ہوم << پاکستان میں فیصلہ کن قوت - راجہ کاشف علی خان

پاکستان میں فیصلہ کن قوت - راجہ کاشف علی خان

راجہ کاشف علی خان
پاکستان آرمی ہمارے ملک کی جغرافیائی حدود کی محافظ ہے اور اس کا کام صرف سرحد کی حفاظت ہی ہو ناچاہیے لیکن بدقسمتی سے لکھنا پڑتا ہے کہ سیاسی قوتوں کے غیر دانش مندانہ فیصلوں اور آپسی لڑائیوں نے چند جرنیلوں کو جواز فراہم کیا کہ وہ ملک میں مارشل لا لگا دیں ۔
جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف چار ایسے جنرل ہیں جو ریاست پا کستان کے آئین کو کالعدم یا معطل کر چکے ہیں ۔ پاکستان کے پہلے چیف آف آرمی اسٹاف جنر ل سر فرینک مسروی سے لے کر جنرل راحیل شریف تک پندرہ جنرل پاکستان آرمی کی قیادت کر چکے ہیں متذکرہ بالا چار جنرل حضرات کو چھوڑ کر باقی سب ہی غیر متنازعہ رہے۔
اگر ہم تاریخ انسانی کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ طاقتور افراد کے ہاتھ میں ہی کارِ سلطنت رہا ہے. یہ تمام طاقتور افراد یا تو خود تلوار لے کر میدان جنگ میں کھڑے ہوتے تھے یا فوج پر مضبوط گرفت ان کی کامیابی ضمانت تھی۔ محلاتی سازشیں حکمرانِ وقت کے لیے ایک وبال ِجان ہوا کرتی تھیں، جانشین کی نامزدگی کے بھائیوں، باپ بیٹوں اور ملکہ و رانیوں میں سرد جنگیں خونی جنگوں میں تبدیل ہو جاتیں، یہ خونی جنگیں بھائیوں، بیٹوں یا باپ کے قتل یا قید کی صورت میں ختم ہوتیں یا سلطنت کے بٹوار کا موجب بن جاتیں۔ اس صوتحال میں عوام کی حالت قابل رحم ہی رہتی، ان کے نصیب میں تو جی حضوری لکھی ہوئی تھی، بادشاہ کوئی بھی ہو ان کی حالت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ دنیا کے کئی حصوں پر رحم دل اور عادل بادشاہ بھی گزارے، خلفائے راشدین کے عہد کا مقابلہ دنیا کا کوئی عادل و رحم دل بادشاہ نہیں کرسکتا لیکن یہاں پر بھی جب تک مضبوط گرفت سلطنت کے تمام امور پر رہی ، کاروبار سلطنت بطریق احسن چلتا رہا اور جب معاملات پر گرفت کمزور ہوئی، نتیجہ جنگ و جدل کی صورت میں نکلا، پھر اس وجوہات چاہے کوئی بھی رہی ہوں، بالآخر یہ اسلامی سلطنت بھی تقسیم کے مرحلے سے گزری اور رفتہ رفتہ خلفائے راشدین کا قائم کردہ نظام بھی بادشاہت میں تبدیل ہو گیا۔
یورپ میں بادشاہت کے حصول اوراس کی بقا کے لیے جنگوں کی ایک طویل داستان ہے۔ جب یورپی اقوام آپس میں لڑ لڑ کر تھک گئیں تو انھوں نے ڈیموکریسی ایجاد کی تاکہ تاج و تخت کے حصول کے لیے جنگوں کو روکا جا سکے ۔اس نظام میں طاقت کا سرچشمہ عوام قرار پا ئے تاکہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو منتخب کر کے اپنی مرضی کی حکومت قائم کریں، وار لارڈ کی جگہ سیاسی قائدین نے لے لی اور جنگی گروہ سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہو گئے اور یہ تبدیلی چند دنوں میں نہیں آئی اس کے لئے ایک طویل سفر طے کیا گیا۔جمہوری رویے اپنائے گئے ، سیاسی روایات قائم ہوئیں ، امن اور استحکام کی بدولت تعلیم عام ہوئی ، شعور اجتماعی طور پر بیدار ہوا تو آج کی تاریخ میں کوئی ٹیکس چوری کرنے والا، کوئی کرپٹ یورپ کے کسی ملک میں صدر یا وزیر اعظم نہ بن سکتا ہے اور نہ کسی الزام کے تحت اپنی حکمرانی جاری رکھ سکتا ہےاور صدر اور وزیر اعظم تو دور کی بات کسی عام شخص پر بھی کوئی کسی قسم کا الزام عاید کرنے سے ڈرتا ہے کہ اگر میں نے الزام عاید کیا اورپھر اس الزام کو عدالت میں ثابت نہ کر سکا تو بھاری ہرجانے کو بھگتنا پڑے گا۔ یورپ کا یہ معاشرہ معاشرتی برائیوں اور خامیوں میں کس قد رگھیرا ہوا ہے یہ ایک الگ بحث ہے لیکن آج یورپ تر قی یافتہ بھی ہے اور ہم اس کی مثالیں دینے پر بھی مجبور ہیں
