ہوم << سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان - بادشاہ خان

سی پیک، وفاق اور صوبوں میں اعتماد کا فقدان - بادشاہ خان

بادشاہ خان کئی اہم ملکی مسائل ایسے ہیں جن پر وفاقی حکومت کسی کی بات سننے کو تیار نہیں، فاٹا کا مسئلہ ہو یا پھر سی پیک کے مغربی روٹ پر صوبوں کو اعتماد میں لینے کا، مجبورا سی پیک منصوبے میں مغربی روٹ کا اسٹیٹس معلوم کرنے کے لیے اسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی اسد قیصر اور حکمران اتحاد کے پارلیمانی لیڈروں نے پشاور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن دائر کردی ہے جس کی قاضی محمد انور ایڈووکیٹ پیروی کریں گے. رٹ صوبائی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 882 کے تحت دائر کی گئی، تاہم قرارداد پر دستخط کرنے والی چاروں اپوزیشن جماعتیں جے یو آئی، مسلم لیگ ن، اے این پی اور پیپلزپارٹی پیچھے ہٹ گئی ہیں اور اب رٹ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی کی جانب سے دائر کی گئی ہے. صوبائی کابینہ کے رکن مشتاق غنی نے کہا ہے کہ صوبے کے حصے میں ایک رابطہ سڑک کے سوا کچھ نہیں دیا گیا، نہ ہی وفاق نے معاہدے کی دستاویزات دی ہیں، اور یہ رٹ قرارداد کی بنیاد پر دائر کی گئی ہے، اب کچھ جماعتیں پیچھے ہٹ رہی ہیں تو ان کی مرضی تاہم قرارداد کی سب نے ہی حمایت کی تھی. صوبائی اکائیوں کے اقتصادی راہداری (سی پیک) پر شدید اعتراضات وشبہات ہیں، اعتراضات کرنے والے کوئی انڈین ایجنٹ نہیں بلکہ پاکستان سے محبت کرنے والا سنجیدہ محب وطن طبقہ ہے. خیبر پختونخوا کے وزیراعلی پرویز خٹک نے کئی بار کہا کہ وفاقی حکومت نے چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری سے منسلک تمام منصوبوں کو راہداری کے مشرقی روٹ پر منتقل کر کے کام شروع کردیا ہے، اور خیبر پختونخوا و بلوچستان کو اقتصادی راہداری کے منصوبے سے تقریبا محروم کر دیا گیا ہے، جبکہ منصوبے کا مغربی روٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کا ہم سے وفاقی حکومت نے وعدہ کیا تھا. یہ الفاظ ایک صوبے کے وزیر اعلی نے کئی بارکہے، اسی قسم کا بیان بلوچ رہنما سردار اختر جان مینگل کا سامنے آچکا ہے کہ جس میں انھوں نے گوادر پورٹ پر اپنے تحفظات کا واضح الفاط میں ذکر کیا تھا۔
چند ماہ قبل ایک نجی چینل پر احسن اقبال کا ون ٹو ون انٹرویو سننے کا شرف حاصل ہوا، انٹرویو میں وزیر موصوف نے سی پیک کے بارے میں دلائل کے انبار پیش کیے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ چینل حکومتی مؤقف کی ترجمانی کے لیے یہ پروگرام کروا رہا تھا، اور پروگرام میں ایسا تاثر دیا گیا کہ کام تو مغربی روٹ پر ہی جاری ہے. گودار سے سوراب تک چھ سو پچاس کلومیٹر روڈ کو مغربی روٹ قرار دیا گیا جو کہ مغربی روٹ نہیں ہے، جس نے یہ علاقہ نہیں دیکھا اسے کیسے معلوم ہوسکتا ہے کہ کام کہاں ہو رہا ہے؟ وہ یہی سمجھےگا کہ یہ دوسری پارٹیاں اور صوبے شاید بےوقوف ہیں کہ خطے میں گیم چینجر منصوبے کی مخالفت کر رہی ہیں، جب پاکستان کے پس ماندہ علاقوں میں تبدیلی نہیں آرہی تو پھر کیسے یقین کرلیا جائے کہ خطے میں تبدیلی کا منصوبہ ہے. خود اس وقت تک گوادر کے مقامی رہائشی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔
