث کو فنِ حدیث کے اماموں نے صحیح کہا تو یہ تو کوئی خاص تقویت والی بات نہیں۔ آخر وہ بھی ہماری طرح انسان ہی ہیں ، خطا کے پتلے۔ صاحب ! ہم تو صرف اسی حدیث کو صحیح مانیں گے، جسے سب سے پہلے تو خود اللہ تعالیٰ نے صحیح کہا ہو اور پھر اللہ کے رسول نے براہ راست اور بذاتِ خود صحیح کہا ہو۔ مقابل مولانا تو اس جراتِ رندانہ پر دنگ رہ گئے جبکہ سادہ لوح عوام خوش ہوگئے کہ واقعی صحیح تو وہی ہے ، جسے اللہ اور اس کے رسول صحیح کہیں ۔ کون غور کرنے کی زحمت اٹھاتا کہ اللہ رسول تو فرمایا ہی کرتے ہیں ، محدث کے ساتھ بیٹھ کے حدیث پر حکم نہیں لگایا کرتے۔ بہر حال یہ ایسی دھاندلی تھی کہ جس کا عوام نوٹس نہیں لے سکتے تھے۔
کچھ ایسا ہی حال اردوان کی حکومت بچ جانے پر یار لوگوں کے دلائل کا ہے۔ یاد ش بخیر ، کچھ ہی دن ہوئے ، پاکستان میں ایک سروے کا نتیجہ اخبارات میں چھپا کہ زیادہ تر پاکستانی یہاں اسلام کے تحت نظام حکومت دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ یار لوگوں کی طرف سے اس پر خوب طنز کے تیر برسائے گئے ۔ کہا گیا کہ ذرا خود باہر نکل کے قوم کو دیکھا جائے کہ وہ عملا کتنا اسلام چاہتے ہیں۔ گرلز کالج دیکھے جائیں کہ کتنی خواتین حجاب کرتی ہیں۔ قصہ کوتاہ حسب ِ غصہ و ضرورت دوردراز کی کوڑیا ں لائی گئیں اور یوں ان خیالی باتوں سے ایک باقاعدہ سروے کی محنت پر اپنی خواہشات کا پانی پھیرنے کی کوشش فرمائی گئی۔ 750x-1لیکن اب جب ترکی میں کسی سروے وغیرہ کے بجائے ایک بالکل سامنے نظر آتے عوامی مظاہر ے نے ناجائز طاقت کے ٹینک پسپا کر دیے تو اسے دھندلانے کے لیے واشنگٹن پوسٹ کی ردی سے خبریں ڈھونڈی جانے لگی ہیں۔ یہ بھی عجب ہی صحافت و سچائی ہے ، یعنی جب سچائی خبر میں ہو تو عوام کے نام پر جان چھڑا لی جائے اور جب عوام کا فیصلہ دیکھنا پڑے تو اخبارکی سیاہی کی اوٹ میں منہ دے لیا جائے۔ اس پٹی ہوئی روش پر ایک پامال شعر کے علاوہ بندہ بھلا کیا پیش کرے ؎
خرد کا نام جنوں پڑ گیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز(باز) کرے
کہا گیا کہ اردوان کی طرف سے یہ ایک منظم خود ساختہ منصوبہ تھا۔ اس پر ایک دوست نے برجستہ کہا کہ بجا، گویا اتنا توآپ نے مانا کہ تمھارے وہ بے چارے، دقیانوسیت کے مارے، زمانے سے کٹے اور جادہ ٔترقی سے ہٹے، وہ دور افتادہ اور تمھارے علم سے پیادہ اسلامسٹ بھی اس قابل تو ہوئے کہ وہ سارے عالمی نظام جاسوسی، سائنسی ترقی میں طاق سیکولر اپوزیشن اور قیامت کی نظر رکھنے والی طاقتوں کی آنکھوں میں دھول توجھونک سکے۔
یہاں تک تو پہنچے، یہاں تک تو آئے
