ہوم << کیا چیف جسٹس کے پاس-جاوید چوہدری

کیا چیف جسٹس کے پاس-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
جان بیٹ سن پہلا کباڑیہ تھا اور ایچ ایم ایس TEMERAIRE بریک ہونے والا پہلا بحری جہاز‘ یہ جہاز برطانوی نیوی کی ملکیت تھا‘ دنیا میں اس سے قبل ریٹائر بحری جہازوں کو سمندر میں ڈبو دیا جاتا تھا اور اس سے پہلے جب بحری جہاز لکڑی سے بنائے جاتے تھے‘ ان کو ساحلوں پر جلا دیا جاتا تھا یا پھر انھیں توڑ کر لکڑی ساحلی آبادیوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی لیکن پھر 1838ء آ گیا‘ برطانوی نیوی نے یہ بحری جہاز بھی ڈبونے کا فیصلہ کیا‘ جان بیٹ سن نیول چیف سے ملا اور اسے جہاز آکشن کرنے کا مشورہ دے دیا‘ نیول چیف کو آئیڈیا پسند آیا‘ جہاز آکشن ہوا اور جان بیٹ سن نے یہ جہاز 5 ہزار 5 سو 30 پاؤنڈ میں خرید لیا‘ وہ جہاز کو دریائے تھیمز میں لے گیا‘ جہاز توڑا‘ تانبا‘ لوہا‘ ایلومونیم‘ پیتل اور ربڑ الگ کیا‘ جہاز کے کیل‘ نٹ بولٹ‘ قبضے اور ہینڈل نکالے اور یہ سارا سامکان دھاتی کارخانوں کو بیچ دیا۔
اس نے بھاری منافع کمایا‘ یہ منافع شپ بریکنگ کی عظیم انڈسٹری کا آغاز ثابت ہوا‘ بحری جہازوں کو ڈبو کر ’’مارنے‘‘ کے بجائے توڑ کر بیچنا شروع کر دیا گیا‘ 1892ء تک اس انڈسٹری میں ہالینڈ‘ اٹلی‘ جرمنی اور جاپان بھی شامل ہو گئے‘ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے دوران یورپ میں ہنرمندوں اور مزدوروں کا قحط پڑ گیا‘ اس قحط نے شپ بریکنگ انڈسٹری کو ایشیا کی طرف دھکیل دیا‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں دنیا میں اگر دو عالمی جنگیں نہ ہوتیں تو جاپان‘ چین‘ تھائی لینڈ‘ ملائیشیا اور انڈونیشیا جیسے ملکوں کو ترقی کے لیے مزید سو سال دھکے کھانے پڑتے‘ عالمی جنگیں یورپ کے ہیومین ریسورس کو نگل گئی تھیں چنانچہ ٹیکنالوجی ایشیا کا رخ کرنے پر مجبور ہو گئی اور یوں مشرق کے دن بھی پھر گئے۔
انڈسٹری کے اس ریلے میں شپ بریکنگ بھی شامل تھی‘ یہ انڈسٹری پانیوں میں ہچکولے کھاتے کھاتے کراچی پہنچ گئی‘ 1947ء میں پہلا جہاز کراچی پہنچا‘ یہ جہاز گڈانی پہنچا دیا گیا‘ گڈانی کراچی سے پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر بلوچستان میں واقع ہے‘ یہ پاکستان کا دوسرا خوبصورت ساحل ہے‘گڈانی کے لوگ جفاکش ہیں‘ یہ ہتھوڑے لے کر جہاز پر پل پڑے اور پورا جہاز چند دنوں میں کھول کر ساحل پر لٹا دیا‘ یہ پاکستان میں شپ بریکنگ کا آغاز تھا۔
گڈانی 1969ء سے1983ء تک شپ بریکنگ میں دنیا میں پہلے نمبر پر رہا‘ علاقے کے 30 ہزار ہنر مند براہ راست شپ بریکنگ سے منسلک تھے‘ 5 لاکھ لوگ بلاواسطہ فائدہ اٹھا رہے تھے‘ ایسا کیوں تھا؟ اس کی چار وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ خوف تھا‘ شپ بریکنگ دنیا کا خطرناک ترین پیشہ ہے چنانچہ ترقی یافتہ ممالک اس شعبے سے نکل گئے‘ دوسرا‘ یہ انڈسٹری ماحول دشمن ہے‘ یہ آبی حیات کو نقصان پہنچاتی ہے چنانچہ ترقی یافتہ ممالک نے 1960ء کی دہائی میں شپ بریکنگ کو اپنی حدود سے باہر نکال دیا‘ تیسری وجہ گڈانی کے لوگ تھے‘ دنیا میں بحری جہازوں کی اوسط عمر 25 سے 30 برس ہوتی ہے‘ تین دہائیوں کے بعد جہازوں کا لوہا گل جاتا ہے‘ یہ سفر کے قابل نہیں رہتے لہٰذا ان کی تدفین ضروری ہو جاتی ہے۔
گڈانی کے لوگ لوہا کوٹنے کے ماہر تھے‘ یہ ہتھوڑے سے پورا جہاز کھول دیتے تھے ۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان‘ بھارت اور چین میں تیزی سے اسٹیل ملز لگنے لگیں جس سے خطے میں لوہے کی کھپت بڑھ گئی‘ گڈانی ان تینوں ملکوں کی گردن تھالہٰذا یہ شپ بریکنگ میں دنیا کا سب سے بڑا مرکز بن گیا‘ حکومت 1978ء میں اس صنعت کی طرف متوجہ ہوئی‘ ٹیکس میں بھی رعایت دی گئی اور جہازوں کی آمدورفت کو بھی آسان بنا دیا گیا لیکن پھر بھارت اور بنگلہ دیش اس فیلڈ میں کود پڑے‘ بھارت نے گجرات کے ساحلی شہر ا لانگ اور بنگلہ دیش نے چٹاگانگ میں شپ بریکنگ شروع کرا دی اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے بھارت اس شعبے میں پہلے‘ بنگلہ دیش دوسرے اور پاکستان تیسرے نمبر پر آ گیا‘ گڈانی میں سالانہ 125 جہاز توڑے جاتے ہیں‘ یہ دنیا کو 10 لاکھ ٹن لوہا سپلائی کرتا ہے۔
گڈانی کے 6 ہزار لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں اور تین لاکھ لوگ بلاواسطہ انڈسٹری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ شپ بریکنگ کی صنعت میں 2000ء میں ایک اور دلچسپ موڑ آ گیا‘ یورپ اور امریکا نے انسانی حقوق کو مزید ٹائیٹ کر دیا‘ بنگلہ دیش اور بھارت کو بدلتی صورتحال کا ادراک تھا‘ انھوں نے کارکنوں کی حفاظت کا خصوصی بندوبست کر دیا‘ نئے قوانین بنائے‘ کارکنوں کو ٹریننگ دی‘ انشورنس لازمی قرار دے دی اور ریٹائرمنٹ کی عمر بھی طے کر دی جب کہ پاکستانی حکومت ان معاملات سے لاتعلق رہی‘ یہ عدم توجہ بھارت اور بنگلہ دیش کی شپ بریکنگ کو مضبوط اور گڈانی کو کمزور کرتی چلی گئی‘ آج حالت یہ ہے ہمارے ورکرز پرفارمنس میں بھارت اور بنگلہ دیش سے بہت آگے ہیں۔
یہ 30 سے 45 دنوں میں پورا جہاز توڑ دیتے ہیں جب کہ بھارتی اور بنگالی ورکروں کو چھ ماہ لگ جاتے ہیں لیکن اس شاندار پرفارمنس کے باوجود ہماری انڈسٹری کمزور ہو رہی ہے ‘ کیوں؟ کیونکہ بھارت اور بنگلہ دیش ورکرز کو ٹریننگ بھی دیتے ہیں‘ یونیفارم‘ ہیلمٹ اور دستانے بھی پہناتے ہیں‘صحت کا خیال بھی رکھتے ہیں اور انشورنس بھی کراتے ہیں‘ یہ سمندروں کو ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچا رہے ہیں چنانچہ یورپ‘ امریکا‘ کینیڈا اور جاپان اپنے جہاز چٹاگانگ یا الانگ بھجواتے ہیں جب کہ دوسری اور تیسری دنیا کی کمپنیاں گڈانی کا رخ کرتی ہیں یوں یہ انڈسٹری بھی آہستہ آہستہ پاکستان کے ہاتھ سے کھسکتی جا رہی ہے‘ رہی سہی کسر یکم نومبر 2016ء کے واقعے نے پوری کر دی۔
‘ یکم نومبر کو گڈانی میں 24 ہزار ٹن وزنی بحری جہاز کو توڑنے کا عمل شروع ہوا‘ یہ جہاز تیل بردار تھا‘ یہ اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے بعد کریاکرم کے لیے گڈانی پہنچا‘100 مزدور جہاز پر کام کر رہے تھے‘ اچانک گیس سلنڈر میں دھماکا ہوا اور جہاز کو آگ لگ گئی‘ 14مزدور پہلے ہلے میں جاں بحق اور59شدید زخمی ہو گئے‘ آگ خوفناک تھی‘ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا جہاز میں دو سو ٹن خام تیل اور 11 سو ٹن خوردنی تیل بھی موجود تھا‘ اس واقعے نے ہمارا رہا سہا بھرم بھی ختم کر دیا‘ دنیا کو معلوم ہو گیا پاکستان میں سیکیورٹی نام کی کوئی چیز موجود نہیں‘ کوئی بھی کمپنی کسی بھی جہاز میں دو سوٹن کیمیکل بھر کر گڈانی کے ساحلوں تک پہنچا سکتی ہے اور کسی ادارے کو اس کی کانوں کان خبر نہیں ہو گی۔
دنیا کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہم شپ بریکنگ کے دوران کسی مزدور کو کسی قسم کی سیفٹی فراہم نہیں کرتے‘ گڈانی کے 6 ہزار مزدور یونیفارم‘ ہیلمٹ‘ دستانوں اور موٹے بوٹوں کے بغیر دنیا کا خطرناک ترین کام کرتے ہیں‘ دنیا کی تیسری بڑی شپ بریکنگ سائیٹ پر آگ بجھانے کے آلات ہیں‘ میڈیکل کی سہولت اور نہ ہی برن یونٹ‘ گڈانی میں ایمبولینس تک دستیاب نہیں ‘ قریب ترین اسپتال 70 کلو میٹر کے فاصلے پر حب میں واقع ہے اور اس میں بھی پوری طبی سہولیات موجود نہیں ہیں‘ دنیا کو یہ بھی معلوم ہوگیا پاکستان میں مزدوروں کی انشورنس بھی نہیں کرائی جاتی اور دنیا کو یہ بھی پتہ چل گیا ملک میں 70 برس سے شپ بریکنگ ہو رہی ہے لیکن ہم نے سمندری پانی کو ماحولیاتی آلودگی سے بچانے کے لیے کوئی بندوبست نہیں کیا چنانچہ دنیا ہمیں یکم نومبر سے وحشت بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے۔
مجھے خطرہ ہے یہ واقعہ 70 سال پرانی اس انڈسٹری کا جنازہ بھی نکال دے گا چنانچہ حکومت کو سنجیدگی سے ذمے داروں کا تعین بھی کرنا چاہیے اور مستقبل کے لیے شپ بریکنگ کی ایس اوپیز بھی بنانی چاہئیں‘ ہم اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچیں تو یہ ہمیں پانامہ اور سرل لیکس سے بڑا ایشو محسوس ہو گا لیکن افسوس ملک کی کسی سیاسی جماعت نے اس غفلت پر احتجاج کیا اور نہ ہی اس پر کوئی کمیشن بنا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ ملکی ایشو ہے اور ملک کے کسی شریف‘ کسی بھٹو اور کسی خان کو ملکی ایشوز میں کوئی دلچسپی نہیں‘ یہ لوگ کرسیوں پر بیٹھنے اور دوسروں کو کرسیوں سے اٹھانے میں مصروف ہیں‘ 30 مزدوروں کی لاشیں ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں لیکن کیا سپریم کورٹ آف پاکستان بھی اس ایشو کو ایشو نہیں سمجھتی؟ کیا یہ بھی حکومت کو گڈانی ایشو پر کمیشن بنانے‘ ذمے داروں کے تعین اور مستقبل کے لیے ایس او پیز بنانے کا حکم نہیں دے سکتی؟
اگر سپریم کورٹ بھی لاچار ہے تو پھر ملک کے لیے کون سوچے گا؟ ملک کے لیے کون کام کرے گا؟ کیا چیف جسٹس صاحب کے پاس اس سوال کا کوئی جواب موجود ہے؟ہم تھوڑی سی توجہ دے کر گڈانی اور شپ بریکنگ انڈسٹری کو بچا سکتے ہیں‘ اگر چیف جسٹس صاحب چاہیں تو گڈانی میںجدید ترین اسپتال‘مزدوروں کے لیے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ‘ شپ بریکنگ کے لیے ایس او پیزاور ماحولیاتی آلودگی سے بچاؤ کے انتظامات بھی ہو جائیں گے‘ہماری معمولی سی غفلت گڈانی کو قبرستان بنا دے گی‘ میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے آپ پانامہ لیکس سے فارغ ہونے کے بعد گڈانی کو صرف ایک دن دے دیں‘ یہ ملک‘ گڈانی اور شپ بریکنگ انڈسٹری سب آپ کو دعا دیں گے۔

Comments

Click here to post a comment