ہوم << خامہ بگوش کے قلم سے

خامہ بگوش کے قلم سے

khana-badosh-300x336
نوری نستعلیق کا ذکر آیا تو ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ کچھ عرصہ ہوا نوری نستعلیق کے موجد جناب جمیل مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی تھی۔ اس کے بعد عشائیہ بھی تھا۔ جمیل مرزا صاحب نے ایک صحافی سے پوچھا: ’’کیا آپ کو کھانا پسند آیا؟‘‘ صحافی نے جواب دیا: ’’بہت مزے کا کھانا ہے۔ ایسا معلوم ہو رہا ہے جیسے میں نوری نستعلیق نگل رہا ہوں۔‘‘
معاف کیجیے، ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ بات شعروں سے شروع ہوئی تھی اور ہم یہ عرض کر رہے تھے کہ مذکورہ شعر ہماری تصنیفِ لطیف نہیں ہیں۔ ممکن ہے بعض لوگ انھیں مولانا کوثر نیازی کے رشحاتِ فکر سمجھیں لیکن یہ بھی درست نہیں کیوں کہ تیسرے شعر میں تانیث کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ مولانا صاحب اپنی سیاسی وفاداریاں بدل سکتے ہیں، صیغہ نہیں بدل سکتے۔
تمھاری یاد میں بکھر بکھر جاتا ہوں
خود سے پوچھتا ہوں کیا سبب تھا بے وفائی کا
زندگی کی طلب ہے نہ مرنے کا مؤقف
جانے کیسے بے دلی کے عالم میں جی رہے ہیں ہم
ہزار تلخیاں ہیں اپنی ذات کے ساتھ
میں کہاں بھٹک گئی ہوں تیری یاد کے ساتھ
قارئین کرام کو زیادہ دیر تک سسپنس میں رکھنا مناسب نہیں، لہٰذا ہم بتائے دیتے ہیں کہ مذکورہ اشعار گلوکارہ ناہید اختر کے ہیں۔ لاہور کے ایک اخبار میں موصوفہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ:’’ یوں تو مجھے شروع ہی سے شعر گوئی کا شوق تھا لیکن گلوکاری کی مصروفیات کی وجہ سے میں اپنا شوق پورا نہ کرسکی۔ گزشتہ تین چار برس سے شعر کہنے کا شوق پھر زور پکڑ گیا تو میں نے طبع آزمائی شروع کر دی اور اب تک کئی غزلیں لکھ چکی ہوں۔‘‘
محترمہ کا نمونۂ کلام دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں شعر کہنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔ کاش وہ گلوکاری کی مصروفیات کو بہانہ بنا کر شاعری کے شوق کو نہ دبائیں۔ مصروفیات تو قتیل شفائی اور اقبال صفی پوری کی بھی تھیں لیکن انھوں نے کبھی اپنے شوق کو نہیں دبایا۔ ہمیشہ شاعری کو دباتے رہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ شاعری اس حد تک دب گئی ہے کہ آج ان دونوں کا شمار بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔
بہرحال یہ امر مسرت کا باعث ہے کہ گزشتہ تین چار برسوں سے ناہید اختر کا شوقِ شاعری زور پکڑ گیا ہے۔ شاید اسی زور آزمائی کا نتیجہ ہے کہ ان کے شعر عروض کی پٹڑی سے اتر گئے لیکن یہ کوئی اعتراض کی بات نہیں۔ اچھے شعر کے لیے ضروری نہیں کہ وہ عروض کا پابند ہو۔ جب کسی شعر میں کام کی اور بہت
سی باتیں ہوں، عروض تو کیا معنوں کو بھی بآسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ محترمہ کے جو تین شعر اوپر درج کیے گئے ہیں ان میں بے شمار خوبیاں ہیں۔ مثلاً پہلے شعر ہی کو لیجیے۔ اس میں محترمہ نے اپنے لیے تذکیر کا صیغہ استعمال کیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی سکت رکھتی ہیں۔ کسی کی بے وفائی کا سبب انھوں نے اپنے آپ سے پوچھا ہے، کوئی کم ہمت ہوتا تو فال نکالنے والے توتے سے پوچھتا۔
