ہوم << کہاوتوں کی دِلچسپ کہانیاں..پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی

کہاوتوں کی دِلچسپ کہانیاں..پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی

Chand-Mashoor-300x336
“دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا یا ہوجانا” اس کہاوت کا مطلب ہے انصاف ہونا اور یہ ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب سچ اور جھوٹ الگ ہوجائیں اورہر کسی کو اس کے اچھے یا برے کام کا بدلا ملے۔ اس کا قصہ یوں ہے کہ ایک گوالا بڑا بے ایمان تھا اور دودھ میں پانی ملا کر بیچا کرتا تھا۔ بہت جلد اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کر لئے۔
ایک روز اس نے ساری رقم ایک تھیلی میں ڈالی اور اپنے گاؤں کی طرف چلا۔ گرمی کا موسم تھا۔ پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا۔ گوالے کے راستے میں ایک دریا پڑا۔ اس نے سوچا چلو نہا لیتے ہیں۔ روپوئوں کی تھیلی اس نے ایک درخت کے نیچے رکھی۔ تھیلی پر کپڑے ڈال دئیے اور لنگوٹ کس کر پانی میں کود پڑا۔ اس علاقے میں بندر بہت پائے جاتے تھے۔
اتفاق کی بات ایک بندر درخت پر چڑھا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ گوالے کے پانی میں اترتے ہی بندر درخت سے اترا اور رپوئوں کی تھیلی لے کر درخت کی ایک اونچی شاخ پر جا بیٹھا۔ گوالا پانی سے نکلا اور بندر کو ڈرانے لگا، لیکن بندر نے تھیلی کھولی اور روپے ایک ایک کر کے ہوا میں اڑانے لگا۔
درخت دریا کے کنارے سے بہت قریب تھا اور روپے اُڑ اُڑ کر پانی میں گرنے لگے۔ گوالے نے روپوئوں کو پکڑنے کی بہت کوشش کی، لیکن پھر بھی آدھے روپے پانی میں جا گرے۔ راستہ چلتے لوگ جو گوالے کی بے ایمانی سے واقف تھے اور یہ تماشادیکھنے لئے جمع ہوگئے۔ گوالے کی چیخ و پکار سن کر کہنے لگے،”دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوگیا۔” یعنی گوالے نے جو آدھے پیسے دودھ میں پانی ملا کر بے ایمانی سے کمائے تھے وہ پانی میں مل گئے۔
“ناؤ میں خاک اڑانا” ناؤ کا مطلب ہے کشتی۔ اب آپ کہیں گے کہ کشتی میں خاک یعنی مٹی بھلا کوئی کیسے اڑا سکتا ہے۔ یہ تو بے تکی بات ہوئی، تو جناب اس کہاوت کا مطلب ہے بے تکا بہانہ بنانا۔ یہ کہاوت ایسے موقع پر بولی جاتی ہے جب کوئی شخص ایک نا حق بات کہے اور پھر اسے صحیح ثابت کرنے کے لئے الٹے سیدھے بہانے تراشے یا کوئی کسی پر ظلم کرنے کے لئے بے تکی دلیل دے۔
اس کا قصہ بھی سنئیے۔ ایک کشتی میں شیر اور بکری اکٹھے دریا پار جارہے تھے۔ بکری کو دیکھ کر شیر کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے سوچا کہ کسی بہانے سے اسے ہڑپ کرنا چاہیے۔ آخر کوئی بہانہ نہ ملا تو بولا، “اے نالائق! ناؤ میں خاک کیوں اڑا رہی ہو؟ اگر میری آنکھ میں خاک چلی گئی تو؟”بکری نے جواب دیا، “ناؤ میں بھلا خاک کہاں؟”اس پر شیر بولا، “بد تمیز، زبان چلاتی ہے۔” اور اسے کھا گیا۔
