ہوم << سیدہ سیدین کون ہیں؟ روبینہ فیصل

سیدہ سیدین کون ہیں؟ روبینہ فیصل

سوشل اورالیکڑانک میڈیا کے اس زمانے میں جہاں بات آواز کی سپیڈ سے نہیں بلکہ روشنی کی سپیڈ سے پھیلتی ہے، ایسے میں بھی ہماری کم علمی اور کوتاہی کہ بہت سے نگینے نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اس میں عام لوگوں کا قصور شاید اتنا زیادہ نہیں جتنا متعلقہ ذمہ دار محکموں کا ہے۔ کچھ تاریخی افراد کی تصویریں ذہنوں میں نقش ہیں اور اس سے ہی ہم ان کی عادات و اطوار اورکارناموں کا اندازہ لگانے کی کوشش کر تے ہیں۔ سرسید احمد خان کی طرح، مولانا الطاف حسین حالی، جنہیں شمس العلما کہا جا تا تھا، ہمارے تصور میں ایک داڑھی والے مولانا کے سوا کچھ اور نہیں آتے۔ مسدس ِحالی کی یاد اتنی سی ہے کہ سرسید احمد کے کہنے پر مولانا حالی نے مسلمانوں کی زبوں حالی پر لکھی تھی۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ دونوں دوست تھے۔ حالی کے مقدمہ، شعر و شاعری کا ذکر بھی سن رکھا تھا ، کہ ایک ادبی تنقیدی کتاب ہے۔ شاعر تھے، ہاں ضرور تھے، مگر غزل کے محبت اور عورت کے مضمون سے نکل کر نظم کو وسعت ِموضوع کی وجہ سے اپنا لیا تھا، شاید پہلے شاعر تھے جنہوں نے قلم کو معاشرے کی اصلاح کے لیے استعمال کیا۔ مناجات بیوہ لکھی، چپ کی داد جیسی نظم کبھی کہیں پڑھائی گئی؟ عورتوں کی تعلیم اور ان کے حقوق پر زور دیا۔ اگر سرسید احمد خان اور مولانا حالی کی داڑھی والی تصویریوں سے آگے ان کی بصیرت سے بھی ہمیں روشناس کر وایا جاتا تو خدا کی قسم انڈیا اور پاکستان کے غریب خاص کر کے عورتیں ظلم کی چکی میں ایسے نہ پستے۔
مولانا حالی نے اردو میں بائیو گرافی لکھنے کا آغاز کیا، شیخ سعدی ، مرزا غالب اور سرسید احمد کی زندگیوں پر لکھا۔ وہ لوگ اپنا کام کر گئے، آگے اس شمع کی روشنی پھیلانا کس کی ذمہ داری ہے؟ آج تک اس کا فیصلہ ہی نہیں ہو پایا اور یہ لوگ جو ٹیسٹ آف ٹائم پاس کر کے زندہ ہیں مگر فراموش ہیں۔ ہمارے اندر ان کی تعلیمات زندہ ہوتیں تو معاشرے کے یہ مصلح آج قبروں میں بے قرار اور زندہ انسان درگور نہ ہو تے۔
سوال یہ ہے۔ سیدہ سیدین کون ہیں؟
یہاں تک کالم پڑھنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو محترمہ سیدہ کی کھوج سے پہلے کھوجیے مولانا حالی کو، سجاد حسین کو ، اور خواجہ احمد عباس کو۔ کیا ہم ان مشہور شخصیات کو، ان کے ناموں سے آگے جانتے ہیں؟ آپ سب ایمانداری سے جواب دیں گے تو وہ نہ میں ہوگا۔ مان جائیے کہ ہم ان شخصیات سے نا آشنا ہیں۔ میں اس کالم میں ان میں سے کسی ایک شخصیت کو بھی نہیں سمو سکتی، مگر پڑھنے والوں سے گذارش کرتی ہوں کہ پڑھیے، جانیے اور کھوج کیجیے، ان لوگوں کی جنہوں نے اپنی زندگیاں، مسلمانوں کی تعلیم، سدھار اور عزت ِنفس کی بحالی کے لیے وقف کر دی تھیں۔ ان کا پیغام سمجھ آجائے گا تو دنیا میں جینے کا ڈھنگ بھی آجائےگا اور سر دنیا کے آگے خو د بخود اٹھ جائے گا۔ اور پھر آپ سیدہ صاحبہ کو بھی تلاش کر لیں گے ۔
میری خوش قسمتی کہ ڈاکٹر تقی عابدی کے دولت کدے پر سیدہ صاحبہ کو سننے کا اتفاق ہوا۔ خوبصورت اور گوری چٹی، کشمیر میں پیدا ہو نے والی، دھان پان خاتون کو اپنی نرم و نازک آواز میں مسدس ِحالی اور دوسری کتابوں سے اردو بند، انگریزی ترجمہ اور پھر رومن میں دلنشین انداز میں پڑھتے سنا تو نجانے کیوں احساس ہوا جیسے اس نزاکت کے پیچھے مولانا حالی صاحب کا رعب دار وجود پوری تمکنت کے ساتھ سہارا دیے کھڑا ہے۔ ورنہ کہاں یہ نرم و نازک سا وجود کہاں 25کتابیں، جن میں ابو لکلام آزاد، عصمت چغتائی اور مولانا حالی کے کام کے تراجم بھی شامل ہیں۔ ساری عمر انگریزی سکولز میں پڑھنے والی، اردو میں بھی مکمل مہارت رکھتی ہیں۔ اردو ادب کے شاہکار پاروں کا انگریزی میں ترجمہ بلاشبہ اردو ادب کی بہت بڑی خدمت ہے، نئی نسل تک، اردو ادب کسی بھی طریقے سے پہنچے، انگریزی تراجم کے ذریعے یا رومن کے ذریعے، لیکن پہنچا نے کی ٹھان رکھی ہے۔
