ہوم << مکالمے کے لیے کیا ضروری ہے؟ طیب عباس

مکالمے کے لیے کیا ضروری ہے؟ طیب عباس

دلیل کے منتظمین کو اس نام سے فورم کے قیام پر مبارکباد. اُمید ہے کہ یہ فورم صحت مند مکالمے کے ذریعے ہمارے ملک میں بڑھتی ہوئی نظریاتی خلیج کو پاٹنے کے لیے مددگار ثابت ہوگا.
ہمارے ہاں حطرناک حد تک مکالمے کا فقدان ہے. لکھنے والوں کی تربیت ایسی ہوئی ہے یا رجحان ایسا چل پڑا ہے کہ ہمیشہ یک طرفہ سوچ کے ساتھ لکھا اور مخالف نظریات رکھنے والوں کو ان کے نظریات کے بجائے اپنے نظریات کی عینک سے پرکھا جاتا ہے. کسی بھی نظریہ سے اختلاف کرنے کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ آپ اپنے نظریہ کے ساتھ مخالف نظریہ کی بنیاد، محرک اور آخری منطبق سٹیج سے بھی آگاہ ہوں. اگر دوسرے کا نظریہ کماحقہ سمجھنا ہو تو خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچنا پڑتا ہے. لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں مخالفت کے لیے محض اس نظریہ کا حوالہ ہی اہم ہے. ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی سیکولر نظریے کا حامی ہے تو وہ لازمی طور پر ملحد اور مغرب سے متاثر بھی ہوگا اور اس کا
ایجنڈا لازمی طور پر وطن عزیز کی نظریاتی جڑیں کھوکھلی کرنا ہوگا. شیعہ ہے تو لازمی طور پر ایران کا ایجنٹ ہوگا. دویبندی یا سلفی ہے تو اسے سعودی ریال گننے سے فرصت نہیں ہوگی اور وہ ضرور دہشت گردوں اور مذہبی شدت پسندوں کا سہولت کار یا کم از کم حمایتی تو ہوگا. اسی طرح اگر کوئی جمہوریت پسند ہے تو اسے فوج سے خدا واسطے کا بیر ہوگا، اسی بنیاد پر اس کی مخالف کرنا اس کا فرض ٹھہرتا ہے۔ اور تو اور سیکولر، لبرلز، کمیونسٹ حتی کہ ملحدین کو ایک ہی چھڑی سے ہانکا جاتا ہے، اسی طرح مذہب کی مختلف تعبیرات کی پیروی کرنے والوں کو بھی ایک ہی کیٹگری میں جنرلائز کیا جاتا ہے
اس خامی کے حوالے سے ایک دفعہ رائٹ کے ایک مشہور لکھنے والے سے بات ہوئی تو ان کا فرمانا تھا کہ یہ سیکولر حضرات کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں میں اپنے متعلق اس غلط فہمی کو دور کریں. ان سے عرض کی کہ کیا مخالفین کی اخلاقی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے سے اختلاف کرتے وقت عوام کو وجہ اختلاف سے بھی بخوبی آگاہ کریں اور مخالف نظریے والے کے مئوقف کو سمجھا کر اس سے اپنے اختلاف کی نوعیت واضح کریں؟ عام فہم لیبل کو اپنے مئوقف کی مضبوطی کے لیے استعمال کرنا اخلاقی طور پر بھی غلط ہے
اور مکالمے کے اُصولوں کے بھی خلاف ہے. بات سمجھنے کی ہے کہ اگر پاکستان میں سیکولرز حضرات اپنے نظریے کی ترویج چاہتے ہیں تو وہ پاکستان کی بھلائی کو مدنظر رکھ کر ہی ایسا سوچتے ہیں. کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کو مذہب سے الگ رکھ کر ہی ایک متنوع اور کثیر الجہت معاشرے کی امن اور انصاف پر مبنی بنیاد رکھی جا سکتی ہے. آپ ان سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں، ان کے نظریات کے غلط ہونے کا یقین رکھ سکتے ہیں، ان نظریات کی بھرپور مخالفت کر سکتے ہیں لیکن ان کی نیت پر شک کرنا غیر مناسب بات
ہے. ایسا ہی معاملہ دوسرے نظریات کے حاملین کا ہے. مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم مخالف نظریات رکھنے والوں کو اپنے سے کم حب الوطن فرض کرکے اس پر چارج شیٹ لگا دیتے ہیں.
یہ طرزعمل سوشل میڈیا تک محدود نہیں ہے بلکہ قومی سطح پر ایسا ہوتا آیا ہے. اس طرز عمل کی وجہ سے لوگ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں اور انتہاؤں کی طرف بڑھ کر شدت پسندانہ نظریات اختیار کر لیتے ہیں. گمان رکھیے کہ آپ کا مخالف آپ جتنا ہی مخلص، نیک نیت اور محب وطن ہے. جو اختلاف ہے وہ نظریاتی ہے ذاتی نہیں، ایسا ممکن ہی نہیں کہ جہاں چند سوچنے والے اذہان جمع ہوں وہاں اختلاف نہ ہو. اختلاف رائے سے اتفاق کریں، ایک دوسرے کو سپیس دیں اور مکالمے میں ایک دوسرے کو سمجھانے کے
بجائے سمجھنے کی نیت سے شریک ہوں. اسی طرح فاصلوں کو پاٹنا ممکن ہے.
آخر میں یہ عرض کروں گا کہ ہر نظریاتی فورم کا احترام مقدم ہے ورنہ آخر میں نتیجہ وہی نکلے گا جو ایک محلے میں دو مخلتف مساجد کے درمیان مسابقت سے نکلتا ہے. اختلاف شروع تو علمی سطح سے ہوتا ہے، دلیل اور مناظروں کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن آخر میں مقابلہ صرف اس بات کا رہ جاتا ہے کہ کس مسجد کا سپیکر اونچا ہے.