بھیگی بلی بن جانا یا بھیگی بلی بتانا اس محاورہ کا مطلب ہے کمزور اور سیدھا سادہ بن جانا یا ڈر کر چپ ہو جانا۔ اسے یوں بھی بولتے ہیں بھیگی بلی بتانا۔ جس کا مطلب ہے سستی کی وجہ سے بہانہ کرنا، ٹالنا، کام نہ کرنے کے لیے کوئی بہانہ کر دینا، کام چوری کرنا۔ اگر کوئی شخص کام کو ٹالنے کے لیے کوئی بہانہ کرے تو کہا جاسکتا ہے، “یہیں پر بیٹھے بیٹھے بھیگی بلی بتا رہے ہو۔” اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک صاحب نے اپنے نوکر سے لیٹے لیٹے پوچھا، کیا باہر بارش ہو رہی ہے؟
نوکر بھی چارپائی پر پڑا اینڈ رہا تھا۔ نیند آ رہی ہو تو کس کا جی اٹھنے کو چاہتا ہے۔اس نے وہیں پڑے پڑے کہہ دیا، “ہاں جی ہو رہی ہے۔” ان صاحب نے کہا، “تم عجیب آدمی ہو۔ باہر گئے نہیں اور دیکھے بغیر کہہ دیا کہ ہاں ہو رہی ہے۔”
نوکر نے جلد بہانہ کیا، “ابھی بلّی باہر سے آئی تھی۔ میں نے دیکھا تو وہ بھیگی ہوئی تھی۔” حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں مطلب یہ کہ تھوڑا علم خطرناک ہوتا ہے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص تھوڑا سا علم حاصل کر کے خود کو بہت قابل سمجھے اور جب اس علم پر عمل کرنے بیٹھے تو اپنی بے وقوفی کی وجہ سے نقصان اٹھائے، مگر نقصان کی وجہ اس کی سمجھ میں نہ آئے۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک صاحب زادے نے حساب کا علم سیکھنا شروع کیا۔ ایک روز استاد نے اوسط کا قاعدہ بتایا۔ انہوں نے اسے رٹ لیا۔ شام کو گھر گئے تو گھر والے دریا پار جانے کو تیار بیٹھے تھے۔ یہ حضرت بھی ساتھ ہو لیے۔ دریا کے کنارے پہنچنے پر گھر والوں نے کشتی تلاش کرنی شروع کی۔ یہ صاحب زادے اوسط کا قاعدہ پڑھ چکے تھے۔
جب کشتی والوں سے انہیں معلوم ہوا کہ دریا کناروں سے دو دو فٹ گہرا ہے اور درمیان میں آٹھ فٹ تو فوراً دونوں کناروں کی گہرائی یعنی دو اور دو چار فٹ اور درمیان کی گہرائی آٹھ فٹ جمع کر کے کل بارہ فٹ کو تین پر تقسیم کر دیا۔ جواب آیا “اوسط گہرائی چار فٹ”۔ اس قاعدے سے تو دریا کی گہرائی بالکل کم تھی۔
اس لئے انہوں نے خوشی خوشی گھر والوں کو بتایا کہ کشتی کا کرایہ بچ جائے گا۔ بغیر کشتی کے بھی دریا پار کیا جا سکتا ہے۔ میں نے حساب لگا کر دیکھا ہے۔ اس دریا کی اوسط گہرائی چار فٹ ہے۔ یہ سن کر گھر والے دریا پار کرنے کو تیار ہو گئے۔ پورا کنبہ یعنی گھر والے سامان لے کر دریا میں کود پڑے اور دریا کے بیچ میں پہنچ کر آٹھ فٹ گہرے پانی میں ڈوبنے لگے۔ کشتی والوں نے بڑی مشکل سے انہیں بچایا۔ صاحب زادے پانی میں شرابور کنارے پر پہنچے تو دوبارہ حساب جوڑا۔ وہی جواب آیا۔
پریشان ہو کر بولے، “حساب جوں کا توں کنبہ ڈوبا کیوں؟”
یہ منہ اور مسور کی دال
اس کہاوت کا مطلب ہے کہ یہ منہ اس کام یا ذمہ داری کے قابل نہیں اور اسی منہ سے کہتے ہو کہ ہم یہ کریں گے ہم وہ کریں گے۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کسی سے یہ کہنا ہو کہ تم نالائق ہو اور فلاں کام نہیں کر سکتے۔