بلوچستان میرا آنا جانا رہتا ہے، کوئٹہ اسی سوراب سے گذر کر جاتا ہوں. سوراب چار راستوں کے سنگم پر واقع ہے. ایک سڑک کراچی کی جانب، دوسرا راستہ خضدار سے رتوڈیرو سندھ، تیسرا راستہ کوئٹہ اور چوتھا راستہ گوادار کو جاتا ہے. اس وقت سوراب سے گودار والے روٹ پر کام جاری ہے اور یہ مغربی روٹ نہیں ہے بلکہ یہ تو وہ راستہ ہے جو گودار سے لازمی یہاں تک بنے گا، اور یہی گودار سے پورے ملک کو لنک کرنے کا مختصر راستہ ہے. یہ مغربی روٹ نہیں،گوادر سے نکلنے والا مین روٹ ہے کیونکہ ساحل سمندر کے ساتھ بنائی گئی دوسری سڑک جو کہ پسنی، اور ماڑہ بوزی ٹاپ، ہنگول ندی سے ہوتے ہوئے کراچی کو لنک کرتی ہے، یہ طویل راستہ ہے، اس لیے پہلے مرحلے میں سوراب تک شارٹ ہائے وے تعمیر کی جا رہی ہے. اس سڑک اور کوری ڈور کو خضدار سے جیک آباد، رتوڈیرو سندھ سے لنک کیے جانے کی منصوبہ بندی ہے، جسے چھپایا جارہا ہے. کوری ڈور کا یہ حصہ بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے سندھ کو فائدہ ہوگا مگر مغربی روٹ وہ ہے جو کہ سوراب، کوئٹہ سے ہوتے ہوئے برہان کو لنک کرے گا، اس روت پر خاموشی ہے. کچھ عرصہ قبل حکومت کی جانب سے سیاسی جماعتوں کو یہ بتایا گیا تھا کہ دونوں روٹس پر انفراسٹرکچر یکساں ہوگا، لیکن جب اس سے زیادہ مناسب مغربی روٹ پر توانائی کے پلانٹ ہوں گے نہ کوئی صنعتی پارکس اور انفراسٹرکچر ہوگا تو پھر یہ کیسے یکساں ہوگا؟ توانائی اور دیگر پروجیکٹ کوئی چھوٹے منصوبے نہیں ہیں۔ یہ انڈسٹریل پارکس چھوٹے چھوٹے نہیں بلکہ پورے پورے شہر بنیں گے ۔ تو جب مغربی روٹ پر توانائی نہیں ہوگی، بجلی نہیں ہوگی، موٹر وے نہیں ہو گی تو کیسے یہ علاقے ترقی کریں گے۔
ایک صوبے کے علاوہ تمام صوبے راہداری پروجیکٹ کے مخالف ہیں، کیوں؟ سوال بڑا اہم ہے اور جواب بہت سادہ کیونکہ انہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ اقتصادی زونز کے لیے جب پیسے ہی نہیں تو زونز کا اعلان کرکے لالی پاپ کیوں دیا جارہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ سب سے پہلے بلوچستان کے عوام اور حکومت کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ان کے اندر 69 سالوں سے محرومی کا احساس ختم ہو، اور ان کو بھی ترقی کے ثمرات میں پورا حصہ ملے. دلوں کو جیتنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کو بھی آگے آنا ہوگا اور سب سے زیادہ ضروری تو پاک فوج کا کردار ہونا چاہیے کہ جس پر پہلی بار بلوچ قوم اور نوجوان بھروسہ کر رہے ہیں. ان کو امید ہے کہ اب ان کے مسائل حل کروانے میں پاک فوج کردار ادا کرے گی. اکائیوں میں اتفاق سے قومیں تشکیل پاتی ہیں، جب صورت حال نازک ہو تو بڑے ہونے کا دعوی کرنے والوں کو چھوٹوں کو راضی کرنا پڑتا ہے ، پنجاب بڑا بھائی ہے اس لیے بڑی ذمہ داری اور قربانی بھی اسے دینا ہوگی۔ اس سے چھوٹے صوبوں میں وفاق اور پنجاب کی جانب سے خیر سگالی کا پیغام جائے گا اور چاروں صوبوں کے عوام میں محبت اور بھائی چارگی کو فروغ ملے گا، جبکہ سی پیک راہداری سے جنوبی پنجاب، سندھ ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی کے مواقع ملیں گے۔