میں نے جب دستک کے لیے ان کاا نٹرویو کیا تو مجھ پر حیرت کے مزید در وا ہوئے ، انہوں نے voice of the voiceless صرف لکھی نہیں بلکہ گاؤں گاؤں جا کر بے بس عورتوں کے لیے عملی کام بھی کیا۔ نیشنل کمیشن فار وومن کی ممبر تھیں، بتاتی ہیں ایک ایک کیس کو خود سن کر حل کر تی تھیں، اسلام کے نام پر مرد کو مولوی کی دی ہوئی ناجائز شے، جس میں تین طلاقیں، حق مہر، چھوٹی عمر کی لڑکیوں سے شادیاں، ایک سے زیادہ شادیاں، کو ببانگ ِدہل چیلنج کیا:
دیش میں عورت اگر بے آبرو ناشاد ہے
دل پر رکھ کر ہاتھ کہیے دیش کیا آذاد ہے
سیدہ صاحبہ پہلی مسلمان خاتون قاضی بھی ہیں، جنہوں نے نکاح پڑھوایا، اور گواہوں میں دو مردوں کے بجائے چار عورتوں کی گواہی ڈلوائی، جب وہ مجھے یہ بتا رہی تھیں، پھر سے ان کے چہرے پر مجھے مولانا حالی صاحب کی پرچھائیں نظر آئی ، ورنہ یہ ذرا سا وجود اور طاقت ور مولوی کا مقابلہ؟
میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ آپ میں یہی ٹیلنٹ، یہی جذبہ اور یہی لگن ہو تی، مگر آپ مولانا حالی کی پڑپوتی نہ ہوتیں، سجاد حسین آپ کے دادا، سیدین ،آپ کے ابو اور خواجہ احمد عباس آپ کے چچا نہ ہو تے تو کیا آپ یہ سب کام کر پاتیں؟ ۔
عاجزی سے بولیں جو ہمت کے ساتھ ساتھ مولانا صاحب کی میراث ہے؛ افسوس کے ساتھ کہتی ہوں کہ نہیں کر پاتی۔
سوچتی ہوں شاید کر بھی پاتیں مگر اس وقار اور عزت کے سا تھ نہیں۔ عام گھرانوں کی عورتوں کو مواقع حاصل کر نے کے لیے، آگے بڑھنے کے لیے، آج کے ماڈرن دور میں بھی، کسی نہ کسی صورت کوئی نہ کوئی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والے، عورتوں کی اقتصادی اور سماجی اہمیت کو منوانے کے لیے لمبی لمبی لڑائیاں لڑنے والے یہ لوگ برصغیر کی مٹی کا اثاثہ ہیں، اس مٹی کے امن اور خوشحالی کے لیے، اب اس اثاثے کا استعمال ناگزیر ہوگیا ہے۔
بتاتی ہیں کہ : ہندوستان کے چپے چپے کا سفر کیا، عورتوں کی کہانیاں سنیں، کیرالہ وغیرہ جہاں کسی زمانے میں عورتوں کے ناموں سےگھروں کی پہچان ہوتی تھی، کہ فلاں بی بی کا گھر ہے، عورتوں کی empowerment کو دکھاتا تھا، اب ایسے علاقوں میں عورتوں کے خلاف ہو نے والے جرائم سے ہم پریشان ہیں.
جگمگاتے چہرے سے بتایا کہ: امن کی خاطر، دہلی سے لاہور اور کلکتہ سے ڈھاکہ تک عورتوں سے بھری بسیں چلائیں، کارگل کی لڑائی کے دن تھے، اور ہم سب عام عورتیں تھیں، حکومت یا کسی فنڈ سے نہیں، اپنے اپنے خرچے سے جا رہی تھیں، سرحد پار سے استقبال کے لیے آنے والی خواتین نے بھی اپنےگھروں اور دل کے دروازے کھول دیے، پھر وہاں سے بھی عورتوں کی بس، اسی طرح ہمارے نقش ِقدم پر چلتی ہوئی، اپنے خرچے پر آئی۔ ہم نے بھی پرجوش استقبال کیا، پھرحکومتی نمائندے اور سیاستدان بھی ملے۔ عورتیں امن میں سب سے بڑی سٹیک ہولڈر ہو تی ہیں، اس لیے جتنے جذبے سے وہ امن کے لیے کام کر سکتی ہیں، کوئی اور نہیں۔
میں نے پو چھا: آج کل کے حالات دیکھ کر، جس میں امن پھر کونے کھدرے میں جا چھپا ہے، آرٹ اور آرٹسٹ کو سرحدوں سے نکالا جا رہا ہے، انتہا پسندی اپنے پورے عروج پر ہے، ایسے میں آپ کی کی گئی کو ششیں تو ضائع گئیں؟
چمکتا، دمکتا چہرہ پل بھر کو سیاہ پڑ گیا، افسردگی سے بولیں، ہاں یہ سب حالات دیکھ کر دل بہت دکھی ہوتا ہے، ہم ہندوستان میں اس رویے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔
کمرہ ایک دفعہ پھر سے مولانا حالی کے وجود سے بھر گیا جیسے کہہ رہے ہوں :
ظلم اور سامراجیت سے آزادی حاصل نہیں ہو ئی۔ امن کے لیے جنگ جاری ہے۔

Comments

Click here to post a comment