اس کا قصّہ بھی سنیے۔ کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا باورچی ایک نواب کے ہاں نوکر ہوگیا۔
نواب نے اس سے پوچھا، “تم کیا چیز سب سے اچھی پکاتے ہو؟”
وہ بولا، “مسور کی دال ایسی مزید ار پکاتا ہوں کہ جو کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔”
نواب نے کہا، “اچھا کل ہمارے ہاں دعوت ہے۔ کل ہی مسور کی دال پکا کر دکھاؤ تو جانیں۔”
باورچی نے حامی بھر لی۔ اگلے روز شامیانہ بندھا۔ مہمان آئے۔ باورچی نے مسور کی دال طشتری میں نکال کر پیش کی۔ پورا شامیانہ مہک اٹھا۔ نواب صاحب آئے۔ دال چکھی۔ واقعی ایسی ذائقے دار اور مزیدار دال کبھی نہ کھائی تھی۔ اش اش کر اٹھے، لیکن تھے آخر کو کنجوس، خرچ کا خیال آگیا۔ بادشاہ ہوتے تو خرچ کی فکر نہ کرتے، لیکن باورچی بادشاہ کے محل میں کام کر چکا تھا۔ دل کھول کر خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اس لیے جب نواب صاحب نے پوچھا کہ دال تو بہت مزے کی ہے، مگر خرچ کتنا اٹھا، تو باورچی کو بہت برا لگا۔
ضبط کر کے بولا، “دو آنے کی دال ہے، بتیس روپے کا مسالا ہے۔”
سستا زمانہ تھا۔ نواب صاحب اتنی مہنگی دال کا سن کر چیخ پڑے، “کیا کہا! بتیس روپے دو آنے کی مسور کی دال!”
باورچی تو بھرا بیٹھا تھا۔ طیش میں آکر جیب سے بتیس روپے دو آنے نکال کر رکھ دیے اور دال کا برتن زمین پر پٹخ دیا اور کہا، “اونھ! یہ منہ اور مسور کی دال۔”
یہ کہہ کر چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ دال شامیانے کے جس بانس پر گری تھی وہ کچھ روز بعد مسالے کے اثر سے سر سبز ہوگیا اور اس طرح یہ کہاوت مشہور ہوگئی۔
چور کے گھر مور یا چور کو مور پڑنا یعنی خود چور کے گھر چوری ہو گئی۔ یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص بے ایمان کے ساتھ بے ایمانی کرے یا کسی ٹھگ کو کوئی شخص ٹھگ لے۔ مور ایک ایسا پرندہ ہے جو چھوٹے موٹے سانپ کھا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک چور نے ایک قیمتی ہار چوری کیا اور گھر میں لا کر ایک طرف ڈال دیا۔ گھر میں مور تھا۔ مور نے ہار کو سانپ سمجھ کر نگل لیا۔ چور نے یہ معاملہ دیکھا تو بولا، “بہت خوب! چور کے گھر مور۔” اس کہاوت کو یوں بھی بولتے ہیں ’’چورکو مور پڑ گئے۔”
بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا لنڈورا یعنی دم کٹا۔ مطلب یہ کہ کسی کام میں نقصان ہو جائے تو مزید نقصان سے بچنے کے لئے اس کام کو چھوڑ دینا چاہئے۔یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی چالاک شخص اپنی چکنی چپڑی باتوں سے کسی کو دھوکا دینا چاہے اور وہ اس سے ایک دفعہ نقصان اٹھا چکنے کی وجہ سے دوبارہ اس کی باتوں میں نہ آئے۔
اس کا قصہ یہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بلی نے ایک چوہے کو پکڑنے کے لئے چھلانگ لگائی۔ چوہا جھکائی دے کر بچ نکلا مگر پھر بھی بلی نے جاتے جاتے ایک پنجہ مار کر اس کی دم اکھیڑ لی۔ چوہا جان سلامت لے کر بل میں پہنچا تو خدا کا شکر ادا کیا اگرچہ اسے لنڈورا ہونے کا بے حد دکھ تھا۔ بلی بہت کائیاں تھی۔
