ہوم << علامہ ابن حزم اندلسی سے ایک مکالمہ - محمد فیاض قرطبی

علامہ ابن حزم اندلسی سے ایک مکالمہ - محمد فیاض قرطبی

محمد فیاض آج قرطبہ کی سیر کے دوران پرانی فصیل، شہر کے پرانے دروازہ اشبلییہ کے سامنے پہنچا تو ایک مجسمہ نظر آیا، قریب پہنچا تو نیچے نام جانا پہچانا لگا؛ ابن حزم
اتنے میں کانوں میں ایک سرگوشی سی گونجی، دائیں بائیں نظر دوڑائی مگر کوئی شخص نظر نہ آیا.
سرگوشی دوبارہ گونجی، بیٹا یہ میں ہوں.
میں حیران و پریشان ہوا، یا الہی ماجرا کیا ہے؟
میں ہوں ابن حزم اندلسی جو تمہارے سامنے کھڑا ہوں.
ایک عرصہ ہوا یہاں کھڑے ہوئے کھبی کوئی ایسا سیاح آیا نہیں جس سے دل کی باتیں کہہ سکوں.
میں نے ڈرتے ڈرتے بابے کی جانب نظر کی اور پوچھا،
اے امام ابن حزم! میں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہے، کیا وہی ابن حزم ہیں جو دسویں صدی میں پیدا ہوئے تھے اور آپ کے والد وزیر تھے، امیر قرطبہ منصور کے؟
بابا جی بولے، ہاں! میں وہی ہوں، کچھ عرصہ میں بھی دربار قرطبہ سے وابستہ مگر حکمران کی لڑائیوں میں قید و بند کی مصیبیتوں سے تنگ آ کر میں نےگوشہ نشینی اختیار کر کے تدریس و تصنیف شروع کر دی تھی. جامعہ قرطبہ میں طلبہ کو قرآن و سنت اور فقہ کے درس دیتا رہا.
میں نے پوچھا؛
بابا جی! میں نے یہ بھی پڑھ رکھا ہے کہ آپ کی کتاب (پیار کی کبوتری) ring of dove نے سب سے زیادہ شہرت پائی جو پیار کے موضوع پر ایک جامع کتاب ہے، اور آپ کے بعد سینکڑوں زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے،
بابا جی گویا ہوئے، بیٹا میں نے تو کم و بیش اسی ہزار صفحات لکھے جو فقہ کے اصول، قرآنی تفسیر، گمراہ فرقوں کے باطل عقائد، اور اندلس میں عرب قبائل کی تاریخ جیسے موضوعات پر مشتمل تھے، ان میں سے ایک کتاب یہ بھی تھی، جس کا مقصد پیار کے حقیقی مقاصد عوام کے سامنے لانا تھا، کہ عشق حقیقی کیا ہوتا ہے اور انسانی ذہن کےخیالات اور دل کے جذبات انسان کو کیسے گمراہ کرتے ہیں؟
بابا جی گہری سانس لے کر بولے، یہاں ہزاروں سیاح برسوں سے آ رہے ہیں، وہ میرے مجسمہ کے سامنے تصاویر بنا کر گزر جاتے ہیں اور مجھے افسوس ہوتا ہے کہ جو علم و عرفان کی باتیں میرے سینے میں دفن ہیں، ان کا کوئی طلبگار نہیں.
میں نے بابا جی سے کہا آج آپ کا یہ گلہ دور ہو جائے گا، میں آیا ہوں نا دل میں کچھ سیکھنے کے جزبات لیے.
باباجی بولے، میری داستان حیات سے تم واقف ہی ہو گے کہ کیسے میری حق گوئی کی پاداش میں شہر بدر کیا گیا اور اشبلیہ کے امیر نے میری تصانیف کو آگ میں جلایا، کیونکہ میرے نزدیک علم کا پہلا ماخد رب کی ذات، اور اس کی جانب سے آنی والی وحی ہے. مجھ سے پہلے دنیا میں ارسطو کا فلسفہ مشہور تھا کہ علم کے ماخذ پانچ حواس ہیں، مگر میرے نزدیک وہ چھ ہیں، ایک حس حق اور سچ کی ہے جو رب ودیعت کرتا ہے، انسان کی رہنمائی کےلیے.
میں نے بابا جی کی فلسفیانہ گفتگو کو لمبا ہوتے دیکھا تو درمیان میں لقمہ دیا تاکہ بات مختصر ہو سکے.
باباجی آپ کے متعلق تو بڑی متنازع باتیں مشہور ہیں جو ہم نے پڑھی تھیں مثلا آپ فقہ الظہری کے بڑے حامی اور مبلغ ہیں اور دوسرے مذاہب اور فرقوں کے رد میں کافی کتابچے لکھے؟
بابا ابن حزم بولے؛ بیٹا سنی سنائی باتوں کے بجائے تم خود ہی پڑھ لینا، میری کتاب المحلی، جس میں، میں نے زندگی کے مسائل کو قرآن اور احادیث کے ساتھ اس وقت تک کے تمام فقہی مذاہب کے اماموں کی رائے کے ساتھ پیش کیا ہے، یہ کتاب فقہ پر ایک انسائیکلوپیڈیا ہے.
میں نے اپنی گھڑی کی جانب نظر دوڑائی تو بابا جی کی تیز نظروں نے بھانپ لیا کہ اتنی لمبی خشک گفتگو سے میں جان چھڑانے کے چکر میں ہوں، تو وہ بولے،
