ہوم << پیشہ ورانہ قیادت - مولانا سکران

پیشہ ورانہ قیادت - مولانا سکران

Business man looking towards the city.

سیاسی اور روحانی قیادت سے ہٹ کر روزمرہ زندگی میں انسان کا واسطہ اکثر ایسے پروفیشنل لیڈر سے بھی رہتا ہے جس کی رہنمائی اور اطاعت سے ہی وہ متعلقہ ٹاسک بخوبی سرانجام دے سکتا ہے۔ پروفیشنل لائف میں عموما لوگ گروپ بناکر اپنی ڈیوٹی نبھاتے ہیں اور ہر گروپ کے ممبرز ایک ذمہ دار شخص کو فالو کرتے ہیں جسے اس گروپ کا لیڈر کہاجاسکتا ہے۔ مثلا کھیل میں ٹیم کا کپتان ہو یا سکول میں کلاس کا استاد، کسی ادارے کا منیجر ہو یا گھر چلانے والا بزرگ، ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں فالوورز کا لیڈر سمجھا جاتاہے۔ اگر کسی گروپ کے پروفیشنل لیڈر میں لیڈرشپ کے خواص و حواس عنقا ہوں تو لامحالہ لوگوں کے اس جمگھٹے سے اس طرح کے پروڈڈکٹیو رزلٹ کی توقع رکھنا عبث ہے جس سے انکا ادارہ پھل پھول سکے۔ اس کے برعکس، اگر کسی ادارے کا سربراہ خود تو قیادت و سیادت کی فکری دولت سے مالامال ہو لیکن اسکے ماتحت لوگوں میں فالوور شپ کا فقدان ہو تو بھی نتیجہ بےمعنی رہےگا۔ ماہرین نفسیات نے گزشتہ چند عشروں کی تحقیقات کے نتیجے میں ثابت کردکھایا ہے کہ ہر انسان پیدائشی لیڈر نہیں ہوتا بلکہ حالات اور تربیت سے کوئی بھی اچھا لیڈر بن سکتا ہے۔ حالانکہ اس سے پہلے تھامس کارلائل نے بڑے آدمی کا تصور دیا تھا جس میں قیادت کی خصوصیات وراثت سے ملتی ہیں۔
کرٹ لیوین نامی سوشل سائکالوجسٹ نے سب سے پہلے لیڈرشپ کے نظریے پر کام کرکے قائد کی تین اقسام پیش کیں جن میں آمرانہ قائد جو ادارے کے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے، جمہوری قائد جو اپنے پیروکاروں کو اپنے فیصلوں میں جگہ دیکر ان کی آراء کا احترام کرے اور تیسری قسم وہ قائد جس کے ماتحت اپنے فیصلوں میں آزاد ہوں۔ یہی نظریہ بعد میں پیرنٹنگ سٹائل پر بھی چسپاں کیا گیا کہ ایک باپ اپنے بچوں کی قیادت بھی اسی انداز میں کرتا ہے کہ کسی کا گھر میں جمہوری رویہ ہوتا ہے اور کسی کا آمرانہ، علی ہذا القیاس۔۔۔ کرٹ لیوین کے بعد قیادت کو باقاعدہ درسی محور میں لایا گیا اور لیڈرشپ کے نت نئے نظریے سامنے آئے جن میں ٹرانسفورمیشنل لیڈرشپ، ٹرانزیکشنل لیڈرشپ اور کرشماتی قیادت قابل ذکر و غور ہیں۔ قائد کی خوبیوں کو باقاعدہ جانچا گیا۔ ٹیم مینیجمنٹ، موٹیویشن، فیصلہ سازی، پیروکاروں سے روابط اور قائد کی ذمہ داریاں جیسے مباحث پر سیرحاصل معلومات سامنے لائی گئیں۔ قیادت چونکہ گروپ سے ابھرکر آتی ہے اس ضمن میں گروپ کے پروسس، اسکے ممبرز کا آپس میں اور بیرونی گروپ سے تعامل، لیڈر کا گروپ پر کنٹرول اور سکے اختیارات، گروپ میں اختلافات، تنازعات اور انکا حل جیسے موضوعات پر سماجیات اور نفسیات میں کھل کر تحقیقات آنے لگیں۔ جامعات میں قیادت کے مخصوص کورس متعارف کرائے گئے اور کوچنگ سنٹر، لیڈرشپ ٹریننگ، ٹیم مینیجمنٹ کے نام پر دنیا بھر میں ورکشاپ کا اہتمام ہوتا رہا جس میں بعض ٹرینرز نے بڑا نام و دام کمایا۔
