ہوم << دہشت گرد کون؟ مرزا شہباز حسنین بیگ

دہشت گرد کون؟ مرزا شہباز حسنین بیگ

مرزا شہباز حسنین بیگ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر اک تحریر نظر سے گذری۔ اعداد و شمار کے مطابق یہ بتایا گیا تھا کہ چنگیزخان، ہلاکو خان اور ہٹلر نے کروڑوں انسانوں کا قتل عام کیا۔ سب جانتے ہیں کہ تینوں مسلمان نہیں تھے جبکہ موجودہ دور میں مسلمان کو دہشت گرد ٹھہرایا جا رہا ہےآخر کیوں؟ اب مگر ہم سب پر لازم ہے کہ تدبر اور فکر کو کام میں لاتے ہوئے اس کیوں کا جواب تلاش کریں۔ مقام حیرت ہے کہ عصر حاضر میں دنیا کےتمام خطوں میں مرنے والوں کی اکثریت بھی مسلمان ہے، اور مارنے والے بھی مسلمان ہیں. معصوم نہتےانسان کی جان لینےوالے کودہشت گرد کہا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں مری محدود فکر کےمطابق روئے زمین پر دہشت گردی کا یہ الزام امت مسلمہ نے اپنی ناعاقبت اندیشی کی بدولت خود پر چسپاں کروایا ہے۔
مسلمان بدقسمتی سے ابھی تک فکری مغالطے کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ عصری علوم اور فکری تقاضوں سے یکسر نابلد۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں عدم دل چسپی کا یہ عالم ہے کہ پوری امت مسلمہ انھی یھود و نصاری کی محتاج ہے، جن کی سازشوں کا رونا ہر وقت نام نہاد علماء روتے ہیں۔ تعلیم کی عدم موجودگی میں شعور اور آگہی ناپید ہو جا تی ہے، جب فکر اور سوچ پر قدغن مذہب کے نام پر لگائی جائے اور سوال اٹھانے والا مجرم ٹھہرے تو معاشرہ زوال پذیر ہو جاتا ہے۔ انسان اور حیوانوں میں بنیادی فرق عقل کا ہے، جب وہ رخصت ہو جائے تو انسان کو جانور بنانا قطعی طورپر مشکل نہیں رہتا۔ بدقسمتی سے امت مسلمہ میں ایسے حکمرانوں کی فراوانی ہر دور میں رہی جن کا بنیادی مطمح نظر صرف اقتدار کی بقا رہا اور اس کے لیے مذہب کا استعمال کیا جاتا رہا۔ ظلمت کو ضیا اور صرصر کو صبا کہنے والے نام نہاد دانش ور ہر حکمران کو میسر رہے۔ مملکت پاکستان میں بھی قائداعظم کی رحلت کے بعدان کے نظریے اور فکر سے متصادم نظام نافذ کرنے کے لیے کوشش شروع کر دی گئی۔
دہشت گردی کا عفریت انتہا پسندی سے جنم لیتا ہے مگر اس کی آبیاری جس لگن اور تندہی سے خود ساختہ مرد مومن مرد حق کے دور میں ہوئی، اس کی مثال عصرحاضر میں ملنی محال ہے۔ اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہوئے قوم کو عدم برداشت اور انتہا پسندی کی جانب دھکیلا گیا۔ جہاد کا مطلب عام فہم زبان میں کوشش کرنا ہے۔ کوشش علم کے حصول کی، معاشی ترقی کی، علم و حکمت کے میدان میں غلبے کی، تکنیکی معراج کے حصول کی اور ظلم کا مقابلہ کرنے کی۔ ہم نے بچپن میں پڑھا کہ ظالم حکمران کے خلاف کلمہ حق ادا کرنا افضل ترین جہاد ہے۔ ظلم کا راستہ موجودہ دور میں طاقت سے روکا جاسکتا ہے، المیہ مگر یہ ہے کہ اخلاقی اقدار سے عاری، دیانتداری سے نا آشنا، اسلام کے بنیادی فلسفہ سے ناواقف ملت کو اپنی مرضی کے مطابق سدھانے پہ لگا دیا گیا۔ مقام حیرت ہے کہ اسی قوم کو بنا کسی تیاری کے جہاد کے نام پر عصرحاضر کی ترقی یافتہ اور علم و حکمت اور ٹیکنالوجی میں ہم سے صدیوں آگے کھڑی اقوام سے جنگ و جدل پر لگا دیا گیا۔ امت مسلمہ کی انتہا پسندی کو استعمال کرتے ہوئے دوسری اقوام مسلمانوں کا قتل عام مسلمان سے ہی کروا رہی ہیں۔ عراق، شام، لیبیا، افغانستان اور پاکستان ہر جگہ مسلمان ہی مر رہے ہیں۔ قاتل بھی ہم مقتول بھی ہم۔ بحیثیت قوم فکری مغالطوں کی طویل داستان تحریر کی جاسکتی ہے۔
بقول شاعر
ہاتھ الجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھا ہوں
اب کون سے دھاگے کو جدا کس سے کروں
امت مسلمہ کو ذہنی بلوغت اختیار کرتےہوئے اس عفریت سے دامن چھڑانا ھو گا۔اس کیوں کا جواب تلاش کرنا ھو گا۔

Comments

Click here to post a comment