اس نے ہاتھ آئے شکارکویوں جاتے دیکھا تو ایک چال چلی۔ چوہے کے بل کے پاس جاکر بولی، “ارے بھانجے، تو تو مجھ سے خواہ مخواہ ہی ڈر گیا۔ میں تو تیری خالہ ہوں۔ تجھ سے مذاق کر رہی تھی۔ چل آ باہر آ! تیری دم جوڑ دوں۔ لنڈورا بہت برا معلوم ہوگا۔” مگر چوہا بھی بہت سیانا تھا۔ بلی کی نیت بھانپ کر بولا، “بخشو بی خالہ بلی! میں لنڈورا ہی بھلا” ٹیڑھی کھیر ہونا یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔
اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، “کھیر کھاؤ گے؟”
تو فقیر نے سوال کیا، “کھیر کیسی ہوتی ہے؟”
اس شخص نے جواب دیا، “سفید ہوتی ہے۔”
اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، “سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟”
اس شخص نے کہا،”بگلے جیسا۔”
فقیر نے پوچھا، “بگلا کیسا ہوتا ہے؟” اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا،”بگلا ایسا ہوتا ہے۔ “نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، “نہ بابا یہ توبہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔”
اس کہاوت کا مطلب ہے عقل کے خلاف بات کہنا یا رواج کے خلاف کرنا۔ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جو بالکل الٹی،کم عقلی کی یا ناممکن ہو تو ایسے موقع پر یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔
اس کہاوت کا پسِ منظر یہ ہے کہ ایک عورت بہت ضدی تھی۔ اس کا شوہر اس سے جو کہتا وہ اس کے برعکس کام کرتی۔ ایک روز شوہر نے تنگ آ کر کہا، “تم اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ۔”
وہ بولی، “ہرگز نہیں جاؤں گی۔”
شوہر نے کہا، “اچھا مت جاؤ۔”
کہنے لگی، “ضرور جاؤں گی۔”
شوہر بولا، “کل جانا۔”
بولی، “ابھی اور اسی وقت چلی جاؤں گی۔”
شوہر نے کہا، “خود ہی جاؤ اکیلی۔”
کہنے لگی، “تم چھوڑنے چلو گے، اکیلی تو ہرگز نہیں جاؤں گی۔” مجبوراً شوہر اس کے ساتھ ہولیا۔ دونوں چلے۔ راستے میں دریائے گنگا پڑتا تھا۔
شوہر نے کہا، “تم ٹھہرو میں کشتی لاتا ہوں۔”
عورت بولی، “کشتی نہیں چاہئے۔ میں تیر کر جاؤں گی۔”
شوہر نے اسے بہت سمجھایا کہ پانی گہرا ہے اور بہاؤ بھی تیز ہے، مگر اس ضدی عورت نے ایک نہ مانی اور پانی میں کود پڑی۔ ظاہر ہے ڈوبنا تو تھا ہی۔ پانی میں غوطے کھانے لگی اور پانی کے تیز بہاؤ کے ساتھ بہتی ہوئی جانے لگی۔ شوہر نے یہ دیکھا تو اسے بچانے کے لیے دوڑا، مگر بہاؤ کے ساتھ دوڑنے کے بجائے بہاؤ کی مخالف سمت کنارے کنارے بھاگنے لگا۔ ایک شخص یہ سارا ماجرا دیکھ رہا تھا۔ اس نے پوچھا، “وہ پانی کے ساتھ بہہ کر نیچے کی طرف گئی ہوگی، تم بہاؤ کے الٹ اوپر کیوں اسے پکڑنے جا رہے ہو؟”
اس پر اس نے جواب دیا، “تم اسے نہیں جانتے۔ وہ بہت ضدی ہے۔ یہاں بھی الٹی گنگا بہائے گی۔
اندھیر نگری چوپٹ راج
( اندھیر نگری چوپٹ راجا، ٹکے سیر بھاجی ٹکے سیر کھاجا)
