ہوم << سپریم کورٹ تاریخی موڑ پر ہے - شاہد اقبال خان

سپریم کورٹ تاریخی موڑ پر ہے - شاہد اقبال خان

معاشرے کی تباہی براہ راست اداروں کی تباہی کے ساتھ وابستہ ہے۔ خاص کر جب عدالتیں انصاف دینا بند کر دیں تو سمجھ لیں کہ قوم مجموعی طور پر پستی کی کھائی میں گرنے والی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کا کردار ہمیشہ ہی مایوس کن رہا۔ بار بار مارشل لاء کو آئینی تحفظ دینے کامعاملہ ہویا اصغر خان کیس، عدلیہ کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے، ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو بھی تاریخ نے آج تک معاف نہیں کیا۔ کچھ دوست شاید افتخار چوہدری کے زمانے میں یوسف رضا گیلانی کیس کی مثال دیتے ہیں مگر وہ شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ ذاتی دشمنی نکالنے کے لیے ٹھیک فیصلہ بھی انصاف کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ رہ گئی بات افتخار چوہدری کو بحال کرنے کی تو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ لینی چاہیے کہ وہ فیصلہ عدالت میں نہیں بلکہ میڈیا کی بنائی ہوئی تحریک کے نتیجے میں ہوا تھا جسے بعد میں عدالتی مہر لگوا کر نافذ کیا گیا۔
تاریخ جہاں غلطیوں اور گناہوں کو کبھی معاف نہیں کرتی وہیں انھیں سنوارنے کا موقع بھی دیتی ہے۔ اس وقت بھی سپریم کورٹ آف پاکستان اسی موڑ پر کھڑا ہے۔ پانامہ لیکس کا معاملہ بہت سادہ ہے۔ کئی لیگی وزرا ایک سے زائد مرتبہ یہ بیان دے چکے ہیں کی لندن کے فلیٹس 1990ء کی دہائی میں لیے گئے، وزیراعظم کی بیوی اور چوں نے اقرار کیا، لندن ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے مگر وزیراعظم اب کہہ رہے ہیں کہ 2006ء میں لیے گئے۔ کلثوم نواز تو حدیبیہ پیپر مل مقدمے میں ایک حلف نامی بھی جمع کرا چکی ہیں کہ لندن کے فلیٹس ان کے ہیں اور انہوں نے اس حلف نامے میں ان فلیٹس کی رجسٹری بھی لف کی تھی۔ یہ سیدھا سیدھا کیس ہے کہ فلیٹس 2006ء سے پہلے کرپشن کے پیسے سے خریدے گئے۔ دوسری طرف نواز شریف کہہ چکے ہیں کہ مریم نواز ان کی زیر کفالت ہے اور مریم کے ٹی وی شوز میں بیانات ہیں کہ ان کی کوئی پراپرٹی نہیں بلکہ وہ اپنے والد کے زیر کفالت ہیں۔ اب جب یہ سامنے آ گیا ہے کہ مریم کی پراپرٹی ہے اور وزیر اعظم نے اپنے گوشواروں میں اسے ظاہر نہیں کیا تو یہ بھی سیدھا سیدھا نا اہلی کا کیس ہے مگر اب اچانک سے وزیراعظم نے مریم کو اپنے زیر کفالت ماننے سے ہی انکار کر دیا ہے۔
اب حکمران جماعت کی تمام انرجی اس بات پر صرف ہو رہی ہے کہ کچھ ڈاکومنٹس بنا کر کیس کو لمبا کھینچا جائے۔ سپریم کورٹ کے پاس اس وقت دو آپشن ہیں۔ وہ چوہدری نثار، مریم نواز، حسین نواز اور کلثوم نواز کو کورٹ بلائے۔ ان کو ان کی ویڈیو اور حلف نامہ دکھائے اور ان سے پوچھے کہ کیا وہ اپنے بیان پر قائم ہیں۔ اگر وہ بیان پر قائم رہتے ہیں تو کیس وہیں پر ثابت ہو جائے گا۔ اگر وہ بیان بدلتے ہیں تو آرٹیکل 62، 63 کے مطابق انہیں جھوٹ بولنے پر نا اہل کر دیا جائے. دوسرا راستہ یہ ہے کہ ان انٹرویوز کو ناکافی ثبوت قرار دے کر وہ ڈاکومنٹس مانگے، حکومت وقت جو ثبوت اور ڈاکومنٹس عدالت میں پیش کرے، عدالت اس کے فرانزک ٹیسٹ کرائے بغیر ان کو مان کر کیس ختم کردے۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیس کو لٹکاتا چلا جائے۔ دیکھتے ہیں ان میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