ریاست پاکستان ایک بادشاہت کے الم ناک خاتمے اور انگریزی سماراج کے خلاف طویل سیاسی و جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں معرضِ موجود میں آیا ۔
بانی ِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اقوال ، تقاریر ، ان کے انٹریوز اور معروف نعرہِ آزادی " پاکستان کا مطلب کیا ؟ لاالہ اللہ " سے ثابت ہے کہ ریا ست پاکستان ایک اسلامی ریاست کے طور پر حاصل کی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خلافت راشدہ کا نظام روز اول ہی نافذ کرنے کی حکومتی کوشش کی جاتی تو کسی کو چور دروازے سے اقتدار حاصل کر نے کا خیا ل نہ آتا لیکن بدقسمتی سے کوئی راہ ہی متعین نہ کی گئی ، کوئی سمت ہی نہ دکھائی گئی ۔ اب یہ ناکامی کس کے کھاتے میں ڈال دی جائے؟سیاست دانوں کو مجرم قرار دیا جائے ! اسٹیملشمنٹ اور بیورکریسی کو موردِالزام ٹھہرایا جائے؟ جواب ایک ہی آتا ہے اگر ظلم ہو ا تو ریاست پاکستان کے ساتھ ہو ا اور اس کا خمیازہ بھگتا تو عوام ِ پاکستان نے بھگتا!
پے در پے سیا سی حکومتوں کی ناکامی اور مارشل لاء کی آمد سے ریا ست اور عوام کے حصے میں کیا آیا؟
آدھا ملک گنوایا۔۔۔!
دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبونے کا زخم جھیلا۔۔۔!
نوے ہزار جوان دشمن کی قید میں دینے کی حزیمت برداشت کی۔۔۔!
لیکن اربابِ اختیار جن میں خاص طور پر سیاست دان شامل ہیں ، کچھ نہیں سیکھا ۔۔۔!
آج پھر ریاست ِ پاکستان اور عوام ِ پاکستان تختہ مشق بنے ہوئے ہیں!چند سیاست دان اپنی انا کی خاطر۔۔۔!
ہوس ِ اقتدار کے لئے دست و گریباں ہیں ۔۔۔!
اس ساری کشمکش کے نتیجے میں عوام ِ پاکستان تعلیم و تربیت سے محروم رہ گئے جس کی وجہ سے ان میں اجتماعی شعورہی بیدار نہ ہو سکا، جمہوریت کے اس فلسفے میں اگر طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیا جاتا ہے تو عوام کی صحیح سیا سی تعلیم و تربیت بھی ضروری ہوتی ہے لیکن اس کمی کے سبب فیصلہ کن طاقت کا سر چشمہ کہیں اور منتقل ہو گیا ۔۔۔!
سیاسی قائد ین وار لارڈ ز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں ۔۔۔! اور سیا سی جماعتیں جنگجو گروہوں میں بدلتی جا رہی ہیں ۔۔۔!
اس بات کے ثبوت میں کسی بڑی دلیل کی ضرورت نہیں ہے چند سالو ں کی ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔
میں جمہوریت پسند بھی ہوں اور جمہوریت کے تسلسل پر یقین بھی رکھتا ہوں اس وقت ریاست کے اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ موجود ہیں ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ضرور ہے لیکن ان ڈھانا یا یرغمال بنانا ریاست پاکستان کے ساتھ وفا داری بالکل تصور نہیں کی جا سکتی۔

Comments

Click here to post a comment