ہوم << کیا کنٹرول لائن توڑنے میں کامیابی ہوگی؟ راجہ بشارت صدیقی

کیا کنٹرول لائن توڑنے میں کامیابی ہوگی؟ راجہ بشارت صدیقی

بشارت صدیقی سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان نے 24 نومبر کو کنٹرول لائن توڑنے کی کال دے رکھی ہے، ان کے بیانات میڈیا کی زینت بن رہے ہیں کہ کشمیر کا جھنڈا اٹھا کر جلوس سے 20 گز آگے چلوں گا، میرا دوست کرمو شاہ کہنے لگا کہ تم نے کبھی کشمیر ایشو پر نہیں لکھا، تم نے تو اس دھرتی کی کوکھ سے جنم لیا۔ اس دھرتی کا تم پر قرض ہے۔ ہندوستان کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور تمہارا قلم ہمیشہ خاموش رہتا ہے. اگلے ہی لمحے میں اس نے پوچھ لیا کہ اٹوٹ انگ، شہ رگ اور کنٹرول لائن توڑنے کا چکر کیا ہے؟
کرمو شاہ سے ہم نے کہا کہ تم نے اب بولنا نہیں بلکہ ہماری باتیں غور سے سننا ہیں، تمہیں پتہ ہے کہ ہندوستان نعرہ لگاتا ہے کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے، تاریخ میں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ کشمیر کبھی کسی کا اٹوٹ انگ رہا ہو، کشمیر کے 4 سپوت ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے برصغیر کے چپہ چپہ پر حکمرانی کی ہے، ان میں سلطان صلاح الدین ، راجہ للتادت، سلطان زین العابدین بڈشاہ اور رام دیو شامل ہیں۔
ٹنڈل بسکو بلند مرتبت ماہر تعلیم تھا، وہ 1880ء میں کشمیر آیا، وہ اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ دنیا کی تاریخ زمانوں کے اتار چڑھاؤ اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ آج ایک قوم غالب ہے تو کل وہی قوم مغلوب ہو جاتی ہے۔ اگر آج کشمیر محکوم ہے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ہمیشہ سے محکوم تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے زمانے میں وہ دنیا میں نہ صرف ذہین اور صناع ملک تھا بلکہ بہادر اور شجاع بھی تھا۔ اس کی فوجیں جب کشمیر سے باہر نکلتی تھی تو ہمسایہ ملکوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ ہمسایہ ملکوں کی فوجیں جب حملہ آوروں کے مقابلے میں ناکام ہو جاتیں تو پھر کشمیر سے فوجی امداد طلب کی جاتی۔
راجہ داہر والی سندھ نے محمد بن قاسم کو خط لکھا تھا جو سندھ کی قدیم تاریخ ’’چچ نامہ‘‘ میں درج ہے۔ اس خط سے بھی مذکورہ دعوے کی تصدیق ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں جب کشمیر آزاد تھا تو کس طرح پورے ہندوستان میں اس کی طاقت اور برتری تسلیم کی جاتی تھی۔ راجہ داہر لکھتا ہے کہ ’’اگر میں تمھارے مقابلہ کےلیے راجہ کشمیر کو لکھتا جس کے آستانے پر ہندوستان کے تمام راجے اپنا سر جھکاتے ہیں اور جس کے زیرنگیں نہ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ مکران اور توران بھی اس کے باجگزار ہیں‘‘
تاریخ کشمیر میں راجہ وزیانند کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے 2731ء قبل مسیح قندھار اور کاشغر پر قبضہ کر لیا تھا اور راجہ کاشغر نے اپنی لڑکی وزیانند کے نکاح میں دے دی تھی۔ کشمیر کی تاریخ میں راجہ للتادت کی وسیع فتوحات کا ذکر ملتا ہے، ایک طرف اس نے ہندوستان کے علاقے دکن اور لنکا تک فتح کیے اور دوسری طرف کابل، قندھار اور بخارا تک کے علاقوں پر فتح حاصل کی۔ کشمیر کبھی نہ کسی کا اٹوٹ انگ رہا ہے اور کبھی باجگزار۔
جہاں تک تعلق کنٹرول لائن توڑنے کا ہے تو ماضی میں کئی بار کنٹرول لائن توڑنے کی کوشش کی گئی۔ راؤ رشید اپنی کتاب ’’جو میں نے دیکھا ہے‘‘ میں لکھتے ہیں کہ 1957ء میں آئی جی آزاد کشمیر تھا، اس وقت کنٹرول لائن توڑنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس سازش میں صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا، بری فوج کے کمانڈر انچیف جنرل محمد ایوب خان، کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس اور سیکرٹری قدرت اللہ شہاب شامل تھے۔ پلان بنایا گیا کہ آزاد کشمیر میں حالات اس قدر خراب کر دیے جائیں کہ ان پر قابو نہ پایا جا سکے اور حکومت پاکستان ناکام ہو جائے، پھر سکندر مرزا سردار ابراہیم کو ڈس مس کر دیں گے، اور ادھر پاکستان میں بھی ایمرجنسی نافذ کر کے سول حکومت کو ڈس مس کر کے ڈکٹیٹر بن جائیں گے۔ چنانچہ اس ضمن میں کشمیر لبریشن موومنٹ کا اعلان ہوا کہ جتھے سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر جائیں گے۔ چوہدری غلام عباس نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو یقین دلایا کہ وہ اکھوں آدمی بھیجیں گے۔ اس وقت کرنل یونس کشمیر افیئرز کے انچارج تھے، ان کی صدارت میں ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ ہوا کہ جو جتھے سیز فائر لائن کراس کرنا چاہیں گے پاکستان گورنمنٹ انہیں روکے گی نہیں، وہ جاتے ہیں تو جائیں، اگر انہیں روکا گیا تو آزاد کشمیر میں گڑ بڑ ہوگی۔ پہلا جتھا سردار عبدالقیوم خان نے لیڈ کرنا تھا کہ وہ سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر میں جائیں گے، ہمیں سول حکومت کی طرف سے آرڈر ملا کہ جاتے ہیں تو جانے دیں، سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے چوہدری غلام عباس کو یقین دلایا تھا کہ ہم نہیں جانے دیں گے، سردار عبدالقیوم خان پہلا جتھا لے کر چلے اور بجائے سیزفائرلائن کراس کرنے کے اس کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا، وہ اس امید میں تھے کہ پولیس آ کے انہیں روکے، سویلین حکومت کے خلاف فوج نے فیصلہ کیا کہ انہیں روکا جائے، چنانچہ انہوں نے سردار عبدالقیوم خان کا پیچھا کیا، سردار صاحب تو پہلے ہی انتظار میں تھے کہ کوئی آ کے روکے، درحقیقت وہ کشمیر چلو کی بات نہیں بلکہ مارشل لا لگاؤ منصوبہ تھا۔
کھیل وہی پرانا مگر کھلاڑی نئے ہیں، تقریباً ساٹھ سال بعد ملٹری ڈیموکریسی کے حمایتی سردار عتیق احمد خان نے 24نومبر کوکنٹرول لائن توڑنے کا فیصلہ کیا ہے، کنٹرول لائن عبور کرنا اچھا آئیڈیا ہے، اگر اسے نیک نیتی سے کیا جائے، اگر اس آئیڈیا کو ایسے مقصد کے بجائے اپنی ذاتی خواہشات کے لیے استعمال کریں گے تو تحریک کو نقصان پہنچے گا۔

Comments

Click here to post a comment