ہوم << جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر - خزیمہ ابن ادریس کیلانی

جتنی دولت چاہیں سمیٹ لیں مگر - خزیمہ ابن ادریس کیلانی

تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اگر ابن آدم کے پاس مٹی کی دو وادیاں بھی ہوں تو تب بھی وہ تیسری کی خواہش کرے گا ، ابن آدم کا پیٹ صرف مٹی ہی بھرسکتی ہے‘‘(صحیح بخاری،حدیث:۶۴۳۶)
انسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ بہترین کھائے، شاہانہ رہن سہن ہو، بہترین شاہی سواری ہو، نوکروں کی موج ظفر ہو جو ہر دم اس کا حکم ماننے کو تیار بیٹھے ہوں۔ تقریبا ہر انسان کا میلان دنیا کی طرف ہوتا ہی ہے خواہ کم ہو یا زیادہ، اور بسا اوقات مختلف معاملات زندگی میں یہ میلان اس کے پاؤں کی ایسی مضبوط زنجیر بن جاتی ہے کہ اسے توڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ مگر معاملہ اس وقت گھمبیر ہوتا ہے جب ایک غریب فاقہ کش آدمی شاہانہ طرز زندگی دیکھتا ہے اور اس کا دل بھی مچلنے لگتا ہے کہ کاش! عیش و عشرت کا یہ سامان، دولت کدہ اور جائیداد اس کے پاس بھی ہو، اس کی بیوی، آل اولاد بھی سونے کے نوالے لے۔ جس امیر آدمی کو دیکھ کر یہ غریب آدمی ایسی سر چڑھی خواہشات کرنے لگتا ہے اور راتوں رات امیر بننے کے خواب بنتا ہے۔ اور جس امیر شخص کو اتنا پرسکون سمجھتا ہے شاید وہ غریب یہ بھی نہ جانتا ہو کہ جس شخص کی چند روزہ زندگی پر وہ رشک کر رہا ہے اسے شاید رات کو نیند بھی نہ آتی ہو، رات کو سکون کے چند لمحات بھی میسر نہ ہوتے ہوں اور نیند کی وادی میں اترنے کے لیے اسے پیسوں کی ضرورت پڑتی ہو، اور شاید وہ اپنے آرام کے لیے دوسروں کی نیندیں بھی حرام کرتا ہو۔ لینڈ کروزرز، بی ایم ڈبلیو میں بیٹھا بظاہر ہنستا مسکراتا انسان نہ جانے اندر سے کتنا کھوکھلا،گھائل اور نجانے کتنی مہلک بیماریوں، اندرونی بے سکونی اور رنج والم کا شکار ہو۔ یہ تو کوئی اسی سے پوچھے تو حقیقت آشکارا ہو۔ الا ماشاء اللہ
آپ کو ایک واقعہ سناتا چلوں، یہ آپ پر منحصر ہے آپ اسے لطیفہ سمجھیے یا ہماری قوم کا المیہ یا ۔۔۔۔۔۔ کی انتہاء، مگر خالی جگہ آپ اپنی پسند سے ضرور پر کیجیے۔ ہمارے محلہ میں کچھ لوگ ہیں،گھر کا سربراہ محکمہ پولیس میں رہ چکا ہے، اور اب اپنے بیٹوں کو بھی باری باری اسی محکمے میں دھکیل رہا ہے۔ ایک دن بچوں کی ماں اپنے اس بیٹے سے کہنے لگی جو ابھی پولیس میں نیا نیا بھرتی ہوا تھا۔ نعیم (فرضی نام) جب سڑک پر کوئی آدمی گرا ہوا ملے تو سب سے پہلے اس کا بٹوہ دیکھا کرو کہ اس میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔دیکھیے ایک ماں مال و زر کی ہوس میں اپنے بیٹے کو اس کا اپنا فرض پورا کرنے کی نصیحت کرنے کے بجائے الٹا اسے کیسے بےہودہ مشورے دے رہی ہے۔ مقام حیرت ہے کہ کس طرح ایک انسان مال کے لالچ میں آکر حلال و حرام کی تمیز یکسر بھول جاتا ہے اور خاص طور پر ایک مسلمان یہ بھی نہیں سوچتا کہ حرام کمائی کا مال اللہ تعالی ایسے طریقوں سے نکالتے ہیں کہ انسان کے لیے پریشانی علیحدہ سے در آتی ہے اور مال کی بربادی علیحدہ سے۔ ایک اور لطیفہ پڑھیےاور سر دھنتے جائیے، راقم اور اس کے بڑے بھائی کے درمیان بات چیت کرتے ہوئے محکمۂ پولیس کا ذکر آگیا توبھائی کہنے لگے میرے کولیگ نے مجھے بتایا کہ میرا ایک دوست جو کہ محکمہ پولیس میں نچلے درجے کا ملازم ہے، اس کی بیوی اس سے روز جھگڑا کرتی اور ڈھیر سارے پیسوں کا تقاضا بھی کرتی۔ ایک دن تنگ آکر کہنے لگی ’’تمہارے پولیس میں ہونے کا کیا فائدہ، جب تم پیسے ہی نہ کما سکو، تمہیں تو مہینے میں لاکھوں کمانے چاہییں۔ مجھے تو بس پیسے چاہییں.‘‘
