ہوم << سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت - آخری قسط - ریحان اصغر سید

سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت - آخری قسط - ریحان اصغر سید

بیڈ پر میرے مختلف خواتین کے ساتھ خلوت میcں گزارے لمحات کی تصاویر تھیں۔ یہ سب عورتیں چونکہ پیشہ ور ہوتی تھیں، اس لیے ہر دوسری تصویر میں مختلف عورت نظر آ رہی تھی۔ سب تصویریں میرے فلیٹ کے بیڈ روم کی ہی تھیں۔ یقیناً میرے بیڈروم میں خفیہ کیمرے نصب کیے گئے تھے جن سے میں بالکل بے خبر رہا تھا۔ ولی خان نے نے کھنکار کر مجھے متوجہ کیا تو میں چونکا۔
مخل ہونے پر معذرت چاہتا ہوں سر۔ لیکن مجھے خدشہ محسوس ہوا کہ کہیں آپ ان ہوشربا تصویروں کے نظارے میں کھو کر اپنی فلائٹ ہی نہ مس کر دیں۔
دونوں ہاتھ جیب میں ڈالے انتہائی شائستہ لہجے میں اردو بولتا یہ نوجوان اس ولی خان سے بلکل مختلف تھا جسے میں جانتا تھا۔
آپ کو دکھانے کے لیے میرے پاس کچھ اور بھی ہے سر۔
یہ کہہ کر ولی خان نے جیب سے ایک پیپر نکال کر مجھے پکڑایا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے اسے کھول کر دیکھا تو وہ میری خالہ زاد شمسہ سے میرے نکاح نامہ کی فوٹو کاپی تھی۔ میں بےاختیار بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
سیگریٹ لیں گے سر؟ ولی خان نے انتہائی مہنگے برانڈ کے سیگریٹ کی ڈبی اور ایک قیمتی نظر آنے والا لائٹر نکالتے ہوئے مصنوعی ادب سے کہا۔
میں نے بے اختیار انکار میں سر ہلا دیا۔ مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ ولی خان نے اپنے عیاری سے بازی پلٹ دی ہے۔ میں خود بھی قصوروار تھا، نہ میں بہکتا اور نہ آج میں ولی خان کے سامنے یوں شرمندہ ہوتا۔
آپ کی مرضی ہے سر۔۔! آپ میرے مالک بھی ہیں اور بہنوئی بھی، عزت تو پھر دینی ہی پڑتی ہے آپ کو۔ اگرچہ آپ اس عزت کے قطعاً لائق نہیں ہیں۔
ولی خان کے لہجے میں طنز کی کاٹ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
تم کیا چاہتے ہو ولی؟
ھا ھا ھا ۔۔! چلیں کسی کو تو خیال آیا کہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ کاش کے کوئی پوچھے کے مدعا کیا ہے۔۔ اور جہاں تک چاہنے کی بات ہے،
ہم آپ کا لاکھ برا چاہیں کیا ہوگا
وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا
ولی خان میری بے بسی اور صورتحال سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا۔
ولی میں فلائٹ سے لیٹ ہو رہا ہوں۔ مجھے دو ٹوک الفاظ میں بتاؤ، تمہاری ان گھٹیا حرکات کا مقصد کیا ہے۔
ولی کے چہرے پر کچھ سنجیدگی کے تاثرات ابھرے۔ اس نے اپنی جیب سے مڑے تڑے کاغذات نکالے۔
سر یہ طلاق نامہ ہے۔ آپ کو اس پر دستخط فرمانے ہیں۔ یہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی لے کر حاضر ہوا تھا۔ تب آپ نے میری بات کو قابل اعتنا نہیں سمجھا تھا، تب سے میں اسے جیب میں ڈالے گھوم رہا ہوں کہ کبھی نہ کبھی تو آپ شفقت فرمائیں گے۔
میں نے بے خیالی میں طلاق نامہ پکڑ لیا اور خالی خالی نظروں سے اسے تکنے لگا۔
میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے لارڈ صاحب۔۔! کن سوچوں میں گم ہو۔ آج میں تمہیں کوئی دوسرا آپشن نہیں دوں گا، اور کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں تمہارے پاس۔ جب تمہارے ان کرتوتوں کے ثبوت بیگم صاحبہ کے پاس پہنچیں گے تو وہ جو تمہارا حشر کریں گی، تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کتے کی طرح ذلیل ہونے سے بہتر ہے کہ چپ چاپ طلاق نامے پر دستخط کر دو! میں بڑے صاحب سے کہہ کر تمیں کچھ پیسے بھی دلوا دوں گا، یورپ یا امریکہ کی طرف نکل جانا زندگی بن جائے گی تمہاری۔
ولی کے الفاظ کوڑوں کی طرح میری سماعتوں سے ٹکرا رہے تھے اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میں ٹوٹ کر پاش پاش ہو جاؤں گا۔
مجھے تھوڑا وقت دو ولی۔! یہ اتنا آسان نہیں ہے میرے لیے۔ میں طلاق نامے پر دستخط کر دوں گا لیکن کچھ عرصے بعد، مجھے کچھ سوچنے کا موقع تو دو۔ تمہیں بڑے صاحب کا واسطہ ! میں بول رہا تھا مگر مجھے خود بھی اپنی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔
ولی کے چہرے پر نرمی اور کچھ سوچ بچار کے تاثرات نمودار ہوئے۔
کتنی مہلت درکار ہے تمہیں؟ اس نے پینسل کو واپس اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
تین ماہ۔۔ تین ماہ دے دو مجھے؟
تین ماہ تو بہت زیادہ ہیں۔ میں تمہیں ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اس کے بعد تمہیں ہر صورت میں اس طلاق نامے پر دستخط کرنا ہوں گے۔ وہ بھی اس شرط پر کہ تم اپنے وعدے کی ویڈیو ریکارڈنگ کرواؤ گے۔
میں ایک دفعہ پھر ولی کی عیاری کا قائل ہو گیا۔ وہ میرے ہاتھ پاؤں بالکل ہی باندھ دینا چاہتا تھا۔
ویڈیو ریکارڈنگ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خان۔۔ تمہیں میری زبان پر اعتبار کرنا چاہیے۔ میں نے آخری کوشش کے طور پر کہا۔
