ہوم << حضرت ابو بکر ؓ - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

حضرت ابو بکر ؓ - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
روز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان اپنی شان و شوکت جاہ و جلال طا قت و ہیبت، شاہی کرو فر، طویل اقتدار، بڑے لشکر کا مالک , سورج کی طرح طلوع ہوا لیکن وقت کی ایک کروٹ ، گردش لیل و نہار کے چند سال، وقت کی چند جنبشیں اور غبار ماضی کہ آج ان کا نام تک نہیں ہے فرعون کو قدرت نے چار سو سال کی عمر بھی دی اور مکمل بادشاہت بھی فرعون کو بہت غرور تھا کہ میں مِصر کے اشجار و انہار کا اکلوتا وارث ہوں لیکن خدا ئے جبار و قہار نے اس کا سارا اعتبار ووقار دریا برد کر دیا قارون کو دولت کے انبار بھی عطا کئے اور رعونیت بھی اُس کو بہت مان اور ناز تھا کہ اُس کے خزانے کی چابیاں بہت سارے لوگ مل کر اٹھاتے ہیں مگر اُس رحیم کریم آقا کے ایک فیصلے نے اُس کا بھٹا بٹھا دیا سکندر کے قدموں میں جوانی میں ہی آدھی دنیا ڈال دی قیصر کو روم جیسی عظیم سلطنت بخش دی کسرٰی کو تاج ایران عطا کر دیا چنگیز خان، ہلاکوخان نے اپنے گھوڑوں کے پاؤں تلے ملکوں کے ملک کاغذ کے پرزوں کی طرح ہوا میں بکھیر کر رکھ دئیے امیر تیمور جیسے ظالم انسان نے زمین کو ادھیڑ کر رکھ دیا شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے دنیا بھر کی دولت لوٹ کر لے گیا اکبر اعظم کی انچاس سالہ حکومت, رضا شاہ پہلوی کی ہزار سال پر محیط حکومت وقت کے غبار نے لپیٹ کر رکھ دی ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان اس دنیا کے سٹیج پر نمودار ہوا اپنا کام کیا اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر ماضی کے غار میں دفن ہو تا گیا لیکن گردشِ زمانہ اور ہر نئے دن کے ساتھ کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی آئے کہ اُن کی شہرت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی گئی تا ریخ وقت اور ماضی کا غبار اُن کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا بلکہ ہر لمحے اُن کی چمک میں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے۔
میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے کھڑا تھا میری آنکھوں سے التجائیں مو تیوں کی طرح چھلک رہیں تھیں میرے دل و دماغ اور باطن کے نہاں خانوں میں بہت ساری دعائیں ریشمی پرندوں کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھیں یہ نرم و نازک خوبصورت ریشمی تتلیوں کی طرح سنہری جالیوں سے ٹکڑا ٹکڑا کر عقیدت کے بوسے لے لے کر یوں پلٹ رہی تھیں کے ایمان و یقین کے ہزاروں چشمے پھوٹ رہے تھے میں اِس نشے میں شرابور بھیگی آنکھوں سے سنہری جالیوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر سبز رنگ کے تین گول کتبوں پر پڑی سید الانبیاء ﷺ ابی بکر صدیق ؓ اور عمر بن خطاب ؓ اور پھر میرے با طن میں ایک خیال ہزاروں چاند ستاروں کی روشنی بکھیرتا چلا گیا کہ یورپ اور امریکہ کتنے بد قسمت ہیں کہ اُن کی ہزاروں سالہ تاریخ میں ایک بھی ابو بکرؓ، عمرؓ پیدا نہ ہوا ہزاروں سالوں سے حضرت انسان جانور نما انسانوں کو پیدا کئے چلا جا رہا ہے لیکن ایک بھی حضرت ابو بکر ؓ نہیں ایک بھی حضرت عمر ؓ نہیں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سرتاج الانبیاء سرور کائنات ﷺ کی صحبت میں گزرے ہو ئے شب و روز نے انہیں تاریخ کے ما تھے کا جھو مر بنا دیا حضرت ابو بکر صدیق ؓ جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا اُس میں ایک قسم کی جھجک اور تردد اور فکر ضرور پا ئی مگر ابو بکر ؓ کہ جس وقت میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بے جھجک قبو ل کیا ۔ زمانہ جاہلیت میں آپ ؓ کا نام عبدالکعبہ تھا بعد میں نبی کائنات ﷺ نے عبداللہ گوہر کیا صدیق و عتیق کا لقب پا یا ۔ ابو بکر ؓ کنیت سے شہرت پا ئی آپ ؓ ایام جاہلیت میں بھی قریش کے روساء میں سے تھے مورخین کے مطابق صحابہ کرام میں دس ایسے آدمی تھے جو ایام جاہلیت اورابتدا سلام دونوں میں رئیس و سربراہ مانے جا تے تھے آپ ؓ نے زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہ پی تھی مشکل سے مشکل حالت اور جنگ میں ہمیشہ آقا کریم ﷺ کے ساتھ سائے کی طرح رہے جب ہجرت مدینہ کا وقت آیا تو سرور دوجہاں ﷺ حضرت ابوبکر ؓ کے گھر آئے اور فرمایا ابو بکر ؓ ہجرت کی اجازت آگئی ہے تو یار غار نے بے ساختہ کہا اور میری رفاقت یارسول اللہ ﷺ؟ نور رحمت ﷺ نے تبسم فرمایا رفاقت کی بھی اجازت ہے یہ سن کر حضرت ابو بکر ؓ فرطِ مسرت سے رونے لگے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کا قو ل ہے اُس دن میں نے جانا کہ آدمی جوش اور خوشی میں بھی روتا ہے حضرت ابوبکر ؓ نے اُسی وقت دو اونٹ پیش کئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ اونٹ اِسی کام کے لیے تیار کئے ہوئے ہیں آپ ﷺ کو جو پسند ہے وہ پسند فرما لیجئے آپ ؓ کی نبی کریم ﷺ سے محبت رب کعبہ بھی واقف تھے اِسی لیے قرآن مجید میں حضرت ابو بکر ؓ کا حوالہ دے کر امر کر دیا سورۃ تو بہ میں ارشاد ِ باری تعالی ہے ۔ اللہ نے اُس کی مدد کی اور اس وقت کی جب کافروں نے اُسے اس حال میں گھر سے نکا لا تھا کہ وہ دو میں دوسرا تھا اور دونوں غا رمیں چھپے ہو ئے تھے اُسی وقت رسول کریم ﷺ نے اپنے ساتھی سے کہا تھا غم نہ کھا اللہ ہما رے ساتھ ہے اور آپؓ کی شان اور مقام ملاحظہ فرمائیں سرور کا ئنات ﷺ نے فرمایا کہ کسی کا مجھ پر کوئی احسان نہیں اُس کا بدلہ ہم نے دنیا میں ہی دے دیا سوائے ابو بکر ؓ کے اُس کا بدلہ قیا مت کے دن اللہ تعالی عطا فرمائے گا آپ ﷺ ہی کا ارشادہے ایک دن حضرت ابوبکر ؓ کو دیکھ کر فرماتے ہیں کسی نے آگ سے آزاد شخص کو دیکھنا ہو تو حضرت ابو بکر ؓ کو دیکھ لے.
ایک دن رحمت دو جہاں ﷺ اِس طرح مسجد نبوی میں داخل ہو ئے کہ آپ ﷺ کے دائیں طرف حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور بائیں جانب حضرت عمر ؓ تھے شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے مسجد میں موجود صحابہ ؓ سے فرمایا قیامت کے دن بھی ہم اِسی طرح اٹھائے جائیں گے
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر نبی کے دو وزیر آسمان کے فرشتوں اور دو زمین والوں میں سے ہو تے ہیں فرشتوں میں میرے وزیر جبرائیل ؑ اور میکا ئیل ؑ ہیں اور اہل زمین سے میرے دو وزیر ابوبکرؓ اور عمر ؓ ہیں ۔ یہی حضرت ابو بکر ؓ تھے جب موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ ؓ سے پو چھا سرور دو عالم ﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا کہا گیا 3 کپڑوں کا تو فرمایا میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہی استعمال ہو نگے دو چادریں جومیرے جسم پر ہیں جبکہ تیسری نئی چادر لی جائے حضرت عائشہ ؓ نے کہا ہم اتنے تنگ دست بھی نہیں کہ تین کپڑے نہ خرید سکیں تو فرمایا جان پدر نئے کپڑوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو ہوتی ہے مُردوں کو نہیں۔ انتقال کے دن فرمایا رسول کریم ﷺ کی وفات کس دن ہوئی لوگوں نے کہا دو شنبہ تو کہا مجھے امید ہے میری موت بھی آج ہی ہوگی موت کے وقت حضرت عائشہ ؓ نے یہ شعر پڑھا ’’ نوائی صورت کی تازگی ہے ابر سیراب ہو یتیموں کی پناہ بیوائوں کی محافظ‘‘ یہ سن کر آنکھیں کھول دیں اور کہا یہ شان عظمت اورمقام تو صرف اور صرف سرتاج الانبیاء نور مجسم محبوب خدا ﷺ کا ہی تھا ابو بکر ؓ اِس کا مستحق بلکل بھی نہیں ۔ سنہری جالیوں کے پاس ابو بکر ؓ کس طرح اپنے آقا کریم ﷺ کے ساتھ قیا مت تک محو خواب ہیں۔