اگر یوں ہے تو پھر کم از کم تمھارے نزدیک تو یہ پسپا انقلاب سے بھی بڑی خبر ہونی چاہیے۔ ہمارے نزدیک تو تمھارا یہ الزام و دشنام بھی کامرانی کے کسی نامہ و پیام سے کم نہیں ؎
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بھی بے مزہ نہ ہوا
حق تو یہ ہے کہ طیب اردوان کی یہ کامیابی معمولی نہیں۔ یہ اس صدی کا سیاسی معجزہ ہے۔ محبت کا وہ طوفانِ نوح کہ عام لوگ کسی سربراہِ مملکت کی خاطر اپنے پھول سےگداز بدنوں کا فرش ٹینکوں 3855کے قاتل پہیوں تلے بے دریغ بچھا دیں اور ایک آواز پر بچھا دیں ؎
درِ مضمون کوئی یوں باندھ لے اے شاد مشکل ہے
سلیقہ انتہا کا چاہیے موتی پرونے میں
ایسے کٹھن مرحلے پر دی گئی ایک آواز پر تو جان دینے کو اپنا مقصدتخلیق سمجھنے والی عشاق کی مخلوق کسی کافر ادا حسینہ کے لیے بھی نہیں نکلتی۔ حضور! یہ اخلاص و محبت اور خدمت و تعلق کاا ک سادہ سا تاریخ ساز واقعہ ہے، بہانے بہانے سے اس چمکتے دن کو رات کہنے اور واقعہ کو افسانہ کر دکھانے سے بھلا آپ کس احمق کو مطمئن کر پائیں گے؟ ایسی دقیانوسی عادتیں بس شاعر پیشہ لوگوں ہی کو بھلی لگتی ہیں، یعنی ؎
تیرے کوچے ہر بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا ، کبھی اس سے بات کرنا
مانا یہ کوچہ وہ ہے کہ جہاں رات کیے بنا آپ کو چین نہیں آتا مگر یہ بھی مان لینے ہی کی چیز ہے حضور! کہ اس اسلام پسند شخص نے کہ نام جس کا رجب طیب اردوان ہے، اپنی قوم پر خدمت کا کوئی طلسم پھونکا ضرور ہے اور ایسے طلسمی لوگوں کو نہیں، سازش کی ضرورت ان لوگوں کو ہوتی ہے جن کی جڑیں زمیں میں نہ ہوں۔
دم آخر:
برادرم رعایت اللہ فاروقی صاحب نے ان موازنوں کی بات کی جو اس حوالے سے میاں صاحب اور اردوان میں ہو رہے ہیں۔ آنجناب نے فرمایا کہ یہ موازنہ اس لیے بھی غلط ہے کہ میاں صاحب کے تین سالوں کو اردوان کے کوئی پندرہ سالوں کے مقابل رکھا جا رہا ہے۔ جی ہاں بالکل ! اور یہ موازنہ اس لیے بھی خام ہے کہ لکشمی کے کھابوں اور اسحاق ڈار صاحب کے بہی کھاتوں کے شائق میاں صاحب کیا جانیں کہ قومی نشریات پر فوجی قبضے کے بعد آئی فون نامی کسی اللہ ماری مخلوق کی کسی نگوڑی ایپلی کیشن سے بھی قوم کو مخاطب کیا جا سکتا ہے

Comments

Click here to post a comment

  • دنیا کو جس فساد جدید میں دکھیلنے کی کوشش کی گئی اللہ کی مرضی سے اس سازش کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
    کامیاب سیاست دان مشکل اوقات میں بھی قوم کی توجہ و حمایت کا کارنامہ سرانجام دے سکتے ہیں اور ناکام سیاست دان پانامہ نامی کارناموں کی چھاؤں میں سو جایا کرتے ہیں ۔ طارق نورالهى