ہوم << ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے - محمد دین جوہر

ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے - محمد دین جوہر

Turkish soldiers secure Istanbul's Taksim square, as supporters of Turkey's President Recep Tayyip Erdogan, protest in Istanbul's Taksim square, early Saturday, July 16, 2016. Turkey's prime minister says a group within Turkey's military has engaged in what appeared to be an attempted coup. Binali Yildirim told NTV television: "it is correct that there was an attempt." (AP Photo/Emrah Gurel)

15/ جولائی کو ترکی میں جو افسوسناک بغاوت ہوئی، ہمارے ہاں بھی اس پر گفتگو جاری ہے۔ اسے عام طور پر ترکی کے اندر سول ملٹری کشمکش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے، جس کے پس پردہ سیکولرزم اور اسلام کی کشمکش کارفرما دکھائی جا رہی ہے۔ گزارش ہے کہ اس اہم اور دور رس اثرات کے حامل واقعے کو ایک فکری تناظر فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ عالمی صورت حال کی درست تفہیم بھی ممکن ہو سکے۔ اس میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا یہ محض ایک ناکام فوجی بغاوت تھی یا regime change کی ناکام کوشش تھی؟
آج کل regime change کی اصطلاح صحافت، سفارتکاری اور سیاسی علوم میں عام ہے۔ اس سے مراد تیسری یا مسلم دنیا میں کسی ملک کے حکمران یا حکومت وغیرہ کی جبری اور استعماری ترجیحات پر تبدیلی نہیں ہے۔ اس سے مراد اس ملک کے حکمران، سیاسی حکومت، سیاسی تنظیم اور پورے ریاستی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کر کے معاشرے کو بھی جڑ سے اکھاڑنا ہے تاکہ وہاں معمول کی انسانی زندگی کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہے۔ بیسویں صدی کے آخر تک امریکی اور مغربی استعماری قوتیں کمزور ملکوں میں حکمران تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز سے استعمار کی عالمی پالیسی میں بہت بنیادی تبدیلی آئی ہے۔ اب ان کا مقصد صرف ناپسندیدہ حکمران کی تبدیلی تک محدود نہیں ہے، بلکہ ملک، ریاست اور معاشرے کو ادھیڑنے اور جڑوں سے اکھاڑنے تک پھیل گیا ہے۔ اس کا پہلا کامیاب تجربہ افغانستان میں کیا گیا اور جو اب تک کئی مسلمان ملکوں میں کامیابی سے دہرایا جا چکا ہے۔ ناپسندیدہ حکمران کی تبدیلی اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب وہ کمزور ہو یا عالمی مفادات میں غیر اہم ہو گیا ہو۔ regime change اس وقت عمل میں لائی جاتی ہے جب استعمار کو یقین ہو کہ وہ ملک اور معاشرے کو جڑ تک اکھاڑ سکے گا۔ ترکی کے موجودہ حالات میں بغاوت کا مقصد عراق اور شام کی طرح ترک ریاست اور معاشرے کو ملبے کا ڈھیر بنانے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، تاکہ علاقے میں امریکی اور یورپی ایجنڈے میں رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے جن میں سب سے بڑی اردگان کی آزاد خارجہ پالیسی اور ترکی کی معاشی ترقی تھی۔