الیاس خان تم بھول رہے ہو کہ بڑے صاحب کی ایک کال پر تمہیں گرفتار کر لیا جائے گا۔ پھر سڑتے رہنا یہاں جیل میں اور بیٹھے رہنا تصور جاناں کیے ہوئے۔ تمہارے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ میں کیمرہ آن کر رہا ہوں۔ ولی خان نے کیمرہ آن کر کے ویڈیو ریکارڈنگ شروع کر دی۔
میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ میں نے کیمرے کے سامنے اعتراف کیا کہ میرا پہلے بھی نکاح ہو چکا ہے اور میں نے یہ بات چھوٹی بیگم صاحبہ سے چھپائی ہوئی تھی۔ میں نے یہ بھی اقرار کیا کہ میں یہاں رنگ رلیاں مناتا رہا ہوں اور چھوٹی بیگم صاحبہ سے بے وفائی کا مرتکب ہوا ہوں۔
یہ ویڈیو ریکارڈنگ ولی کی ڈکٹیشن میں مکمل ہوئی۔ اگلے کچھ گھنٹے بعد میں ٹیکسی پر ابوظہبی ائیرپورٹ کی جانب جا رہا تھا۔ اپنی کار میں نے فلیٹ کی بلڈنگ تلے واقع زیر زمین پارکنگ میں ہی چھوڑ دی تھی۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ چکا تھا اور میں دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کے قابل ہی نہ تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا تھا مگر آج ولی خان نے مجھے تصویریں دکھا کر میری انا کے پندار کو جو چوٹ پہنچائی تھی، میں ان سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہیں رہا تھا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ کا حسین و جمیل چہرہ اور ان کی مہربانیاں یاد آتی رہیں اور میرا دل کٹتا و خون کے آنسو روتا رہا۔ میرے لیے یہ تصور ہی سوہان روح تھا کہ چھوٹی بیگم صاحبہ جیسی معصوم اور پاک خاتون میری وہ تصویریں دیکھے۔
کراچی ائیرپورٹ پر اتر کر میں اپنے خالہ زاد کزن کے گھر چلا گیا۔ اس کا نام شبیر تھا۔ شبیر نے ہی مجھے بڑے صاحب کے پاس نوکری دلوائی تھی۔ میں نے شبیر کو یہی بتا رکھا تھا کہ مجھے بڑے صاحب نے ترقی دے دی ہے اور مجھے ابوظہبی بھیج رہے ہیں۔ وہاں سے ڈھیر سارے پیسے اکھٹے کر کے لاؤں گا تو شمسہ کو رخصت کر کے ساتھ لے جاؤں گا۔
شبیر کے سامنے سچ بولنے کی ہمت و جرات مجھ میں نہ تھی۔ اتفاق سے شبیر اور شمسہ کی ماں بھی کراچی آئی ہوئی تھیں۔ وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھیں اور میری بلائیں لینے لگیں۔ وہ جلد سے جلد شمسہ کی رخصتی چاہتی تھیں، میں ہوں ہاں کرتا رہا اور پھر نیند کا بہانہ کر کے اٹھ گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں بڑے صاحب کے بنگلے میں جا پہنچا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ نے پورچ میں آ کر میرا استقبال کیا۔ وہ ٹریک سوٹ میں ملبوس تھیں اور ابھی جاگنگ کر کے لوٹی تھیں۔ پسینے کے قطرے ان کے صبیح چہرے پر موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔
واؤ! گریٹ۔۔ یو آر لکنگ ہینڈسم ۔۔! انھوں نے مسرت سے مجھے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ ان کے چہرے پر شوخی کے تاثرات تھے۔
آپ تو جینٹل مین بن کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو ایک چکر لندن کا بھی لگوا دیا جائے، پھر تو آپ ہیرو ہی لگیں گے۔ چھوٹی بیگم صاحبہ بہت خوش لگ رہی تھیں اور ان کی خوشی دیکھ دیکھ کر میرا احساس زیاں بڑھتا جا رہا تھا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ نے ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ وہ بلڈنگ کولیپس والے حادثہ پر مجھے حوصلہ دیتی رہیں اور دلجوئی کرتی رہیں۔ ناشتہ کرنے کے بعد وہ مجھے ہمراہ لے کر بڑے صاحب کے سامنے پیش ہوئیں۔
بڑے صاحب ابھی نائٹ گاون میں ملبوس اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے سرسری سے نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بیٹھے بیٹھے نیم دلی سے اپنا دایاں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
میں دونوں ہاتھوں سے بمشکل ان کی انگلیوں کی پوروں کو ہی چھو پایا۔
سیٹھ صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی نظریں بدستور اخبار پر ہی تھیں۔ کمرے میں ایک بوجھل خاموشی کا راج تھا۔ میں اور چھوٹی بیگم صاحبہ چپ چاپ بڑے صاحب کو دیکھتے رہے۔ آخر بڑے صاحب نے اطمینان سے اخبارات کا مطالعہ کیا۔ اپنی عینک اتار کر کیس میں رکھی۔ اس دوران ملازمہ ہمارے سامنے چائے کے کپ رکھ گئی تھی۔
سیٹھ صاحب نے اپنا کپ اٹھا کر چائے کی چسکی لی اور میری طرف متوجہ ہوئے۔
ابوظہبی میں تمہاری نااہلی اور غفلت کی وجہ سے کمپنی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے۔ اس پر مستزاد کہ تم بغیر بتائے وہاں سے بھاگ آئے ہو جیسے کہ وہ تمہیں کل ہی گرفتار کر کے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا جیسا تم سوچ رہے تھے۔ خیر جو ہوا وہ ماضی تھا۔ تم اپنے پہلے امتحان میں بری طرح ناکام رہے ہو لیکن ابھی بھی میں مکمل طور پر تم سے ناامید نہیں ہوں۔ میں تمہیں مزید مواقع بھی دوں گا۔ تم کلفٹن والے فلیٹ میں واپس چلے جاؤ۔ آرام کرو، اطمینان سے سوچو کہ تم کیا کرنا چاہتے ہو؟ تم جو بھی کام کرنا چاہتے ہو بلاجھجک کرو۔ سرمایہ فراہم کرنا میری ذمہ داری ہے۔