بھاجی کا مطلب ہے پکی ہوئی سبزی اور ترکاری اور کھاجا ایک قسم کی مٹھائی کا نام ہے۔ اس کہاوت کا مطلب ہے کہ اگر حاکم بیوقوف یا نالائق ہو تو ملک میں لوٹ مار اور بے انصافی عام ہو جاتی ہے۔
یہ کہاوت عموماً ایسے وقت بولی جاتی ہے جب کسی جگہ، ملک، شہر یا ادارے کے بارے میں یہ بتانا ہو کہ وہاں اچھے برے کی تمیز نہیں، بد نظمی ہے، لوٹ مار مچی ہوئی ہے اور کسی کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔
اس کی کہانی یہ ہے کہ ایک گرو اور اس کا چیلا ایک ایسے شہر سے گزرے جہاں ہر چیز ٹکے سیر بکتی تھی۔ چاہے سبزی ہو یا مٹھائی۔ سستی سے سستی اور مہنگی سے مہنگی چیز کے دام ایک ہی تھے، یعنی ایک ٹکے کا ایک سیر۔
اتنا سستا شہر دیکھ کر چیلے کا جی للچا گیا۔ گرو سے کہنے لگا، “یہیں رہ جاتے ہیں۔ مزے مزے کی چیزیں خوب پیٹ بھر کر کھایا کریں گے۔”
گرو نے چیلے کو سمجھایا کہ ایسی جگہ رہنا ٹھیک نہیں جہاں اچھے اور برے میں کوئی فرق نہیں، لیکن چیلا نہ مانا۔ گرو اسے وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ادھر چیلا مٹھائیاں اور روغنی کھانے کھا کھا کر خوب موٹا ہوگیا۔ ایک دن شہر میں ایک شخص کو کسی نے جان سے مار دیا۔ سپاہیوں نے قاتل کو بہت تلاش کیا لیکن اسے نہ پکڑسکے۔ مرنے والے کے رشتے داروں نے راجا سے فریاد کی کہ ہمیں جان کا بدلہ جان سے دلایا جائے۔ راجا کو پتا چلا کہ قاتل کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ اندھیر نگری تو تھی ہی اور سارا کام کاج تو ویسے بھی چوپٹ تھا۔ اس بیوقوف راجا نے حکم دیا، “کوئی بات نہیں، جان کا بدلہ جان سے لیا جائے گا۔ شہر میں جو آدمی سب سے موٹا ہو اسے پکڑ کر پھانسی دے دو۔ انصاف ہو جائے گا۔”
ٹکے سیر مٹھائی کھا کر موٹا ہونے والا چیلا ہی شہر میں سب سے موٹا نکلا۔ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور چلے پھانسی دینے۔ اتفاق سے گرو جی دوبارہ وہاں سے گزرے۔ چیلے نے انہیں دیکھ کر دہائی دی۔
گرو نے سارا معاملہ سن کر کہا، “میں تم سے پہلے ہی کہتا تھا یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہاں برے اور بھلے میں کوئی تمیز نہیں۔ خیر اب کوئی تدبیر کرتا ہوں۔”
یہ کہہ کر گرو نے سپاہیوں سے کہا، “اسے چھوڑ دو، مجھے پھانسی دے دو، تمھاری مہربانی ہوگی۔”
سپاہیوں نے حیران ہو کر پوچھا، “کیوں؟”
گرو نے جواب دیا، “اس لیے کہ یہ وقت موت کے لئے بہت اچھا ہے۔ اس وقت جو پھانسی لگ کر مرے گا وہ سیدھا جنّت میں جائے گا۔”
یہ سن کر سارے سپاہی پھانسی پر چڑھنے کو تیار ہو گئے۔کوتوال نے یہ سنا تو کہا، “سب کو چھوڑو پہلے مجھے پھانسی دو۔”
اس طرح پورے شہر میں “مجھے پھانسی دو، مجھے پھانسی دو” کا شور مچ گیا۔راجا کو پتا چلا تو اس نے کہا، “جنّت میں جانے کا پہلا حق میرا ہے۔ پہلے مجھے پھانسی دو۔”پس راجا کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح چیلے کی جان بچی اور گرو جی اسے لے کر بھاگے۔
