ہوم << جماعت اسلامی فکری محاذ پر کیا کرے؟ احمد حامدی

جماعت اسلامی فکری محاذ پر کیا کرے؟ احمد حامدی

احمد حامدی اس کا ادراک ہر تحریکی کو ہونا چاہیے کہ تحریکِ اسلامی کو اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے، کس پائے کے کارکنان تحریک کو درکار ہیں، کس پہلو پر زیادہ زور دیا جانا چاہیے، ہماری کمزوریاں کیا ہیں اور ان کو کیسے دور کیا جائے۔ تحریک سے وابستہ افراد، پروگرامات میں شرکت کرنے والے فعال تحریکی اور قائدین کے قریب رہنے والے کارکنان یہ جاتنے ہیں کہ تحریک اسلامی کو اس وقت سوچ رکھنے والے، بات کو گہرائی سے سمجھنے والے اور درپیش مسائل پر علمی دسترس رکھنے والے مستقل مزاج لوگوں کی اشد ضرورت ہے۔
اس سے انکار کرنا مشکل ہے کہ تحریک میں ہمارے بعض سیاسی رویوں سے اختلاف کرتے ہوئے یا اپنے مزاج سے مجبور بہت سے کام کے لوگ نظریاتی طور پر ہمارے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہم سے دور ہیں۔ بعض اوقات معمولی سی بات پر کام کے لوگ ہم سے دور ہو جاتے ہیں، کہیں وہ اعتراض کرتے ہیں اور ان کو درخور اعتنا نہ سمجھ کر خود سے دور کر دیا جاتا ہے، کہیں ان کو کتابی بندہ سمجھ کر پیچھے کی صفوں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ تمام صفوں سے نکل جاتا ہے۔ مطلوب لوگوں کا ہم سے دور ہو جانا ہمارے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ ایسے لوگوں کا ہمارے درمیان رہنا ضروری ہے جو سوچنا و لکھنا جاتنے ہیں اور فکری کام کی صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ وہ تحریک کی فکری ضروریات کو محسوس کریں، خامیوں پر نظر رکھیں، ہمیں ہمارے اصولوں سے قریب رکھیں اور دور جانے پر ہمیں متنبہ کریں۔
یہ درست ہے کہ ہمارے پاس اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو اچھا علمی مقام رکھتے ہیں اور اس لحاظ سے ہم دوسری تمام جماعتوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔ لیکن ہمارا نظریاتی مقابلہ پی ٹی آئی یا مسلم لیگ جیسی طاقتوں سے نہیں ہے۔ نظریاتی لحاظ سے تو ہم ان نظریات کے مدمقابل ہیں جن کے پیچھے عالمی قوتیں ہیں۔ یعنی ہم عالمی قوتوں کے حریف ہیں۔ ہم مولانا مودودیؒ کے زمانے میں بھی اور بعد کے عرصہ میں بھی فکری و نظریاتی لحاظ سے عالمی طاقتوں کے مقابل رہے ہیں۔ جب مقابلہ اس نوعیت کا ہے تو پھر ہر صلاحیت رکھنے والے کو ہمارے کیمپ میں ہونا چاہیے، اس کیفیت میں ہر فرد کے لیے سپیس پیدا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
اگر ہم فکری میدان میں ثابت قدمی دکھائیں اور مخالف نظریات کا اچھا مقابلہ کریں تو یہ ہماری دیرپا فتح ہوگی۔ سیاسی میدان میں آج آپ جیت جائیں گے، تو کل کو کوئی اچھی کمپین کرکے دوسرا جیت جائے گا لیکن نظریاتی کمپین روز روز نہیں ہوتی، ایک جیت کی وجہ سے بعض اوقات صدیاں حکومت کرنے کو ملتی ہیں۔ دنیا مانتی ہے کہ مولانا مودودیؒ نے نظریاتی میدان میں بڑی طاقتوں کو شکست دی تھی اور ان ہی کے رہین منت آج بھی ہم نظریاتی میدانوں میں کہیں فاتح تو کہیں مقابلہ پے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس لیے فکری محاذ کی اہمیت کے پیش نظر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس میدان میں ایک بار پھر جیت کر دکھائیں اور نئے و پرانے مسائل کو جدید علمی اسلوب میں حل کرنے کو اپنا ہدف بنائیں۔ یقیناَ ہماری آج کی جیت پر تحریکی اسلامی کی آنی والی نسل آئندہ ایک صدی تک نظریاتی حکومت کرے گی۔
اہل علم پیدا کرنے اور ان کو اپنے قریب لانے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ عام کارکن بھی علمی اپروچ رکھتا ہو۔ وہ اس لیے تحریک کا حصہ نہ ہو کہ ان کے والد یا دادا تحریک سے وابستہ رہے ہیں بلکہ اس لیے تحریک کا حصہ ہو کہ وہ تحریک کے نصب العین، کام و طریقہء کار کو شعوری طور پر سمجھ چکا ہے اور اس پر اپنی عملی زندگی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔ ہماری تحریکی جامعیت ہم سے علمی جامعیت کا تقاضا کرتی ہے۔ کارکنان کا علم صرف اس حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے کہ شراب کی بوتل کو شہد کی بوتل کہنے والے کا نام کیا ہے اور اس کا تعلق کس پارٹی سے ہے۔ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ پاکستانی سیاست، ایشائی سیاست، بین الاقوامی سیاست میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ عالمی اداروں کی حیثیت اور ان کے کام پر ہماری نظر ہونی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ معاشرت و معیشت میں کون کون سے نئے نظریات سر اٹھا رہے ہیں اور اسلامی نظریات کے حوالے سے کیا کیا ہو رہا ہے، اپنے کیا کر رہے ہیں اور غیر وں کا ہدف کیا ہے ۔۔۔۔ الغرض تحریک کے کارکنان کے پاس اتنا کچھ ہونا چاہیے جو عام معاشرے سے بہت سے زیادہ ہو۔

Comments

Click here to post a comment