چائے ختم کر کے میں باہر نکلا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھے چھوڑنے پورچ تک آئیں۔
آپ واپس کیسے جائیں گے؟ آپ اس طرح کیجیے کہ میری ہنڈا لے جائیے۔ کل تک ہم آپ کو آپ کی پسند کی کار دلوا دیں گے۔ تب تک ہماری کار کو خدمت کا موقع دیجیے۔
لیکن بیگم صاحبہ۔۔۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔! ہمارے پاس گاڑیوں کی کمی نہیں ہے۔ آپ اطمینان سے ہماری کار لے جائیے۔
میں نے ہنڈا میں بیٹھ کر بیک گئیر لگایا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کی طرف دیکھا جو ابھی تک سیڑھیوں میں کھڑی مجھے دیکھ رہی تھیں۔
کچھ دیر ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔۔۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ چلتی میرے پاس آئیں۔ ان کے چہرے پر تشویش اور خوف کے ہلکے سے تاثرات تھے۔
الیاس ! آر یو اوکے،، کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آپ اتنے اتنے بجھے بجھے اور سیڈ کیوں لگ رہے ہیں۔
میرے چہرے پر ایک پھیکی سے مسکراہٹ دوڑ گئی۔ میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔۔ بس تھوڑی سی ہمت جمع کر لوں۔
یہ کہنے کے بعد میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو حیران و پریشان چھوڑ کر تیزی سے گاڑی دوڑاتا نکل آیا۔
اب کلفٹن کا فلیٹ تھا، میں تھا اور سوچیں تھیں۔ بڑے صاحب کے رویے سے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ابھی تک میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں مگر یہ ان کی اداکاری بھی ہو سکتی تھی۔
اگلے دن پھر ولی خان آ دھمکا۔
ابھی پینتالیس دن نہیں ہوئے۔۔! میں نے اس کے لیے دروازہ کھولتے ہوئے کہا۔
میں یہاں تمہاری منحوس شکل دیکھنے نہیں آیا اور نہ ہی مجھے کوئی ایسا شوق ہے۔ میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے دور رہنا۔ میں تمہارا غلیظ سایہ بھی ان کے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتا۔
ولی خان ! میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ڈنر پر لے کر جانا چاہتا ہوں۔ میں انھیں اپنے بارے میں سب سچ بتانا چاہتا ہوں، جب ڈنر ختم ہوگا تو ہم میاں بیوں نہیں ہوں گے۔ میں نے ولی خان کی طرف دیکھے بغیر کہا۔
ولی خان نے چونک کر مجھے دیکھا اور کچھ دیر سوچ کر بولا،
لیکن میں آس پاس ہی رہوں گا۔
شام کو میں نے بال بنوائے، شیو کی اور اپنا سب سے خوبصورت سوٹ پہنا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کے پسندیدہ پرفیوم میں نہا کر ایک فائیو سٹار ہوٹل پہنچا۔
کچھ دیر بعد ولی خان بھی چھوٹی بیگم صاحبہ کو لے کر پہنچ گیا۔ وہ ہم سے کچھ دور ٹیبل پر بیٹھ گیا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ نے لانگ سکرٹ پہن رکھا تھا۔ ہاف سلیف بازو اور گلے میں موتیوں کا نیکلس۔ وہ اتنی پیاری لگ رہی تھیں کہ ان پر نظر کا ٹھہرنا مشکل تھا۔
تھنک گاڈ ! آپ کو بھی ہمارا خیال آیا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ نے میری نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے مینیو کارڈ اٹھاتے ہوئے کہا۔
ڈنر کرتے ہوئے میں چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہنساتا رہا اور وہ کھلکھلا کر ہنستی رہیں۔ کچھ دور ولی خان بظاہر اپنے لیپ ٹاپ میں مگن کافی کے کپ پر کپ پیتا چلا جا رہا تھا اور بے نیاز نظر آنے کی کامیاب کوشش کر رہا تھا۔ ڈنر کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کی پسندیدہ آئس کریم منگوائی گئی۔
یہ میری زندگی کے سب سے مشکل لمحات تھے۔ میں نے جیب سے ایک جیولری کیس نکال کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو پیش کیا۔ اس میں گولڈ کا ایک کڑا تھا جس میں سستے سے پتھر جڑے تھے۔ بیگم صاحبہ یہ تحفہ میں نے ان پیسوں سے خریدا ہے جو میں نے محنت مزدوری کر کے بڑی مشکل سے اپنی شادی کے لیے جوڑے تھے، اس میں بڑے صاحب کا دیا ہوا ایک پیسہ بھی شامل نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں یہ آپ کے شایان شان نہیں ہے لیکن میں صرف اس کا ہی بندوبست ہی کر پایا ہوں۔ اس کو نہ صرف قبول کیجیے بلکہ مجھ سے وعدہ کیجیے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے آپ اسے کبھی خود سے جدا نہیں کریں گی۔
معمولی سا کنگن پا کے بھی بیگم صاحبہ کی خوشی دیدنی تھی۔ انھوں نے کنگن کلائی پر پہنتے ہوئے وعدہ کیا کہ اب اسے میری موت کے بعد غسل دینے والی ہی اتارے گی۔میں دل کو پتھر کر کے آیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں نے جتنا رونا تھا، رو چکا ہوں، مگر اب چھوٹی بیگم صاحبہ کے خوشی سے دمکتے چہرے کو دیکھ کر مجھے اپنے حوصلے ٹوٹتے محسوس ہو رہے تھے۔
ہم ایک قدرے نیم تاریک گوشے میں بیٹھے تھے۔ کینڈل لائٹس میں چھوٹی بیگم صاحبہ کا چہرہ افسانوی منظر پیش کر رہا تھا اور ان کی بڑی بڑی کالی آنکھوں کی چمک ہیروں کو ماند کرتی تھی۔