ٹیڑھی کھیر ہونا یعنی مشکل کام ہے۔ یہ کہاوت ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی ٹیڑھا اور بہت مشکل کام سر پر آن پڑے۔ اس کا قصّہ یہ ہے کہ ایک شخص نے کھیر پکائی۔ سوچا اللہ کے نام پر کسی فقیر کو بھی تھوڑی سی کھیر دینی چاہیے۔ اسے جو پہلا فقیر ملا وہ اتفاق سے نابینا تھا اور اس فقیر نے کبھی کھیر نہیں کھائی تھی۔ جب اس شخص نے فقیر سے پوچھا، “کھیر کھاؤ گے؟”
تو فقیر نے سوال کیا، “کھیر کیسی ہوتی ہے؟”
اس شخص نے جواب دیا، “سفید ہوتی ہے۔”
اندھے نے سفید رنگ بھلا کہاں دیکھا تھا۔ پوچھنے لگا، “سفید رنگ کیسا ہوتا ہے؟”
اس شخص نے کہا، “بگلے جیسا۔”
فقیر نے پوچھا، “بگلا کیسا ہوتا ہے؟”
اس پر اس شخص نے ہاتھ اٹھایا اور انگلیوں اور ہتھیلی کو ٹیڑھا کر کے بگلے کی گردن کی طرح بنایا اور بولا، “بگلا ایسا ہوتا ہے۔”
نابینا فقیر نے اپنے ہاتھ سے اس شخص کے ہاتھ کو ٹٹولا اور کہنے لگا، “نہ بابا یہ توبہت ٹیڑھی کھیر ہے۔ یہ گلے میں اٹک جائے گی۔ میں یہ کھیر نہیں کھا سکتا۔”
اونٹ کے گلے میں بلّی باندھنا مطلب یہ کہ فالتو چیز کی قیمت کام کی چیز سے زیادہ ہے۔ یہ ایسے وقت بولتے ہیں جب کوئی شخص ضروری چیز کے ساتھ غیر ضروری چیز خریدنے کی شرط رکھے یا ایک مفید کام کے ساتھ نقصان دہ کام لازم ہو جائے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص کا اونٹ کھو گیا۔ اس نے اونٹ کو بہت تلاش کیا۔ سارا شہر چھان مارا پر اونٹ کا کہیں پتا نہ چلا۔ اس پر اسے اتنا غصّہ آیا کہ قسم کھالی کہ اگر اونٹ مل گیا تو ایک روپے میں بیچ دوں گا۔ یہ بات چاروں طرف پھیل گئی۔ اللہ؟کا کرنا یہ ہوا کہ جلد ہی اس کا اونٹ مل گیا۔ لوگوں کو پتا چلا تو اس کا اونٹ ایک روپے میں خریدنے اس کے گھر پہنچے۔
اب تو وہ شخص بہت گھبرایا۔ ایک دوست سے مشورہ کیا۔ اس عقلمند دوست نے اسے مشورہ دیا، “اونٹ کے گلے میں لمبی سی رسّی باندھو اور رسّی کے دوسرے سرے پر ایک بلّی باندھ دو۔ اونٹ کی قیمت تو بیشک ایک ہی روپیہ رکھو، لیکن بلّی کی قیمت ایک سو روپیہ رکھو۔ خریدار کے لیے ضروری ہو کہ وہ اونٹ کے ساتھ بلّی بھی خریدے۔ صرف اونٹ اکیلا نہیں بیچا جائے گا۔” اس نے ایسا ہی کیا۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے کہ یہ تو اونٹ کے گلے میں بلّی ہے۔ اور یہ کہاوت مشہور ہو گئی۔

Comments

Click here to post a comment

  • "دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہونا یا ہوجانا" "ٹیڑھی کھیر ہونا" "اونٹ کے گلے میں بلّی باندھنا" "بھیگی بلی بن جانا یا بھیگی بلی بتانا" یہ کہاوتیں نہیں بلکہ محاورے ہیں۔۔ قبلہ پروفیسر صاحب کو چاہیے کہ قواعد کتابیں بھی دیکھ لیا کریں

    • جی نھیں وصی کھوکر بھائی ،
      بابائے اُردو مولوی عبد الحق صاحب نے اپنی جامع " لغت کبیر" مطبوعہ 1961 عیسوی ، اِن تراکیب کو بطور "کہاوت " ہی منتخب کیا ہے کیونکہ ان کے پیچھے باقاعدہ ایک کہانی یا " تمثیل " ہے ۔
      مزید دیکھئے :
      (اُردو ریسرچ جرنل ، یکم اگست 2014 عیسوی اردو تحقیق میں جدید ذرائع کا استعمال ٭ عزیر اسرائیل٭)
      عامر سلیم ( جامعۂ پنجاب )