گزشتہ پندرہ سال میں امریکہ نے افغانستان، عراق، لیبیا، یمن، لبنان، شام اور صومالیہ وغیرہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے اور ان ”ملکوں“ میں معمول کی انسانی زندگی کا کوئی تصور بھی باقی نہیں رہا۔ regime change کا مطلب ہے کسی ملک کو stone age میں پہنچانا۔ 2001ء میں پاکستان کو بھی یہی دھمکی دی گئی تھی اور بعد میں زیردست یہی ایجنڈا آگے بڑھایا گیا۔ اگر ملک، ریاست اور معاشرہ ہی کھدیڑ دیا جائے اور وہاں معمول کی زندگی کا تصور بھی باقی نہ رہے تو بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر بھی وہاں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس طرح استعماری مخالفت کا قصہ ہی پاک ہو جاتا ہے اور وسائل کی لوٹ مار وسیع پیمانے پر ممکن ہو جاتی ہے۔ افسوس کہ ہماری شراٹے دار، دخانی اور متعفن صحافت اور علوم میں نہ کچھ سنائی دیتا ہے، نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سجھائی دیتا ہے۔ امریکہ اور یورپ ترکی میں اردگان کی حکومت سے سخت ناخوش اور نالاں تھے۔ ترک فوجی بغاوت کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دراصل regime change اکیسویں صدی میں بھرپور طریقے سے سامنے آنے والی استعمار کی نئی اور جدید جنگی حکمت عملی کا اظہار بھی ہے۔ پرانی جنگی حکمت عملی total war کے تصور پر مبنی یا اس سے ماخوذ رہی ہے۔ اب جنگی حکمت عملی کی بنیاد Hybrid War Doctrine پر ہے اور regime change اس کا براہ راست مظہر ہے۔ اس حکمت عملی کا مقصد صرف فوج کو شکست دینا نہیں ہے، بلکہ ایک معاشرہ اور ملک جن وسائل کو بروئے کار لا کر اپنی فوج اور ریاست تشکیل دیتا ہے، ان معاشی، انتظامی اور انسانی وسائل کا مکمل خاتمہ ہے۔ فوجی گاڑی کے ٹائر میں ہوا بھرنے کے لیے بھی تھوڑی بہت ہنرمندی چاہیے ہوتی ہے اور اس نئی جنگی حکمت عملی کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کو اس طرح کا بنا دیا جائے کہ وہاں یہ ہنر رکھنے والا بھی باقی نہ رہے۔ اگر میونسپلٹی چلانے کے انتظامی صلاحیت کی ضرورت ہے تو معاشرے کی حالت ایسی کر دی جائے کہ ایسا آدمی بھی ناپید ہو جائے۔ اس لیے اس جنگی حکمت عملی میں تعلیمی اداروں سے لے کر ریاست اور فوج کے تمام اداروں کی مکمل تباہی شامل ہے۔ یہ انسانی معاشروں کو ایک ریوڑ میں تبدیل کر دینے کی حکمت عملی ہے اور معاشرے اور ریاست کا ہر فعال حصہ اس جنگ کا لازمی ہدف ہے۔
یہ بات اب ہر کسی کے علم میں ہے کہ امریکی استعمار عالمی سطح پر ایک ایک فرد اور چھوٹی سے چھوٹی تنظیم پر نظر رکھنے کی صلاحیت پیدا کر چکا ہے۔ پھر اس صلاحیت کو عملی جامہ پہنانے کی فوجی قوت اور پہنچ بھی بلا روک ٹوک رکھتا ہے۔ ایسی صورت حال میں قومی اور علاقائی واقعات کو صرف داخلی سول ملٹری تناظر میں دیکھنا نہ صرف درست نہیں بلکہ شدید بددیانتی ہے۔ اب یہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ترکی کے داخلی حالات میں مسائل تو یقیناً تھے، اور وہ کس ملک اور معاشرے میں نہیں ہوتے۔ لیکن فوجی بغاوت کے اسباب موجود نہیں تھے۔ اس کے اسباب سو فیصد خارجی تھے۔ پورے یورپ میں اردگان کے خلاف تضحیک اور استہزا کی مہم مستقل طور پر چلتی رہتی ہے۔ پناہ گزینوں کے مسئلے پر پورا یورپ ترکی کے خلاف ہم آواز تھا اور اس پر جو معاہدہ ہوا اس پر بھی ان کو بڑی تکلیف ہے کیونکہ یہ مفت میں نہیں ہوا۔ ابھی حال ہی میں ترکی کے خلاف ارمنی نسل کشی کی جرمن قرارداد منظور ہوئی۔ کردوں اور شام کی خانہ جنگی کے حوالے سے ترک امریکی سخت اختلافات بھی معلوم ہیں۔ نام نہاد سیکولرسٹوں اور امریکہ نواز ترک اسلام پسندوں کی عین جمہوری شرائط پر اردوگان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست بھی امریکہ کو منظور نہیں تھی۔ اگرچہ ترکی سیاسی اور معاشی طور پر مغربی سیکولر اقدار پر کاربند ہے، لیکن وہاں عمومی مسلم معاشرے کی سماجی اور مذہبی اقدار کی واپسی کا آغاز ہو چکا تھا، اور یہ بات امریکہ اور یورپ کے لیے سخت ناگوار تھی۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ ترکی کو شام بنانے میں امریکی اور یورپی دلچسپی اب جنون میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور یہ بغاوت اسی کا اظہار ہے۔
اگر سیاسی طاقت اور مہا سرمائے میں قومی مقاصد کی ہم آہنگی نہ پائی جائے تو ملک بہت جلد بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔ ترکی میں میڈیا کا بڑا حصہ بدترین غدار گلین کے حواریوں کے پاس تھا۔ بدترین غدار گلین کے امریکہ میں ترک چارٹر اسکولوں میں گزشتہ کئی دہائیوں میں اسلام کے جھانسے میں تیار ہونے والی ایک پوری کی پوری نسل پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی پر قابض تھی اور فوج میں بھی ان کی خاطر خواہ موجودگی تھی۔ بدترین غدار گلین سعید نورسیؒ کی صوفی تحریک کا پیروکار تھا اور اپنے مرشد کی رسوائی کا بھی باعث بنا۔ بعد ازاں، اس نے سیکولرزم اور صوفی اسلام کا ایک ملغوبہ تیار کر لیا تھا، جو جدیدیت پسند، اور شدت کے ساتھ اسرائیل اور امریکہ نواز تھا۔ بدترین غدار گلین کا اسلامی پیکج جدید تعلیم یافتہ متوسط اور خوشحال طبقے میں بہت مقبول تھا، لیکن عوام میں اس کی کوئی پذیرائی نہ تھی، جبکہ اردوگان کی پارٹی عوام میں جڑیں رکھتی تھی۔ بدترین غدار گلین کے پیروکار اسلام اور امریکہ سے یکساں ہمدردی رکھتے تھے، اور ترکی سے زیادہ اس کے تابع فرمان تھے۔ سب سے اہم بات یہ کہ ترکی میں مہا سرمائے کے بڑے مالکان بدترین غدار گلین کے ہمنوا تھے اور اس کے اشارے پر اور امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے وسائل اردوگان کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ جب 2013ء میں اردوگان اور بدترین غدار گلین میں اختلاف ہوا تو اردوگان نے پس پردہ اس کے حل کی ہر ممکن کوشش کی اور کہا کہ اس اختلاف کو پبلک میں نہ لایا جائے، لیکن اسے ناکامی ہوئی۔ اس کے بعد بدترین غدار گلین کی حزمت تحریک نے سیکولر طبقے اور علویوں کے ساتھ مل کر اردوگان کے خلاف کام شروع کیا۔ اب تک اردوگان پولیس، میڈیا اور کسی حد تک عدلیہ میں ان کی تطہیر کر چکا تھا۔ خوش قسمتی سے بدترین غدار گلین کے مہا سرمائے کو بھی اردوگان بے اثر کرنے میں کامیاب ہو چکا تھا، اور اگلا مرحلہ فوج کی تطہیر تھی جو چند ہفتوں میں شروع ہونے والی تھی کہ یہ بغاوت پھوٹ پڑی۔
