ہوم << غیر جانبداری، مطلوب یا مکروہ؟ - اسامہ الطاف

غیر جانبداری، مطلوب یا مکروہ؟ - اسامہ الطاف

غیر جانبداری صحافتی دنیا کا ایک بنیادی اصول سمجھا جاتا ہے، قارئین و ناظرین بھی غیر جانبدار صحافی کو ہی دیکھنا اور سننا پسند کرتے ہیں۔ لیکن کیا مطلقا کسی انسان کا غیر جانبدار ہونا ممکن بھی ہے؟ یعنی انسان کی اپنی کوئی ذاتی رائے یا وابستگی نہ ہو، یاکم از کم وہ اس وابستگی کو ظاہر نہ کرے؟
یہ خاصیت صحافتی مفہوم کی حد تک تو صرف صحافیوں میں ہی نہیں بلکہ ہر انسان میں ہونی چاہیے کہ انسان حقائق جاننے کے لیے شواہد و دلائل کو اپنی سابقہ رائے اور اپنی مذہبی و سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھے، خاص طور ہمارے معاشرے میں کہ جہاں حقیقت ایک اجنبی اصطلاح بن گئی ہے. افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جذبات حقائق پر غالب ہیں، حتی کہ ہمارے حکمران پانچ سال تک لوٹتے ہیں، اور پھر انتخابات قریب آنے پر ایک دو آنسو بہالیتے ہیں، رکشہ پر سواری اور ڈھابے پر چائے پی لیتے ہیں، یا دو چار نعرے لگا لیتے ہیں تو ہم ان کے سابقہ جرائم کو بھلا کر واپس ان کو اپنے اوپر مسلط کر لیتے ہیں. یہی حال نسلی، صوبائی یا مذہبی فرقہ بندی کا بھی ہے، ایک تقریر سن کر ہمارے جذبات ایسے بھڑک جاتے ہیں کہ ہم اپنے مخالف کی گردن کاٹنے کو تیار ہوجاتے ہیں! وجہ یہ ہے کہ جہاں جذبات کی حدود ختم ہوتی ہے، وہا ں سے ادراک (عقل اور سمجھ) کی ابتدا ہوتی ہے، اور عقل صرف حقائق کو قبول کرتی ہے، اور حقاءئق تک پہنچنے کے لیے جذبات سے بالاتر ہونا ضروری ہے۔
یہ غیر جانبداری کا جو رخ سابقہ سطور میں واضح کیا گیا، وہ تصویر کا مثبت پہلو ہے. دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ غیر جانبداری ہر جگہ پر مطلوب نہیں ہے. یہ حقیقت جاننے کا یا حقائق بتانے کا ایک وسیلہ ہے، لیکن ایک مرتبہ حق واضح ہو جائے تو حق و با طل کے درمیان کسی غیر جانبداری کی گنجائش نہیں، بلکہ اس صورت میں مکمل طور پر حق کا ساتھ دینا ضروری ہے. ہم ہر نماز میں ہدایت طلب کرتے ہیں اور گمراہی سے پناہ مانگتے ہیں کیونکہ ان کے درمیان منافقت کے علاوہ کچھ نہیں۔
یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ بحیثیت مسلمان کچھ ایسے اصول اور ضوابط اسلام نے متعین کیے ہیں کہ ان میں مزید نظر اور اجتہاد کی ضرورت نہیں، لہذا ان صولوں کو قبول کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، بلکہ ان اصولوں کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ہونا چاہیے جو عقل کی حدود سے متجاوز ہو۔
خلاصہ یہ ہے کہ عقل اور جذبات دونوں کا الگ الگ دائرہ کار ہے. دین سے وابستگی کا ایک وسیع مفہوم ہے جو کہ عقل کے محدود دائرہ کار میں نہیں آسکتا، جبکہ باقی امور عقل کی پہنچ میں ہیں، اس لیے ان میں جذبات کا داخل ہونا کسی صورت مفید نہیں۔