چھوٹی بیگم صاحبہ ۔۔۔۔ ! میں۔۔۔ آج۔۔۔۔۔ آپ کو ۔۔۔۔۔ اپنے بارے میں کچھ ایسی باتیں،،،، بتانا چاہتا ہوں جن سے آپ ابھی تک لاعلم ہیں۔ کچھ غلطیاں ہیں جن کا اعتراف کرنا ہے اور کچھ گناہ ہیں جن کی سزا پانی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں تحمل سے سنیں اور انھیں سمجھیں۔
چھوٹی بیگم صاحبہ کے چہرے پر کچھ گھمبیرتا کے اثرات نمودار ہوئے۔۔
چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔ میں نے آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب کچھ بتا دیا تھا لیکن یہ نہیں بتا سکا۔۔۔۔ کہ میرا نکاح کچھ سال پہلے میری خالہ زاد سے بھی ہو چکا ہے۔۔ اگر میرا نکاح آپ سے نہ ہوتا تو اس گزرے مارچ اپریل میں ہمارے شادی ہو جاتی۔
میں نے بمشکل نظریں اٹھا کر چھوٹی بیگم صاحبہ کو دیکھا۔۔ چہرے پر ہلکا سا تغیر، آنکھوں میں نمی کی چمک دیکھ کر میں نے گھبرا کر دوبارہ نظریں جھکا لیں۔
چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ہم چھوٹے دیہات میں رہنے والے لوگوں کی کچھ محرومیاں اور کمپلیکس ہوتے ہیں، جو ساری عمر ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ آپ سے نکاح کے بعد میں ایک دن بھی حق ملکیت کا احساس لیے، سکون سے نہیں سو پایا۔ ہر صبح کا آغاز اس خدشے سے ہوا کہ آپ کو مجھے سے چھین لیا جائے گا یا پھر میں اپنی کمزوری کے باعث آپ کو کھو دوں گا۔۔ کاش آپ احساس کرتیں کہ غلام غلام ہوتے ہیں، مالک اور محبوب نہیں بن سکتے۔۔
چھوٹی بیگم صاحبہ۔۔۔ ابو ظہبی،،،، اچھا شہر نہیں ہے۔۔۔۔ ابوظہبی میں ایسی جگہیں ہیں جہان بسنے والی ڈائنییں پردیسیوں سے ان کے خواب، مان اور ان کے محبوب چھین لیتی ہیں۔
میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔
چھوٹی بیگم صاحبہ تو پہلے ہی بے آواز رو رہی تھیں۔
میں آپ کا مجرم ہوں۔ میں نے آپ کو دھوکہ دیا۔ میں اپنے سارے جرائم تسلیم کرتا ہوں اور سزا کا طلب گار ہوں اور میری سب سے بڑی سزا تو یہی ہے کہ میں آپ کو ہمیشہ کے لیے کھو دوں۔ میں نے آنسو پونجھ کر جیب سے طلاق نامہ نکالا۔
یہ کیا ہے ؟ بیگم صاحبہ کچھ چونکی۔
انھوں نے میرے ہاتھ سے طلاق نامہ چھین کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں اور چہرے میں شدید حیرانی کے تاثرات تھے۔
آپ۔۔ آپ ہمیں طلاق دینا چاہتے ہیں؟ ان کے لہجے میں اتنا درد تھا کہ میرا دل کٹ کر رہ گیا۔۔
الیاس! آپ نے جو کچھ کیا ہے، وہ آپ کا فعل ہے۔ انسان تو ہے ہی خطا کا پتلا۔۔ آپ نے ہم سے محبت کی وجہ سے اپنا نکاح ہم سے چھپایا، ہمیں اس جھوٹ کا کوئی دکھ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ سے کوئی بھول ہو چکی ہے تو ہم آپ کو معاف کرتے ہیں لیکن آپ کی اس بے وقوفی پر آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ ہمارا رشتہ اتنا کچا تھا کیا؟ آپ کون ہوتے ہیں اکیلے ہمارے بارے میں فیصلہ کرنے والے۔۔
ہمیں بتائیے؟؟
بے آواز آنسو چھوٹی بیگم صاحبہ کی آنکھوں سے ٹپک رہے تھے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میں کچھ دیر مزید انھیں دیکھتا رہا تو پتھر کا ہو جاؤں گا۔
چھوٹی بیگم صاحبہ! میں آپ کی غلامی کے قابل نہیں ہوں۔ میں اپنی نظروں سے گر چکا ہوں۔ آپ کی خاطر جان دے سکتا ہوں مگر اب آپ کو مزید دھوکہ نہیں دے سکتا۔ آپ سے میری محبت کا تقاضا یہی ہے کہ میں آپ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہو جاؤں۔ شمسہ میرا انتظار کر رہی ہے بیگم صاحبہ۔۔
بیگم صاحبہ روتی رہیں اور انکار میں سر ہلاتی رہیں۔
میں انھیں ہر طریقے سے سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔ وقت گزرتا چلا جا رہا رہا تھا۔ بیگم صاحبہ کی آنکھیں مسلسل رونے سے سوج کر بوٹی کی طرح لال ہو رہی تھیں۔
الیاس! ہم نے ساری دنیا کی مخالفت مول لے کر آپ سے نکاح کیا۔ ہمیں مت چھوڑئیے۔ ہم ساری عمر بابا اور ولی سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ فار گاڈ سیک ہمیں ہماری نظروں سے مت گرائیے۔ ہمارا انسانیت اور انسانوں سے اعتبار اٹھ جائے گا۔ ہم مر جائیں گے۔۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ پر آپ کی فیملی کا دباؤ ہے۔ آپ نے شمسہ سے شادی کرنی ہے تو ضرور کیجیے مگر ہمیں طلاق مت دیجیے۔
ہم ساری عمر آپ کے نام پر بیٹھے رہیں گے اور کبھی آپ کے سامنے نہیں آئیں گے۔ آپ کو اللہ کا واسطہ ہمارے ساتھ اس طرح مت کیجیے۔
رو رو کر چھوٹی بیگم صاحبہ کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ میں نے تیزی سے جیب سے پینسل نکال کر طلاق نامے پر دستخط کیے اور اپنے آنسو پونچھتا ہوا کھڑا ہو گیا۔
بیگم صاحبہ لپک کر میرے پیروں سے لپٹ گئیں۔
جانے میرے اندر اتنی درندگی اور وحشت کہاں سے عود آئی۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا اور تین بار کہا۔
لائبہ بی بی میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں، میں آپ کو طلاق دیتا ہوں۔۔۔!