اگر ہم صاحبِ دیوان ہوتے تو اپنا دیوان دے کر محترمہ سے ان کے تینوں شعر لے لیتے۔ اب ہم یہی کر سکتے کہ محسن بھوپالی کے تینوں دیوان محترمہ کے حوالے کر دیں اور محترمہ کے تینوں شعر محسن بھوپالی کو سونپ دیں۔ سودا بُرا نہیں۔ محسن صاحب فائدے ہی میں رہیں گے کیوں کہ محترمہ نے اعلان کیا ہے کہ آیندہ وہ ٹی وی پر خود اپنا کلام گایا کریں گی۔ محسن بھوپالی کے کلام کو جب وہ اپنا کلام سمجھ کر گائیں گی تو یہ کلام زبان زدِ خاص و عام ہوجائے گا۔
ممکن ہے بعض لوگ یہ پوچھیں کہ ناہید اختر کے تین شعر محسن بھوپالی کے کس کام آئیں گے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تینوں دیوان ناہید اختر کو دے دینے کے بعد محسن بھوپالی کے پاس کچھ نہ کچھ رہنا چاہیے۔ اگلے سال ساداتِ امروہہ کے مشاعرے میں انھیں کلام سنانا ہی ہوگا۔ یہ تین شعر وہاں کام آئیں گے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ساداتِ امروہہ کے مشاعروں میں شعروں سے زیادہ شاعر کام آتے ہیں۔
ناہید اختر نے بتایا کہ ان میں شعر گوئی کا شوق احمدفراز اور پروین شاکر کی شاعری کے مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ فراز اور پروین کی شاعری کے مطالعے کا کوئی مثبت نتیجہ ظاہر ہوا‘ ورنہ اب تک تو ہم نے یہی دیکھا تھا کہ ان دونوں کے کلام سے متاثر ہو کر لوگ شاعری ترک کر دیتے تھے۔
AhmedMirzaJameel-GS-Web
ویسے بھی آج کل زمانہ بہت خراب ہے۔ ہم نے کئی ایسے استاد دیکھے ہیں جو اصلاح کے بہانے شاگردوں کا کلام ہتھیالیتے ہیں۔ اس سلسلے میں استاد اختر انصاری اکبر آبادی کا ایک واقعہ ان کے شاگرد سلطان جمیل نے سنایا ہے۔ سلطان جمیل اب تو اپنے منہ کا مزہ بدلنے اور دوسروں کے منہ کا مزہ خراب کرنے کے لیے
افسانے لکھتے ہیں لیکن کسی زمانے میں شعر بھی کہا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنی ایک غزل استاد کو اصلاح کے لیے دی۔ کچھ دنوں بعد شاگرد نے غزل واپس مانگی تو استاد نے کہا: ’’میاں طبیعت پر زور دے کر شعر کہا کرو تمھاری غزل تو بڑی بے مزہ تھی۔ اصلاح کی گنجائش بالکل نہیں تھی، اس لیے میں نے پھاڑ کر پھینک دی۔‘‘
کچھ عرصے بعد یہی غزل استاد نے اپنے رسالے میں اپنے نام سے شائع کر دی۔ شاگرد نے دیکھی تو شکوہ کیا: ’’استاد! آپ نے تو کہا تھا کہ غزل پھاڑ کر پھینک دی، پھر یہ رسالے میں آپ کے نام سے کیسے چھپ گئی؟‘‘ استاد نے فرمایا: ’’میاں غلطی ہوگئی۔ جیب میں تمھاری غزل رکھی تھی اور میری بھی۔ اپنی غزل میں نے پھاڑ کر پھینک دی اور تمھاری غزل کاتب کے حوالے کر دی۔ آیندہ اصلاح کے لیے مجھے تم دو غزلیں دینا تاکہ ایک پھاڑ کر پھینک دوں تو دوسری اصلاح کے بعد تمھیں واپس کر دوں۔‘‘

Comments

Click here to post a comment

  • خامہ بگوش کے قلم سے '' یہ دوسرے تحریر پڑھی۔ بہت خوبصورت تحریر ہے۔۔ ہم تو مشفق خواجہ صاحب کے نام سے بھی واقف نہیں تھے۔ اتنی اچھی تحریر شئیر کرنے کا شکریہ دوست!