اگر اس موقع پر الطاف حسین کے برطانیہ میں قیام اور بدترین غدار گلین کی امریکہ میں موجودگی کو پیش نظر رکھا جائے تو منظرنامہ اور واضح ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی یا مذہبی لیڈر عوام میں جڑیں رکھتا ہو، ان پر اثرانداز ہو سکتا ہو، اور قومی طاقت کے نظام کے حدود و قیود سے باہر ہو، تو اس سے یہ ہرگز مراد نہیں ہوتا کہ وہ طاقت کے کسی نظام کا حصہ نہیں ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ ایسا لیڈر لازمی طور پر طاقت کے ایسے نظام کا حصہ ہوتا ہے جو قوم و ملک سے باہر قائم ہوتا ہے۔ بڑی سماجی اور سیاسی حیثیت کو طاقت کے نظام سے لاتعلقی میں برقرار رکھنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ الطاف حسین اور بدترین غدار گلین طاقت کے ایسے نظام کا حصہ ہیں جس کی ترجیحات اور مقاصد ان کے اپنے ملکوں سے قطعی مختلف اور متضاد ہیں۔ یہ کوئی نظری بات نہیں، واقعات میں ظاہر ہے۔
ترکی میں ہونے واقعات کا منبع صرف داخلی صورت حال میں تلاش کرنا نہایت نادانی اور بےخبری کی بات ہے۔ امریکہ اور یورپ ایسی جمہوریت کو قبول کرنے کے لیے تو بدل و جان تیار رہتے ہے جس کے سیاسی اور ثقافتی مظاہر مسلم معاشرے کی عین ضد ہوں، اور جس سے عوام کے معاشی استحصال اور سیکولرائزیشن کا عمل آگے بڑھ سکے۔ لیکن ایسی جمہوریت جس سے مسلم معاشرے میں معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور عسکری قوت پیدا ہو، وہ ان کے لیے تشنج کے دورے کا باعث ہو جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی مثال کی بھی ضرورت نہیں۔ ترکی کی اس بغاوت کے تقریباً سارے اسباب عالمی طاقت کے نظام میں دیکھے جا سکتے ہیں، جس میں بدترین غدار گلین اور اس کی حزمت تحریک صرف ایک مہرے کا کام کر رہی تھی۔
ترک بغاوت کی منصوبہ بندی سے صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ باغی 1973ء میں چلی کے خونیں فوجی انقلاب کو ماڈل کے طور پر استعمال کر رہے تھے، اور اس دفعہ ان کے عزائم بہت زیادہ خطرناک تھے۔ ان کی جنگی کاروائیوں اور خونریزی سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ لوگ پورے ملک اور معاشرے کا ملبہ بنانے کی تیاری کر کے آئے تھے۔ جب ایک بار باغی ملک کا ملبہ بنا لیتے ہیں تو ملبہ سازی کا دوسرا مرحلہ استعماری طاقیتں خود شروع کرتی ہیں، جیسا کہ لیبیا میں ہوا۔ اس بغاوت کا مقصد واضح طور پر ترکی کو شام اور عراق کی حالت تک پہنچانا تھا۔ یہ بغاوت محض پہلا رؤانڈ تھا، اصل کہانی اس کے بعد شروع ہونے والی تھی۔ ان مقاصد کا اندازہ ان تجزیوں کے مطالعے سے بخوبی ہو جاتا ہے جو ناکام بغاوت کے بعد مغربی میڈیا میں شائع ہوئے۔ باغیوں کا مقصد صرف اردگان کو ہٹانا نہیں تھا۔ یہ باقاعدہ regime change کا منصوبہ تھا، جو ناکام ہو گیا۔ ایسا منصوبہ پینسلوانیہ کی رینچ میں بیٹھ کر تیار نہیں ہوا کرتا۔ اس کے لیے کسی بڑے ”دست شفقت“ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے لاطینی امریکہ، افریقہ اور مسلم دنیا کی مقہور عوام بہت خوب واقف ہیں۔