اف خدایا ۔۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کا وہ چہرہ ۔۔۔
اس کے بعد میں پلٹا اور تیزی سے چلتا ہوا ہوٹل سے نکل آیا۔ بیگم صاحبہ کی کار میں نے ہوٹل میں ہی چھوڑ دی تھی۔ جانے وہ رات اور اس کا اگلا دن میں نے کہاں اور کیسے گزارا۔۔
میں چلتا رہا۔۔ چلتا رہا۔۔۔ جانے کہاں بیٹھتا رہا، کہاں گرتا رہا۔۔ میرے دماغ میں چھوٹی بیگم صاحبہ کی آوازیں اور سسکیاں گونجتی رہیں۔
دو تین بےخودی میں گزارنے کے بعد میں اپنے کزن کے فلیٹ پر لوٹ گیا۔ وقت گزرتا جا رہا تھا اور میرے دل کے زخم مندمل ہو رہے تھے۔ ولی خان چاہتا تھا کہ میں کچھ پیسے لے لوں اور پاکستان سے چلا جاؤں۔
میں نے اس کے منہ پر تھوک دیا۔ اس سے بہتر میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
میں کراچی میں رہنا بھی نہیں چاہتا تھا اور اسے چھوڑنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ چھوٹی موٹی نوکریاں کرتے ہوئے محض وقت گزار رہا تھا۔ چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دیے مجبھے تین ماہ ہونے کو آئے تھے۔
میں ایک فیکٹری میں نائٹ ڈیوٹی کر کے اپنے کوارٹر کی طرف پیدل ہی جا رہا تھا کہ ایک سوزوکی کیری کے ٹائر میرے پاس پہنچ کر چرچرائے۔ گاڑی میں اسلحہ بردار داڑھیوں والے سخت مشکوک قسم کے لوگ سوار تھے۔ ایک نے اپنی بندوق مجھ پر تانی اور دوسرے نے مجھے کھینچ کر سلائیڈنگ دروازے سے گاڑی کے فرش پر گرا دیا۔ کچھ دیر بعد میں ہاتھ پاؤں بندھوائے گاڑی کے فرش پر پڑا تھا اور گاڑی کسی انجان منزل کی طرف اڑی چلی جا رہی تھی۔
ان لوگوں نے میرے اوپر ایک ترپال سا ڈال دیا تھا۔ اب یقیناً باہر سے دیکھنے والوں کو یہی لگ رہا ہو گا کہ گاڑی کے فرش پر سامان پڑا ہے۔ میں چپ چاپ گاڑی کے فرش پر الٹا لیٹا رہا۔ ان دنوں میں جس ذہنی کفیت میں تھا زندگی بہت حد تک اپنی اہمیت کھو چکی تھی۔ کافی دیر بعد گاڑی ایک جگہ پر جا کر رکی۔ ہارن بجایا گیا اور ایک بھاری گیٹ صدائے احتجاج بلند کرتا ہوا کھل گیا۔ گاڑی اندر داخل ہو گئی۔
لگنے والے جھٹکوں سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ کوئی کچا احاطہ سا ہے۔ کہیں پاس ہی سے ویلڈنگ کٹر کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، ہو سکتا ہے یہ کوئی ورکشاپ ہو۔ مجھے اتارنے سے پہلے میرے سر پر ایک کالا تھیلا سا چڑھا دیا گیا۔ جس سے میں بالکل ہی اندھا سا ہو گیا تھا۔ میرے میزبان پشتو بول رہے تھے۔ ایک آدمی میرا ہاتھ پکڑے مجھے ٹھوکریں لگواتا کسی عمارت کے اندر لے گیا۔ پھر ہم سیڑھیاں اترے میں نے ابھی تک ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا۔ آخر مجھے ایک کرسی پر بیٹھا کے میرے چہرے سے کالا تھیلا اتار دیا گیا۔ آنکھوں کو روشنی سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگا۔ میرے ہاتھ بدستور پشت پر بندھے تھے۔ میرے سامنے چھوٹی چھوٹی حضاب لگی کالی داڑھی والا آدمی بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے بغور دیکھا، پھر پشتو میں میری پشت پر کھڑے مجھے لانے والے آدمی سے کچھ سوال جواب کیے۔ پھر میری پشت پر کھڑا آدمی ایک بغلی کمرے میں غائب ہوگیا، جب وہ لوٹا تو اس کے ساتھ تین آدمی اور تھے۔ ان تینوں کے ہاتھ بھی کمر پر بندھے ہوئے تھے اور وہ صرف شلواروں میں ملبوس تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر لگ رہا تھا کہ انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہی ہے وہ شخص؟
میرے سامنے بیٹھے شخص نے ان تینوں سے مخاطب ہو کے پوچھا۔ ان تینوں نے مجھے غور سے دیکھا پھر باری باری انکار میں سر ہلا دیا۔ میرے سامنے بیٹھا شخص اب کچھ حیران تھا اور مجھے لانے والے پریشان۔ وہ آپس میں تیز تیز باتیں کر رہے تھے۔ بظاہر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے غلطی سے کسی اور کی جگہ اُٹھا لائے ہیں۔ میں لاتعلقی اور بیزاری سے بیٹھا ان کے منہ دیکھتا رہا۔ آخر ان تین آدمیوں کو واپس اسی بغلی کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ میرے سامنے بیٹھا کالی داڑھی والا شخص جو بظاہر ان سب کا باس لگتا تھا، سگریٹ کے کش لیتے ہوئے مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے میرا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس کا موقف تھا کہ اس کے آدمی مجھے غلطی سے اُٹھا لائے ہیں تو یہ سراسر میرا قصور ہے۔ مجھے کیا ضرورت تھی کہ ان کے مطلوبہ شخص جیسی شکل لے کر دنیا میں آنے کی۔۔ اگر آ ہی گیا تھے تو کہیں اور چلا جاتا، کراچی کے علاوہ اور بھی تو بہت سے شہر ہیں۔ مزید یہ کہ مجھے واپس چھوڑنے جانے سے آسان کام یہی ہے کہ قتل کر کے تین چار درجن دیگر مقتولوں کی طرح یہی گاڑ دیا جائے۔ مجھے ذاتی طور پر تو اس کی تجویز پر کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن اپنے بوڑھے والدین کا خیال مجھے بے چین کر رہا تھا۔ آخر کار باس کے چہرے پر نرمی کے کچھ آثار نمودار ہوئے اور اس نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے پیشکش کی کہ اگر میں اسے دو لاکھ کا بندوبست کر دوں تو مجھے زندہ واپس بھیجنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔ میری جیب میں صرف چند سو روپے تھے۔ اس لیے مجھے بھی ایک کال کوٹھری میں بند کر دیا گیا۔ یہ جگہ کسی نجی جیل جیسی تھی، یہاں شاید اغوا برائے تاوان کے قیدیوں اور دشمنوں کو رکھا جاتا تھا۔ اکثر آنے والوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ میں فی الحال تو مار پیٹ سے بچا ہوا تھا۔ تیسرے دن پھر مجھے باس کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا کیا ارادہ ہے؟ کیوں کہ اس کے پاس فالتو روٹیاں نہیں ہیں مجھے کھلانے کے لیے۔ حالانکہ مجھے تین دن میں صرف تین خشک روٹیاں دی گئی تھیں بغیر پانی اور سالن کے۔ اس دنیا میں ایک ہی ایسی ہستی تھی جو میرے لیے یہ پیسے بھر سکتی تھی، میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اس کو چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر دے دیا۔۔ کون ہے یہ؟
باس نے اپنے سستے سے سیل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے کہا۔
میری مالکن ہے۔ مجھے امید ہے میرے پیسے دے دی گی۔
دوسری طرف سے کال ریسو کر لی گئی۔۔ میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔۔ باس نے بتایا کہ آپ کا ڈرائیور الیاس ہمارے پاس ہے۔ دو لاکھ دے کے اس کی جان بخشی کروائی جا سکتی ہے۔ لو اس سے بات کرو۔ باس نے مجھے فون پکڑایا۔
ہیلو، میں بمشکل بولا۔
الیاس آپ کہاں ہیں؟ یہ شخص کون ہے؟ یہ کہہ رہا ہے آپ اس کے قبضے میں ہو؟
اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا، باس نے مجھ سے سیل فون چھین لیا اور مجھے کال کوٹھڑی میں واپس بھیج دیا گیا۔ اس کے کچھ گھنٹے بعد ہی ایک کارندے نے بتایا کہ میرے پیسے مطلوبہ مقام تک پہنچا دیے گئے۔۔ مجھے آج رات چھوڑ دیا جائے گا۔
رات کو مجھے دوبارہ کالا تھیلا پہنایا گیا، پھر گاڑی میں ایک ویران جگہ پر دھکا مار کے اتار دیا گیا۔ میرے ہاتھ کھولنے کی زحمت کی گئی تھی نہ چہرے سے کالا تھیلا اتارنے کا تکلف۔ کچھ دیر بعد کسی اللہ کے نیک بندے نے میرے پشت سے ہاتھ کھولے اور میرے سر سے تھیلا اتارا۔ تو میں اپنے کواٹر میں جا سکا۔ میں نے میسج کر کے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اپنی زندہ اور بخیریت واپسی کی اطلاع کر دی۔
اب میرا کراچی سے دل اچاٹ ہو چکا تھا۔ میں سیالکوٹ واپس اپنے گاؤں میں آ گیا۔ جانے کیسے شمسہ کے گھر والوں کو میرے بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح کی بھنک مل چکی تھی۔ دونوں گھروں کے آپسی تعلقات سخت کشیدہ ہو چکے تھے۔ آخر بات میری اور شمسہ کی باقاعدہ شادی سے پہلے ہی طلاق پر ختم ہو گئی۔۔ میں ہر چیز سے بیزار ہو چکا تھا۔۔ میں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ میں نے گاؤں میں جو ہماری تھوڑی بہت زمین تھی، اس کو بیچ دیا اور پیسے ایک ٹریول ایجنٹ کو دے دیے کہ مجھے سنگاپور یا ہانگ کانگ بھیج دے ۔۔ کچھ ہفتوں بعد ہی میرا سنگاپور کا ویزہ لگ کے آ گیا۔ میں کبھی نہ لوٹ کے آنے کے ارادے سے جا رہا تھا۔ ہماری فلائٹ صبح چار بجے سنگارپور کے انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر پہنچی۔ اپنی باری پر میں نے اپنا پاسپورٹ لیڈی امیگریشن آفیسر کے کاؤنٹر پر رکھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ ویزہ دیکھ کر کچھ چونکی ہے۔ اس نے ویزے والے سٹیکر کو کاؤنٹر میں لگی ایک لائٹ کے نیچھے کر کے دیکھا، پھر مجھے غور سا دیکھا۔ اب وہ انٹر کام پر مقامی زبان میں کچھ بات کر رہی تھی، ساتھ ساتھ مجھے بھی دیکھتی جا رہی تھی۔ مجھے احساس ہو گیا تھا کہ حسب معمول میرے ساتھ کچھ گڑبڑ ہو چکی ہے۔ کچھ لمحوں میں ہی مجھے ئیرپورٹ سکیورٹی کے اہلکاروں نے گھیر لیا۔ مجھے ایک اندرونی ہال میں لے جایا گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ میں جعلی ویزے پر سنگاپور میں داخل ہونے کا سنگین جرم کر چکا ہوں۔ میرے فرشتوں کو بھی جعلی ویزے کی خبر نہیں تھی۔ غالباً یہ اس ٹریول ایجنٹ کی کاریگری کا کمال تھا۔ بہرحال میں برے طریقے سے پھنس چکا تھا۔ چند ہفتوں کے اندر ہی مجھے جج نے بارہ سال قید کی سزا سنا دی۔۔