ذرا غور فرمائیے کہ انسان مال کے لیے کس حد تک جانے کے لیے تیار ہوتا ہے خواہ کسی حق مارا جائے، کسی کی جان چلی جائے، لیکن انسان کا ایک حد میں رہ کر مال کی خواہش کرنا بالکل بھی معیوب نہیں ہے اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے بشرطیکہ ارتکاز دولت چند ہاتھوں میں نہ رہے بلکہ غریبوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود تجارت کی طرف ترغیب دلائی ہے۔اور یہاں تک کہ ایک شخص کو فرمایا کہ ’’تم جو رزق اپنے اہل خانہ کو کھلاؤ، وہ بھی تمہارے لیے باعث اجر ہے۔‘‘
ہمارے معاشرے میں چونکہ سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے اور اس میں یہی معیوب بات ہے کہ انسان مال کی خواہش میں حرام وحلال کا خیال رکھے بغیر دن رات ایک کرکے سرمایہ دار بن جاتا ہے۔ اس نظام کے نتیجے میں ایک غریب مسلسل غریب اور امیر امیر تر بن جاتا ہے۔ حقوق اللہ و حقوق العباد کا خیال رکھے بغیر جعلی ادویات کے کارخانے کھلتے ہیں، عوام کو دودھ کے نام پر سرف اور نہ جانے کیا کیا پلایا جاتا ہے، شہر میں گدھوں کی بھرمار ہو تو عوام کو سستے گائے بھینس کے گوشت کے نام پر حرام کھلایا جاتا ہے، اور اگر ضمیر بالکل ہی مردہ ہو جائے تو راولپنڈی سے لاہور لاتے ہوئے منوں کے حساب سے خنزیر کا گوشت پکڑا جاتا ہے، ایک ایک پلاٹ دس بندوں کو بیچا جاتا ہے، پورے شہر کا پولٹری فارم ایک بااثر حکومتی عہدیدار کے قبضے آجاتا ہے جب چاہے گوشت اور انڈوں کی قیمتیں بڑھادے یا گھٹا دے، تعلیم کو معاش کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور بعض لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا کہ جب لوگ ہی ایسی نامناسب فیس دیں تو ہم انہیں اچھا کیوں پڑھائیں؟ زلزلہ و سیلاب زدگان کے لیے بیرونی امداد حکومتی اکاؤنٹ میں جمع کروانے کے بجائے اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروالی جاتی ہے، مصیبت زدہ قوم کے لیے ترکی کی خاتون اول کی طرف سے دیا گیا بیش قیمت ہار پاکستانی عوام کے لیے نہیں بلکہ اس وزیراعظم کی اہلیہ کے گلے کی زینت بنتا ہے، جو ہر سال 10 محرم کے موقع پر اپنی اور اپنے باپ کی نسبت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کرتے ہوئے اپنے آپ کو سادات میں سے بتاتا ہے۔ فخر کرنا نہیں بھولتا، مگر بھول بیٹھتا ہے کہ جس مقدس ہستی کی طرف وہ نسبت کر رہا ہے، وہ نسبت اس سے کیا تقاضا کرتی ہے، ماپ تول میں کمی کی جاتی ہے، بیرون ملک مال برآمد کرنے لیے مال کچھ دکھایا جاتا ہے اور بھیجا کچھ اور جاتا ہے۔ اور حیرت تو ان لوگوں پر ہوتی ہے جو خود تو دیدہ دلیری کے ساتھ سال کے 365 دن خوب جی بھر کر کرپشن کی گندگی میں لتھڑے رہتے ہیں اور اس سے دوگنا اپنے حکمرانوں کو کوستے ہیں کہ ہمارے حکمران تو ہیں ہی کرپٹ، چوتھے درجے کے ملازم سے لے کر بائیسویں گریڈ کے افسر تک سبھی کرپشن کے ناسور میں ایسے لتھڑے نظر آتے ہیں کہ کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتے ہیں، اور اگر کوئی ایماندار افسر آجائے تو سب اسے کھڈے لائن لگوانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ یہ تگ و دو صرف اس مال کے حصول کے لیے کی جاتی ہے جس کے بارے میں ہر امیر غریب سبھی کومعلوم ہے کہ یہ مال کچھ عرصہ کے لیے ہی ان ملکیت ہے، پھر قبضے سے نکل جائے گا۔

Comments

Click here to post a comment