میری ناچیز رائے میں بغاوت کی ناکامی کے باوجود کئی استعماری مقاصد تو فوری طور پر حاصل ہو گئے ہیں۔ یہ بات تو درست ہے کہ اردگان کی سیاسی حیثیت مضبوط ہو گئی ہے، لیکن ترکی کمزور ہو گیا ہے۔ بغاوت نے ترک فوج کی ساکھ کو بہت گہرے طور پر متاثر کیا ہے اور تطہیر کی وجہ سے فوج کے مزید کمزور ہونے کا اندیشہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب کردوں کے خلاف فوجی آپریشن ہو رہا ہے، اور ترکی کی سرحدوں پر جنگ جاری ہے، ترک فوج کی کمزوری ترکی کے لیے خوش آئند نہیں۔ پھر یہ فرض کر لینا بھی سادہ لوحی ہے کہ استعماری قوتیں باز آ جائیں گی۔ امریکی اور یورپی مفادات میں ترکی ازحد اہمیت کا حامل ہے۔ اگر ترکی اور نیٹو کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو پورے علاقے میں امریکی ایجنڈے کو سخت دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ یہ امر امریکی اور یورپی ماہرین کے روہانسے تجزیوں سے صاف نظر آ رہا ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Click here to post a comment

    • فتح اللہ گولن کو الطاف حسین کے ساتھ ملانا مناسب نہیں لگتا۔
      اسیطرح گولن کو شدومد کے ساتھ غدار کہنا بھی

  • مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ جناب محمد دین جوہر صاحب نے ہر جگہ فتح اللہ گولن کے لئے بدترین غدار گلن کے الفاظ استعمال کئے، اس تواتر کے ساتھ گویا کہ جوہر صاحب نے ان کا حقیقی نام ہی یہ فرض کر لیا۔ اس طالب علم کے نزدیک یہ شدت پسندی ہے

  • فتح اللہ گولن کی گولن موومنٹ کو اتفاق سے مجھے قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ استنبول میں حزمت فائونڈیشن کا ایک ہفتہ کا مطالعاتی دورہ کیا تھا جس میں گولن کے لوگوں سے تفصیلی مکالمہ ہوا، گولن صاحب کی کتابیں بھی پڑھ رکھی ہیں اور اس اسلامی تحریک کو پچھلے کئی برسوں سے مانیٹر کر رہا ہوں۔ کمنٹس میں زیادہ تفصیل دینا مناسب نہیںِ، ان شااللہ اس پر ایک تفصیلی کالم لکھوں گا۔ بہرحال صورتحال اتنی سادہ نہیں اور اس معصومیت سے گولن کو بدترین غدار گلن کہنا شائد درست نہ ہو۔ واللہ اعلم ۔

  • میرے لئے اس کلیشے سے اتفاق ممکن نہیں کہ کسی ادارے یا معاملے کو اس کی حدود میں رکھنے یا حدود یاد کروا دینے سے وە ادارے یا معاملات کمزور ہو جاتے ہیں. جرم کی سزا اور اس سزا کی بر وقت تنفیذ سے زیادہ معاشروں کی آکسیجن دوسری کوئی چیز نہیں. میرا پختہ یقین ہے کہ رجیم چینج کی اصطلاح کو جس تشریح کے ساتھ یہاں پیش کیا گیا، اس کے لوازمات کسی فوجی حکومت میں تو پورے ہو سکتے ہیں ،سول حکومت میں ہر گز نہیں .

  • اردوگان کیوں ہردل عزیز ہے
    کیونکہ الیکشنوں میں نہ اسکی اور نہ اس کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہوتی ہیں ۔
    انکے کردار۔گفتار۔ اعمال یکساں خوبیوں کے حامل ہیں
    ذرا سوچ لیجئے جن بڑے لوگوں کی ہم صرف باتیں کر تے ہیں وہ باتوں سے یہ مقام حاصل نہیں کئے ہیں انھون نے واقعی تن من دھن سب اسلام پر نچھاور کر رکھا ہے اور حکمت کا دامن بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔
    انہوں نے کر کے دیکھایا ہم نے کہہ کہ دیکھایا۔
    تو نتائج مین بُعدالمشرقین اسی لئے ہی تو ہے۔