جیل ائیرپورٹ کے نزدیک ہی تھی۔ جیل میں ہماری واحد تفریح یہی تھی کہ جب جہاز رن وے سے ٹیک آف کرتے تو کچھ دیر کے لیے جیل کے روشن دان سے نظر آتے۔ میری بیرک میں دو تین ہندوستانی قیدی بھی میرے ساتھ تھے۔ وہ بھی جعلی ویزے کے جرم میں سزا کاٹ رہے تھے۔ کچھ وقت ان سے باتوں میں کٹ جاتا۔ باقی وقت سوچیں اور یادیں کھا جاتیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا، چھوٹی بیگم صاحبہ کے لیے میری محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ میں ان سے کی گئی اور ان سے سنی گئی ہر ہر بات کو درجنوں دفعہ یاد کر چکا تھا۔ میری نیند ختم ہو چکی تھی۔ ساری رات تنگ سی بیرک میں ٹہلتے رہنا اور روشندان سے چاند یا ٹیک آف کرتے یا اترتے جہازوں کی روشنیوں کو بےخیالی سے تکتے رہنا ہی میرا مشغلہ ہوتا۔
جیل میں ہمیں ہر پندرہ دن بعد دس منٹ کال کے لیے دیے جاتے۔ میں سات آٹھ منٹ کی کال اپنے والدین کو کرتا، باقی رسیور تھام کے کھڑا رہتا اور سوچ بچار میں وقت گزر جاتا۔ آخر ایک دن میں نے آخری دو منٹ میں کانپتے ہاتھوں سے چھوٹی بیگم صاحبہ کا نمبر ملا لیا۔۔ بیل جا رہی تھی، دوسری بیل، تیسری بیل۔ میرا سانس پھول گیا تھا۔ میں نے جلدی سے فون بند کر دیا۔ اگلی دفعہ میں نمبر ملانے کی ہمت نہیں کر پایا۔ اس سے اگلی دفعہ اتفاق سے چھوٹی بیگم صاحبہ نے فوراً ہی کال ریسو کر لی۔ میرے پاس ایک سو پانچ سینکڈ رہ گئے تھے۔۔ السلام علیکم ۔۔ میں نے پہلی دفعہ بیگم صاحبہ کو فون پر سلام کرتے سنا۔۔ ورنہ وہ ہیلو کہتی تھیں۔۔ بیگم صاحبہ نے دو تین دفعہ سلام کیا لیکن میرے حلق میں تو کانٹے پڑ گئے اور دل ایسا دھڑک رہا تھا جیسے پھٹ جائے گا۔ اس دن میں بیرک کے باتھ روم میں جا کے بہت دیر روتا رہا۔ پندرہ دن بعد ابو سے میں نے سات منٹ بات کی۔ اب میرے پاس تین منٹ تھے، ایک منٹ ہمت جمع کرنے میں گزر گیا۔۔ آج بھی بیگم صاحبہ نے جلدی کال ریسیو کر لی۔۔
السلام علیکم۔۔آپ کون بول رہے ہیں؟ ہیلو الیاس؟ آپ الیاس ہیں نہ؟ آپ بولتے کیوں نہیں؟
جب تک میں بولنے کے قابل ہوا، میرا کال کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ اگلے پندرہ دن بہت بھاری تھے۔ میرے پاس سوائے انتظار کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ پندرہ دن بعد میں نے پہلے چھوٹی بیگم صاحبہ کو ہی کال ملائی۔۔ میں نے ایک ایک مکالمہ پہلے ہی سوچ رکھا تھا۔ ان کا حال احوال پوچھا اور انھیں اپنے حال سے آگاہ کیا۔ جسے سن کے وہ حسب توقع بہت پریشان ہوئیں۔ پھر مجھے حوصلہ اور تسلی دی، اور کہا کہ وہ فوراً کچھ کرتی ہیں ۔۔ بیگم صاحبہ کے لہجے میں میرے لیے ایسی شفقت تھی، مجھے لگا جیسے میں اپنی ماں سے بات کر رہا ہوں۔۔ میں ان سے معذرت کرنا چاہتا تھا، ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا لیکن کال کا وقت ختم ہو گیا۔ اگلے دن شام کو مجھے بتایا گیا کہ مجھ سے ملنے پاکستان سے کوئی آیا ہے۔ مجھے ملاقات والے کمرے میں لے جایا گیا جہاں چالیس پنتالیس سال کا ایک بارعب آدمی میرا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام ایم ایچ رضوی بتایا۔ رضوی سندھ ہائی کورٹ کا نامی گرامی وکیل تھا اور اسے چھوٹی بیگم صاحبہ نے بھیجا تھا۔ رضوی نے میرے کیس کی ساری تفصیلات حاصل کر لی تھیں۔ اس نے مجھ سے بھی بہت سے سوال پوچھے اور چلا گیا۔ میں نے اس دن وضو کر کے بہت عرصے بعد نماز پڑھی اور اللہ سے دعا کی کہ چھوٹی بیگم کو ایسا شخص عطا کر جو ان کے قابل ہو اور وہ ان سے ٹوٹ کے محبت بھی کرے۔