میں نے چالیس سالہ تصنیفی اور عملی زندگی میں جو سیکھا، وہ علم کے موتی میں نے اپنی کتاب میں جمع کر دیے تھے، جس کا نام میں نے مداوتہ نفوس رکھا، جس کو بعد میں لوگوں نے اخلاق و السیر کا نام بھی دیا.
میں نے بابا ابن حزم سے دریافت کیا، بابا جی ان علم کے موتیوں سے مختصرا ہم کو بھی نوازیے نا آج. بابا جی نے اپنی زندگی کا نچوڑ مجھے عنایت کرتے ہوئے فرمایا؛
1۔ سامان دنیا کی خاطر قربانی دینے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص لعل و جواہر کو کنکریوں کے عوض فروخت کر دے۔
2۔ بہت سے لوگ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ ریاکاری کو ناپسند کرنے کا یہ انداز شیطان کا ایک جال ہے۔
3۔ جس شخص کا طبعی رجحان جس علم کی طرف ہو اسے وہی سیکھنا چاہیے ورنہ وہ اندلس کے علاقہ میں ناریل اور ہندوستان میں زیتون کاشت کرنے کی سعی ناتمام کر رہا ہے۔
4۔ مال و دولت و جسم اور صحت میں اپنے سے ادنی کو دیکھیں اور دین اور علم میں اعلی درجہ والوں کو۔
۵۔ غلط مشورہ یا رائےدینے والوں کے مشورہ پر تجربات کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں، بجائے تجربہ اور اپنا نقصان کرکے اسے اس کا موجب قرار دے کر اسے شرمندہ کریں۔
6۔ علم اور اہل علم کو نقصان نااہل لوگوں کی اس سوچ کی وجہ سے ہوا کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں۔
7۔ بہت سارے کام ایک ساتھ کرنے کا انجام یہ ہوگا کہ کوئی کام بھی مکمل نہیں ہوگا۔
9۔ حکمرانوں کے لیے سب سے بڑے نقصان کا باعث ان کے فارغ مشیر بنتے ہیں، عقلمند حکمران وہ ہے جو ان کو کسی کام پر لگائے رکھے۔
10۔ اپنے کاموں میں اس فرد سے مدد لو جو اس کام سے آپ کی طرح فوائد چاہتا ہے۔
11۔ بدترین ظلم یہ ہے کہ کثرت سے برے کام کرنے والے سے اگر کوئی اچھا کام ہوجائے تو اسے تسلیم نہ کیا جائے۔
12۔ ابلیس کی چالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کوئی برا کام کرے اور عذر پیش کرے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی ایسا ہی کام کیا تھا۔
13۔ عدل و انصاف یہ ہے کہ آپ واجبات ادا کریں اور اپنے وصول بھی کریں۔
14۔ ظلم یہ ہے کہ اپنے واجبات تو لوگوں سے لیں مگر ان کے ادا نہ کریں
15۔ جو شخص آپ کو آپ کی خامی سے آگاہ کرتا ہے، وہ آپ کا دوست ہے، اور جو آپ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معمولی سمجھا، وہ آپ کا دوست نہیں ہو سکتا۔
16۔ دوستوں سے سسرالی اور تجارتی رشتہ بنانے سے پرہیز کریں، دونوں میں فریق بن کر تعلقات میں کمی آئے گی۔
17۔ جب کسی کو نصیحت کریں تو درپردہ کریں یا اشارہ و کنایہ میں کریں۔
18۔ کچھ لوگوں کو اپنے حکمرانوں اور دوست کی خاطر اسی طرح غیرت آتی ہے جیسے شوہر کو بیوی اور عاشق کو معشوقہ کے بارے میں۔
19۔ اے انسان اپنی جسمانی قوت پر فخر نہ کر کیونکہ تم سے زیادہ قوت ہاتھی میں پائی جاتی ہے، اپنی شجاعت پر فخر نہ کر کہ شیر و چیتا تم سے زیادہ شجیح ہیں، زیادہ وزن اٹھانے پر نہ فخر کر کہ گدھا تم سے بوجھ اٹھاتا ہے۔
بابا جی کی باتیں میں نے ذہن نشین کر لیں، ان کا شکریہ ادا کیا کہ اپنی زندگی کا نچوڑ مفت میں عنایت کر دیا۔
جاتے جاتے میں نے بابا ابن حزم سے کہا کہ میں نے پڑھا تھا کہ آپ کے دور میں قرطبہ آپ جیسے علماء و فضلا سے بھرا پڑا تھا۔
بابا ابن حزم بولے، میری طرح کئی اور مفکرین بھی کھڑے ہیں مجسموں کے صورت قرطبہ کی گلی کوچوں میں، ایک تو یہ میری بائیں جانب کھڑا ہے۔ ان سے بھی جا کر مل لو۔
میں نے دور کھڑے دوسرے بابے کی جانب قدم بڑھانے شروع کر دیے۔
آپ جاننا چاہیں گے وہ کون سا عظیم مفکر تھا؟

Comments

Click here to post a comment