قصہؑ مختصر، ایک بہترین قائد میں کونسے خواص ہونے چاہیں جن کی بنا پر وہ گروپ کے دوسرے لوگوں سے ممتاز نظر آئے اب تک کی ریسرچ کے مطابق، درج ذیل باتیں ایک مثالی قائد کی پہچان ہوتی ہی؛
1۔ بولنے کی صلاحیت: تقریر ہو یا تحریر، قائد کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہیئے۔ اسکے پاس اچھے اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز جیسے عناصر کا ذخیرہ لازمی ہے۔ طلبا میں قیادت کا شوق جگانے کے لئے تحریری و تقریر مقابلے کروانے سے یہ کام ہوجاتا ہے۔
2۔ معلومات کا ذخیرہ: دنیا میں جتنے بھی کامیاب لیڈر گزرے ہیں ان میں مطالعہ کرنے اور نئی معلومات اکٹھی کرنے کا جذبہ گرم رہتا تھا۔ کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لئے قائد کے پاس مفید معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ قائد اپنی معلومات کی بنیاد پر جو اچھا یا غلط فیصلہ کرےگا اس کا براہ راست اثر اس کے پیروکاروں اور متعلقہ ادارے پر پڑے گا۔ بعض اوقات غلط معلومات یا معلومات نہ ہونے کی وجہ قائد ناقابل تلافی غلطی کا شکار ہوجاتا ہے۔
3۔ جذباتی ذہانت: بعض لوگوں کا آئی کیو لیول انتہائی بلند ہونے کے باوجود بھی وہ دوسروں کو صحیح طرح سے گائیڈ نہیں کرسکتے اور بڑے بڑے ذہین لوگ بھی ٹیم مینجمنٹ میں ناکامی کا سامنا کرتے ہیں۔ اسکی سادہ سی وجہ جذباتی ذہانت کا نہ ہونا ہے۔ اپنے گروپ کے ممبرز کے مثبت اور منفی جذبات کو تاڑلینا اور خود اپنے جذبات پر قابو رکھنا، یہ بات اپنے اندر اچھے لیڈرشپ کی ضمانت دیتی ہے۔
4۔ فیصلہ سازی کی قوت: نارمل حالات کی طرح مشکل اور ہنگامی حالات میں ہر ایک اپنے آپ کو ایک مفید فیصلہ ساز نہیں کرپاتا۔ متاثرکن قائدین کی بائیوگرافی میں یہ بات سنہری حروف سے لکھی ہوگی کہ وہ کس طرح پیش بینی سے فیصلے کرتے تھے۔ ایک جمہوری قائد ہمیشہ اپنے فیصلوں میں اسکے گروپ کے لوگوں کو شامل کرکے نہ صرف انکی حوصلہ آفزائی کرتا ہے بلکہ انکی عزت نفس کا بھی خیال رکھتا ہے۔ بصورت دیگر، آمر قائد میں اپنے ماتحت لوگوں سے رائے لینے کا احساس مفقود ہوتاہے۔
5۔ اعتماد، کمٹمنٹ، مثبت رویہ، سہولت کاری، پابندی وقت اور موٹیویشن وہ صفات ہیں جو کسی نااہل انسان کے سر پر بھی قیادت کا تاج رکھ سکتی ہیں۔ نفسیاتی محققین نے اس سلسلے میں مزید کئی ایک شخصیت سازی کے اصول کا ذکر کیا ہے جو اچھے لیڈر کی پہچان پر دلالت کرتے ہیں۔ اس بارے میں زیر نظر عنوان پر لکھی گئی کتابوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