مقررہ دن پر دوبارہ چھوٹی بیگم صاحبہ سے بات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ مقامی قوانین کے مطابق مجھے جیل سے نکلوانا مشکل ہے۔ رضوی صاحب اس کا دوسرے طریقے سے حل نکال رہے ہیں۔۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ مجھے ایک جعلی عدالتی کارروائی کے ذریعے قتل کے مقدمے میں سزا موت سنائی گئی تھی۔ پھر پاکستان کی وزارت داخلہ کی طرف سے سنگاپور کی حکومت سے مجرم یعنی میری حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ کچھ مہینے یہ ضروری قانونی کاروائی چلتی رہی۔ چونکہ دونوں ملکوں میں مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ موجود تھا، اس لیے مجھ سے طویل انٹرویو کے بعد مجھے پاکستان حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک دن مجھے الٹی ہتھکڑی لگا کے پی آئی اے میں بٹھا دیا گیا۔ نیو دہلی میں جا کے میری ہتھکڑی کھول کے سامنے لگائی گئی۔۔ کراچی ائیرپورٹ پر مجھے پولیس نے اے ایس ایف سے وصول کیا اور مجھے گاڑی میں ڈال کر وہ تھانے لے گئے جہاں رضوی صاحب پہلے ہی موجود تھے۔۔ رضوی صاحب نے پولیس والوں کو ان کی خدمات کا صلہ دیا اور مجھے تھانے سے لےکر نکلے۔۔ اب میں آزاد تھا ۔۔ میری آزادی بیگم صاحبہ کی انتھک کوششوں اور بےدریغ پیسے کے استعمال کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔۔ چھوٹی بیگم صاحبہ مجھ سے ملنا نہیں چاہتی تھیں اور مجھ میں بھی ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ ان کی شادی ایک ڈاکٹر کے ساتھ طے ہو چکی ہے جو جرمنی میں مقیم ہے۔ شادی کے بعد وہ بھی وہاں شفٹ ہو جائیں گی اور ان کا نمبر بند ہو جائے گا، شاید اب ہماری دوبارہ کبھی بات نہ ہو سکے۔۔
میں نے اسی دن کراچی کا چھوڑ دیا، اور پنجاب لوٹ آیا۔ کچھ ماہ بعد میری ماں نے بھی میری شادی میری طرح ایک واجبی اور معمولی عورت سے کر دی۔ میری بیوی کا نام اقرا تھا۔ وقت اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ گزرتا رہا۔ اب ہمارے چار بچے تھے اور میں ٹرک چلاتا تھا۔ ایک دن مجھے اچانک ہی چکر آیا اور میرے کانوں اور ناک سے خون بہنے لگا۔۔مجھے ایک سرکاری ہسپتال پہنچایا گیا جہاں سے انھوں نے مجھے لاہور ریفر کر دیا۔ لیے گئے ٹیسٹس کی رپورٹس کے بعد پتا چلا کہ میں ایک موذی اور ناقابل علاج مرض میں مبتلا ہو چکا ہوں۔ کچھ دن بعد مجھے کراچی کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اقرا بھی میرے ساتھ تھی۔ سرکاری ہسپتالوں میں نادار اور غریبوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے، وہ آپ سے پوشیدہ نہیں ہے۔ میری جمع پونجی ختم ہو چکی تھی۔ قرضے کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن درد کی شدت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میرا وزن بہت گر گیا تھا۔ ایک دن اقرا مجھے سہارا دیے ہاسپٹل کے ایک وارڈ سے دوسرے میں لےکر جا رہی تھی کہ ہمارے پاس سے گزرتی دو خواتین اچانک رک گئیں۔۔
الیاس؟ او مائی گاڈ! یہ آپ ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟
میں نے چونک کر سر اٹھا کے دیکھا، سامنے چھوٹی بیگم صاحبہ کھڑی تھیں۔ دس سال پہلے جیسا ان کو دیکھا تھا، وہ ابھی بھی ویسی کی ویسی تھیں۔ میری حالت دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انھوں نے اقرا سے سلام دعا کی، پھر میری فائل دیکھنے لگیں۔۔ اس کے بعد وہ مجھے اور اقرا کو کراچی کے سب سے مہنگے پرائیوٹ ہاسپٹل میں لے گئیں۔۔جہاں میرا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا۔ مرض اس سٹیج پر پہنچ چکا تھا کہ یہ اب ناقابل علاج تھا۔ ڈاکٹر صرف میری تکلیف مستقل طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔۔ بیگم صاحبہ روز ہم سے ملنے ہاسپٹل آتیں اور ہم تینوں گھنٹوں باتیں کرتے۔۔ بیگم صاحبہ کے بھی دو بچے تھے۔ وہ کچھ دن کے لیے ہی پاکستان آئی تھیں۔ کچھ دن بعد ہم زبردستی واپس آ گئے اور بیگم صاحبہ واپس جرمنی چلی گئیں۔۔ میرا جسم بہت لاغر ہو چکا ہے۔ میں کوئی کام کاج یا مزدوری نہیں کر سکتا۔ میری دوائیاں، علاج کے پیسے اور گھر کے اخراجات آج بھی جرمنی سے آتے ہیں۔
آج میری عمر صرف اکتالیس سال ہے اور میں موت کا انتظار کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میرے پاس مہلت بہت کم ہے۔ لیکن مجھے مہلت درکار بھی نہیں ہے۔۔ میں دراصل اسی دن مر گیا تھا جب میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو طلاق دی تھی۔ چھوٹی بیگم صاحبہ نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ آپ میرے لیے دعا کریں کے میرا اللہ بھی مجھے معاف کر دے۔
اللہ حافظ
ختم شد
کہانی کی پہلی قسط یہاں ملاحظہ کریں
کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment